یوکرین ۔ روس تصادم سے چین کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا

   

ذاکر حسین
روس ۔ یوکرین تصادم اب ایک تشویشناک حد تک پہونچ گیا ہے اور یوکرین کے صدر نے بیلاروس میں بات چیت سے بھی اتفاق کرلیا ہے ۔ تاہم ابھی یہ دیکھنا ہوگا کہ آئندہ دنوں میں کیا صورتحال پیدا ہوتی ہے ۔ جب مغربی طاقتوں سے امید تھی کہ وہ فوجی سطح پر جواب دینگے انہوں نے معاشی اور سیاسی تحدیدات پر اکتفاء کیا ۔ امریکہ و مغربی ممالک نے پیچھے رہنا کیوں پسند کیا وہ ایک الگ کہانی ہے لیکن بظاہر یوروپ پوٹن کی برہمی جھیلنا نہیںچاہتا جبکہ امریکہ انڈو ۔ پیسیفک میں چین کیلئے اپنی توانائی بچائے رکھنا چاہتا ہے ۔
صدر پوٹن نے پڑوسی مشرقی یوروپی ممالک کو ناٹو میںشامل ہونے کے خطرناک عواقب سے خبردار کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کسی بھی چیز اور کوئی بھی چیز کیلئے تیار ہے ۔ وہ نیوکلئیر بھی استعمال کرنے تیار ہے ۔ تازہ رپورٹس میں دعوی کیا گیا ہے کہ صدر پوٹن نے نیوکلئیر مزاحمتی فوج کو بھی چوکس کردیا ہے ۔ ماسکو کو بھی یوکرین میں زیادہ قیام کے عواقب کا اندازہ ہے ۔ اسی لئے کیف میں جو کچھ بھی ہوگا وہ تیزی سے ہوگا اور مکمل ہوگا ۔ اگر امریکہ اور یوروپ سے کوئی موثر مزاحمت نہ ہوئی تو یقینی طورپر اس بحران سے چین کا فائدہ ہوگا ۔ ایک بھی گولی داغے بغیر چین نے تائیوان کو یہ پیام دیدیا ہے کہ جو غلطی یوکرین نے کی ہے اگر وہی غلطی تائیوان کرتا ہے تو اسے بھی تنہا جنگ کرنی ہوگی ۔ تائیوان کسی بھی حساب سے یوکرین کی برابری نہیں کرسکتا ۔ اس کا علاقہ بہت چھوٹا ہے اور حکمت عملی کے اعتبار سے یہ یوروپ کی توانائی ‘ سکیوریٹی اور استحکام کے اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل بھی نہیں ہے ۔
یوکرین کی یکساں مذہبی مماثلت ہے ۔ وہی سفید فام لوگ ہیں اور یوروپ میں روس کے خلاف ایک آگ کی دیوار بنانے میں اہمیت کے حامل ہیں۔ یوکرین میں پائی جانے والی گیس ایک اور عنصر ہے جسے روس کی گیس کا متبادل سمجھا جاتا ہے ۔ یوروپی عوام کی جملہ گیس ضروریات کا 40 فیصد حصہ روس پورا کرتا ہے اور 20 فیصد گیس براہ یوکرین جاتی ہے ۔ جبکہ تائیوان ایک دور دراز کا حلیف ہے ۔ اس کی امریکہ سے کچھ نظریاتی وابستگی ہے لیکن وہ بھی اتنی مستحکم نہیں ہے جتنی امریکہ اسرائیل کیلئے رکھتا ہے ۔ یوروپی اقوام چین کی معاشی صلاحیت کے تعلق سے الجھن کا شکار ہیں جس کی انہیں ضرورت ہے ۔ موجودہ انڈو ۔ پیسیفک ماحول میں تائیوان چین پر کنٹرول کیلئے بلی کا بکرہ ہے ۔
ہندوستان سے متعلق کیا ؟
ہندوستان کے موقف کے بارے میں سوال پیدا ہو رہے ہیں خاص طور پر ان ماہرین کے جو امریکہ سے قربتیں رکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ مضحکہ خیز لگتا ہے ۔ اس کا جواب دینے سے قبل یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ دنیا یکجہتی کیوں تقسیم ہوگئی ہے اور بائیڈن انتظامیہ نے فوج بھیجنے سے کیوں انکار کردیا جبکہ ہر کوئی شائد اسی کا منتظر تھا ؟ ۔
