یوکرین پر عالمی برادری کا دوغلا پن

,

   

سیاست فیچر
یوکرین پر روس کے حملوں کو لے کر ساری دنیا میں تشویش پائی جاتی ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان کسی زمانہ میں سرد جنگ کا جو ماحول پیدا ہوا تھا، اسی کا تسلسل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فی الوقت دنیا میں دوسری سرد جنگ جاری ہے اور اگر غیردانشمندانہ فیصلے کئے جاتے ہیں تو یہ دوسری سرد جنگ، تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ یہ جنگ دراصل امریکہ اور روس کے درمیان ہے، لیکن بہانہ یوکرین کو بنایا گیا ہے۔ یوکرین دونوں طاقتوں کے درمیان تباہی و بربادی کی لیباریٹری بن گیا ہے۔ امریکہ نے 70ء تا 80ء میں جس طرح سوویت یونین کو افغانستان میں پھنسا کر اس کا شیرازہ بکھیر دیا تھا، اسی طرح امریکہ نے فی الوقت روس کو یوکرین میں پھنسا دیا ہے، لیکن روس بڑی چالاکی سے حالات کا مقابلہ کررہا ہے۔ روس کے خلاف جہاں امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو (NATO) ممالک کھلے عام کوئی کارروائی کرنے سے گریز کررہے ہیں، وہیں اسرائیل بالواسطہ طور پر یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی مدد کررہا ہے۔ زیلنسکی خود یہودی ہیں اور انہوں نے ایک عالمی سازش کے تحت یوکرین کے عہدہ صدارت پر فائز ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک کامیڈین ہیں اور سامراجی طاقتوں کے بنائے گئے منصوبے کے مطابق پہلے زیلنسکی نے ایک ٹی وی سیریز میں یوکرین کے صدر کا کردار ادا کیا اور پھر اس کردار کو حقیقت میں ڈھال دیا اور ساری دنیا انہیں صدر یوکرین کی حیثیت سے دیکھ رہی ہے۔ اگر عالمی برادری ، یوکرین تنازعہ کو حل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پھر تباہی و بربادی عالمی برادری کے حصے میں آئے گی۔ اس تنازعے کے بارے میں آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ روسی فوجی کارروائی کے بعد تاحال تقریباً 3 ملین افراد نے یوکرین سے نقل مکانی کرکے دوسرے ممالک میں پناہ لی ہے، صرف پڑوسی ملک پولینڈ میں 18 لاکھ سے زائد یوکرینی باشندوں نے پناہ لی ہے جبکہ روسی اور یوکرینی فوج کو زبردست جانی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔ یوکرین کے دارالحکومت کیف میں بتایا جاتا ہے کہ اس کی 3.4آبادی میں سے نصف آبادی راہ فرار اختیار کرچکی ہے اور جو لوگ وہاں موجود ہیں، ان لوگوں نے میٹرو اسٹیشنوں اور بم شیلٹرس میں پناہ لے رکھی ہے۔ کچھ دن قبل یہ اطلاعات بھی آئی تھیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک کی تازہ پابندیوں کے نتیجہ میں روس کو 300 ارب ڈالرس کا نقصان ہوا ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ زیلنسکی نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ یوکرین، نیٹو کا ممبر نہیں بننا چاہتا۔ اسی مسئلہ کو لے کر روس نے یوکرین پر فوج کشی کی تھی۔ اب یوکرین ، روس کے کلیدی مطالبات پر غور کرنے رضامندی ظاہر کرچکا ہے۔
