یوکرین اور روس 200 جنگی قیدیوں کے تبادلے پر رضامند: رجب طیب اردغان

   

استنبول: ترک صدر طیب اردغان نے کہا ہیکہ یوکرین اور روس نے 200 جنگی قیدیوں کے تبادلے پر ہامی بھرلی۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک صدر طیب اردغان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات کی تھی اور یوکرین جنگ کے حوالے سے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا تھااجلاس کے بعد اپنے ملک پہنچنے پر ترکیہ کے صدر نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ روس اور یوکرین نے 200 قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کرلیا ہے جو کہ بڑی خوش آئند بات ہے۔ترک صدر طیب اردغان نے مزید کہا کہ روسی صدر کی گفتگو سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جنگ کے فوری خاتمے کی خواہش رکھتے ہیں۔خیال رہے کہ فروری سے جاری روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث عالمی سطح پر تیل اور گیس کے بحران کا خدشہ ہے جب کہ اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔عالمی قوتوں نے روس سے تیل و گیس کی خریداری پر پابندی عائد کر رکھی ہے جس سے خود روس کو بھی معاشی بحران کا سامنا ہے اور دو محاذوں پر یوکرینی فوج کے ہاتھوں پسپا بھی ہونا پڑا ہے۔

ہم دنیا کا حصہ ہیں، نہ مشرق اور نہ مغرب کا : اردغان
نیویارک: صدر اردغان نے نیویارک میں امریکی PBS چینل کے مہمان کی حیثیت سے خارجہ پالیسی اور عالمی ایجنڈے کے بارے میں اپنے جائزے پیش کیے۔انہوں نے یہ سوال کہ آپ کا شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت کا ارادہ رکھتے ہیں، اس تنظیم میں روس، چین اور ایران ہیں۔ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کی اقدار اور اہداف ناٹو سے بہت مختلف ہیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا ملک مشرق کا حصہ بنے یا پھر مغرب کا؟ کے جواب میں کہا کہ ہم دنیا کا حصہ ہیں نہ صرف مشرق اور مغرب کا… ہمارے لیے ہمارے ملک کا ایک بڑا حصہ جغرافیائی طور پر مشرق سے تعلق رکھتا ہے۔ مغربی حصہ الگ ہے۔ لیکن یورپی یونین 52 برسوں سے ہمارے ساتھ ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔ تاہم، ہم نیٹو ملک ہیں۔ ہم نیٹو ملک ہونے کے باوجود بھی ناٹو ممالک ہمیں یورپی یونین کے عمل میں مصروف رکھتے ہیں۔ ہمیں مختلف عوامل میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ یورپی یونین ہمیں 52 سال تک تھامے رکھے گی، اس کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دے گی اور اس کے بعد ہماری ملاقاتوں میں ٹانگ جبکہ ہم یہ مذاکرات کر رہے ہیں، ہم اس وقت یورپی یونین کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں گے۔ ہم دنیا کے تمام ممالک سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔ اور ہم ایک خود مختار اور آزاد مملکت ہیں۔