یوپی :ہر استاد اور طالب علم کا ریکارڈ اے ٹی ایس میں جمع کرانا لازمی

,

   

حالیہ بم دھماکوں اور ملک بھر میں بڑھتے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ریاستی حکومت کا اقدام
نئی دہلی ۔ 19 نومبر (ایجنسیز) اتر پردیش حکومت نے مدارس کے نظام سے متعلق ایک اہم اور سخت فیصلہ لیتے ہوئے ایک نیا سیکورٹی پروٹوکول نافذ کردیا ہے۔ حالیہ دنوں میں قومی دارالحکومت دہلی میں پیش آئے بم دھماکوں اور ملک بھر میں بڑھتی سیکورٹی تشویشات کے بعد ریاستی حکومت نے تمام سرکاری و غیرسرکاری مدارس کو ہدایت دی ہے کہ وہ اساتذہ، مذہبی تربیت دہندگان اور طلباء کا مکمل ریکارڈ انسدادِ دہشت گردی اسکواڈ (ATS) کے پاس جمع کرائیں۔اے ٹی ایس کی جانب سے ضلع اقلیتی بہبود افسران کو بھیجے گئے سرکاری مراسلے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست کے درج شدہ اور غیر درج شدہ تمام مدارس کے لئے یہ عمل لازمی ہے۔ مراسلے کے مطابق ہر مدرسے کو اپنے یہاں تعینات تمام اساتذہ اور اسٹاف کی ذاتی معلومات، مستقل پتہ، موبائل نمبر، آدھار کارڈ سمیت شناختی دستاویزات کو باقاعدہ ریکارڈ کی صورت میں اے ٹی ایس دفتر میں جمع کرانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی مدرسوں میں زیر تعلیم ہر طالب علم کا نام، عمر، موبائل نمبر، رہائشی پتہ اور دیگر بنیادی تفصیلات بھی فراہم کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔سیکورٹی ایجنسیوں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ عمل محض سروے یا ڈیٹا اکٹھا کرنے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل سیکورٹی آڈٹ ہے جس کا مقصد ممکنہ خطرات کی بروقت نشاندہی کرنا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق گزشتہ چند مہینوں میں مختلف مذہبی و نجی تعلیمی اداروں میں باہر سے آنے والے نوجوانوں کی بڑھتی آمد و رفت نے خفیہ ایجنسیوں کو الرٹ کر دیا تھا، جس کے بعد مدارس کے پس منظر کی باریک بینی سے جانچ کی ذمہ داری اے ٹی ایس کو تفویض کی گئی۔دہلی دھماکوں کے بعد مرکزی اور ریاستی سلامتی اداروں کو ہائی الرٹ موڈ پر رکھا گیا ہے۔ تمام ریاستی سیکورٹی یونٹس کو حکم دیا گیا ہے کہ مذہبی اور تعلیمی اداروں میں آنے والے ہر فرد کی شناخت کی سخت تصدیق کی جائے اور مشکوک حرکات پر فوری کارروائی کی جائے۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر اتر پردیش میں مدارس کے ریکارڈ جمع کرنے کا عمل تیزی سے شروع ہو چکا ہے۔یہ جانچ صرف مدارس تک محدود نہیں رہی، بلکہ کچھ نجی یونیورسٹیوں کو بھی اسکروٹنی کا سامنا ہے۔ لکھنؤ کی انٹیگرل یونیورسٹی اس وقت انٹیلی جنس ایجنسیوں کی توجہ کا مرکز بنی، جب دہلی دھماکوں کی تفتیش کے دوران اس یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر پرویز انصاری کا نام سامنے آیا۔ اس کے بعد انٹیلی جنس محکمے نے یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے تمام اساتذہ کی شناختی تفصیلات کے ساتھ کشمیر سے تعلق رکھنے والے زیر تعلیم طلباء کا مکمل ریکارڈ جمع کرائے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی میں موجود غیر ملکی طلباء کی تعداد، کورسز اور ان کے کردار سے متعلق رپورٹ بھی مانگی گئی ہے۔ ریاستی حکام کا کہنا ہے کہ یہ قدم کسی مخصوص ادارے کے خلاف کارروائی کے طور پر نہیں لیا گیا، بلکہ ریاست گیر سیکورٹی کے پیش نظر ایک احتیاطی پالیسی کا حصہ ہے تاکہ ممکنہ خطرات کو ابتدا ہی میں روکا جاسکے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس عمل کے ذریعے ریاست میں امن و امان کو مزید مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