یوکرینی عہدیداروں کو یہ اُمید ہے کہ یہ جنگ ماہ مئی تک ختم ہوسکتی ہے۔ مغربی تجزیہ نگاروں کے مطابق روس اس حقیقت سے واقف ہوچکا ہے کہ وہ یوکرین میں اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کٹھ پتلی حکومت قائم نہیں کرسکتا۔ اسی دوران جو اطلاعات مل رہی ہیں اس میں بتایا گیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اعلان کردیا ہے کہ روس کو ڈرانے دھمکانے کیلئے یوکرین کو استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ اب تو انہوں نے یہ دھمکیاں دینی بھی شروع کردی ہے کہ وہ روس کے خلاف کام کرنے والوں کا صفایا کردیں گے۔ واضح رہے کہ روس میں حالیہ عرصہ کے دوران ایک سرکاری ٹی وی چیانل نے یوکرین میں جنگ کے خلاف عوامی احتجاج کی تائید کرتے ہوئے خلل پیدا کیا گیا تھا۔ نیوز اینکر خبریں پیش کررہی تھیں کہ اچانک ایک احتجاجی اس کے پیچھے پہنچ کر یہ کہنے لگی تھی کہ یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔ دوسری طرف روس نے صدر امریکہ جوبائیڈن کے اس ریمارک کو ناقابل معافی قرار دیا جس میں انہوں نے پیوٹن کو ’’جنگی مجرم‘‘ قرار دیا تھا۔ صدر یوکرین زیلنسکی نے بھی مغربی طاقتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ہتھیار فراہم کرے۔ دوسری رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ روسی صدر پیوٹن کا امریکی صدر جوبائیڈن جس انداز میں جنگی مجرم کا حوالہ دیا ہے، اس پر روس کافی برہم ہے۔ کریملن کے پریس سیکریٹری نے اس بارے میں کہا کہ امریکی صدر جوبائیڈن کا تبصرہ ناقابل قبول اور ناقابل معافی ہے۔ اس سے پہلے زیلنسکی نے کہا تھا کہ وہ یوکرین ، نیٹو میں شمولیت اختیار نہیں کرے گا۔ انہوں نے روس کی کئی شرائط ماننے کا بھی اشارہ دیا تھا۔ لیکن روس کی فوجی کارروائی اور فضائی حملوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں کئی افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ایک بات ضرور ہے کہ روس اور یوکرین کے اس تنازعہ کے نتیجہ میں عالمی معیشت ضرور متاثر ہورہی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ یوروپی ممالک میں پناہ گزینوں کے داخلوں کی وجہ سے بے چینی پھیلنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر اسپین میں تاحال 4,500 یوکرینی پناہ گزینوں کو پناہ دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دیوار ِ برلن نہیں بلکہ یہ وہ دیوار ہے جو وسطی یوروپ میں آزادی اور غلامی کے درمیان نصب کی جارہی ہے اور ہر بم کے ساتھ یہ دیوار بڑی ہوتی جارہی ہے۔ ایک طرف ساری دنیا روس اور یوکرین کی اس جنگ کو روکنا چاہتی ہے تو دوسری طرف ہندوستان اور پاکستان جیسے ممالک غیرجانبدار بنے ہوئے ہیں۔ ہندوستان چونکہ ایک بہت بڑا کنزیومر مارکٹ ہے اور بڑی طاقتوں کے ہمارے ملک سے مفادات وابستہ ہیں، ایسے میں کسی مغربی ملک نے یا وہاں کے سیاست دانوں میں یہ ہمت نہیں کہ وہ ہندوستان کو روس کی مذمت کیلئے کہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں مقیم بے شمار سفارت کاروں نے ایک مکتوب کے ذریعہ عمران خان حکومت پر زور دیا کہ وہ روس کی مذمت کریں۔ اسی طرح امریکی کانگریس کے دور ارکان نے بھی پاکستان پر روس کی مذمت کیلئے زور دیا ہے۔ یہ مسئلہ ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور دنیا پھر ایک مرتبہ معاشی انحطاط کا شکار ہوجائے گی۔ یوکرینی صدر زیلنسکی، روس کے حملوں کو 9/11 دہشت گرد حملوں سے تعبیر کررہے ہیں جس سے اُن کی ذہنیت اور پالیسیوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