یوکرین مسئلہ پر غیرجانبدار رہنے کی ہندوستان کی دو وجوہات ہیں جنہیں موافق پوٹن سمجھا جاسکتا ہے ۔ پہلی یہ کہ روس ہندوستان کا ایک قابل بھروسہ حلیف ہے ۔ ہندوستان 1971 کی جنگ میں اقوام متحدہ میں روس کی جانب سے ادا کئے گئے رول کو فراموش نہیں کرسکتا ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کو یہ دیکھنا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کی دستبرداری کے بعد جو جغرافیائی و سیاسی چیلنجس ابھر رہے ہیں ان سے کس طرح نمٹا جائے ۔ اس سب سے زیادہ مغربی سرحدات پر چین کی جارحیت پر امریکہ اور مغرب کا رد عمل مایوس کن رہا تھا ۔ یوکرین پر ہندوستان کے موجودہ موقف کو سمجھنے کیلئے یہ دو وجوہات کافی ہیں۔ ہندوستان بہت تیزی کے ساتھ آسٹریلیا ‘ یوروپی یونین ‘ برطانیہ وغیرہ کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدات کو فروغ دینے آگے بڑھ رہا ہے اور وہ امریکہ کے ساتھ اپنی تجارت ‘ سرمایہ کاری اور توانائی تعلقات میں اضافہ کر رہا ہے ۔ ان ممالک کی جانب سے روس کے خلاف عائد کردہ معاشی تحدیدات کی پابندی کئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے ۔ سیاسی اعتبار سے ہندوستان اپنی غیر جانبداری کا جواز پیش کرسکتا ہے لیکن اسے اپنی معاشی سفارت کو آگے بڑھانا مشکل ہوجائیگا ۔
امریکہ ‘ تحدیدات اور روس
ایران کے برعکس امریکی تحدیدات روس پر زیادہ موثر نہیں ہوئیں۔ ماسکو پر 2014 سے معاشی تحدیدات ہیں اور اس کی معیشت متاثر ہونے کی بجائے مزید مزاحمت والی اور خود مکتفی ہوگئی ہے ۔ سیاسی حالات میں ماسکو پر تحدیدات کے باعث اہم قربتیں بننے لگی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں بیجنگ اور ماسکو زیادہ قریب ہوگئے ہیں۔ماسکو معاشی طور پر بیجنگ پر انصحار کرنے والا ہوگیا ہے جبکہ ترکی ‘ ہندوستان اور چین جیسے ممالک نے اپنے دفاعی میکانزم کو مستحکم کرنے آزادانہ اقدامات کئے ہیں اور انہوں نے امریکی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر S-400 میزائیل ڈیفنس بیاٹریز خریدی ہیں۔ یوکرین میں جاری جنگ کے دوران وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس کو بھی پاکستان کی ماسکو سے قربت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔ خاص طور پر اسلئے بھی کیونکہ امریکہ اور مغربی ممالک طالبان حکومت کو قبول کرنے پر غور کرنے لگے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ماسکو کو ایران کے خلاف ایک سکیوریٹی حصار اور کابل میں امکانی مخالف پاکستان حکومت کے تعلق سے پل باندھنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے ۔ یہ پاکستانی وزیر اعظم کا 23 برس میں پہلا دورہ روس تھا ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں مسلسل عدم استحکام پاکستان کیلئے برے دن لاسکتا ہے اور طالبان ۔ پاکستان کے تعلقات کو بگاڑ سکتا ہے ۔ پاکستان ‘ اپنے حریف ہندوستان کے خلاف بھی ماسکو پر انحصار کر رہا ہے ۔ روسں کی طاقت تین ممالک چین ۔ ہندوستان اور پاکستان کے مابین اعتماد کی کمی کو دور کرنے اور انہیں بات چیت کی میز پر لانے میں امریکہ اور مغرب سے زیادہ اثردار ہوسکتی ہے ۔ امریکہ کو علاقائی سیاست کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت تھی نہ کہ عالمی ۔ حالانکہ روس اپنی عالمی طاقت کا موقف گنوا چکا ہے لیکن کچھ علاقائی حصوں ( مشرق وسطی ‘ وسط ایشیا ‘ جنوبی ایشیا ) میں اس کی اب بھی حکمت عملی اہمیت ہے اور حالیہ برسوں میں اس میں اضافہ بھی ہوا ہے ۔ علاوہ ازیں ماسکو اور بیجنگ کی قربت نے اپنے مشترکہ معاشی اور سیاسی مفادات کی تکمیل میں ان دونوں کو زیادہ اثردار بنادیا ہے ۔ ایسے میں یوکرین پر فوجی کارروائی کی دنیا بھر میں مذمت کے باوجود کئی ممالک یا تو خاموش رہنے پر مجبور ہیں یا روس کی حمایت کر رہے ہیں۔
مستقبل کیا ہے ؟
ایسے میں ایک فطری سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یوکرین میں روس کی یہ آخری فوجی مہم ہے ؟ ۔ کیا صرف یوکرین تک محدود رہے گی یا پھر دوسرے ممالک تک پھیلے گی ؟ ۔ صدر پوٹن نے پڑوسی مشرقی یوروپی ممالک کو ناٹو میں شمولیت کے خلاف غیر ضروری طور پر انتباہ دیا ہے ؟ اور ہندوستان نے کیوں امریکہ اور مغربی ممالک کی توقعات کے مطابق کام نہیں کیا ؟ ۔
ظاہر ہے کہ یہ نہ یوکرین میں آخری روسی مہم ہے اور نہ ہی یہ صرف کیف تک محدود رہے گی ۔ جلد یا بدیر دوسروں کو بھی ناٹو کی کشش کھینچے گی ۔ اب ماسکو کو سمجھنا چاہئے کہ اس کے اطراف و اکناف کے ممالک کیوں ناٹو میںشامل ہونا چاہتے ہیں اور وہ کب تک انہیں اس طرح کی کارروائیوں روکنے میں کامیاب رہے گا اور کس طرح سے ناٹو کی کشش کو کم کیا جاسکتا ہے ۔ یقینی طور پر فوج کوئی حل نہیں ہے ۔ اس کے دو سنگین عواقب ہوسکتے ہیں۔ پہلا کہ مسلسل فوجی کارروائی سے ان ممالک کو مزاحمتی ہتھیار حاصل کرنے پڑیں گے جن میں نیوکلئیر دہشت گردی بھی شامل ہے ۔ امریکہ علاقہ میں محدود پھیلاؤ کی اجازت بھی دیسکتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ یہ علاقہ دلدل بن جائے گا اور روس کی تمام صلاحیتیں اور توانائیاں ختم ہوجائیں گی ۔ ایسے میں امریکہ اور مغربی ممالک روس کے اطراف ایسے ممالک کو کھڑا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جو اس کے مخالف ہوں اور یہاں مستحکم بفر زون بن جائیگا ۔
ماہرین کا احساس ہے کہ اس طرح کے واقعات کے اعادہ سے دنیا دوسری سرد جنگ میں چلی جائے گی تاہم اس کے امکانات کم ہیں۔ بڑا مسئلہ یہ یہ کہ کونسا ملک سرد جنگ میں شامل ہونا چاہے گا جبکہ کورونا نے تمام بڑی معیشتوں کو تباہ کردیا ہے اور معیشتیں اسی وقت بہتر ہوسکتی ہیں جب تعاون پر مبنی میکانزم رہے ۔ دنیا کے سب سے بڑے تاجر ہونے کی حیثیت سے چین نئی سرد جنگ کا حصہ بنتے ہوئے اپنی مارکٹوں تک رسائی کو کم نہیں کریگا جبکہ امریکہ چین کو اس حد تک ڈھیکیلے گا بھی نہیں ۔ یہ اوسط مدتی امکانات اس بات پر زور دیتے ہیں کہ روس کیلئے یہ بہتر وقت ہے کہ وہ دیرپا سکیوریٹی کو فروغ دے اور اگر پڑوسی ممالک کسی بھی تنظیم بشمول ناٹو میں شامل ہوجائیں تو اس کے قومی مفادات متاثر نہ ہونے پائیں۔ ماسکو کو ناٹو کی الجھن سے باہر آنا پڑیگا ۔
افغانستان اور یوکرین سے جس طرح نمٹا جا رہا ہے اس سے حلیفوں اور مخالفین کا عالمی منظر بدل گیا ہے ۔ ہر ملک اب اپنے دفاعی میکانزم کو مستحکم کر ہا ہے کیونکہ اسے اپنی جنگ خود لڑنی پڑیگی ۔ ہندوستان کو بھی اس سے استثنی نہیں ہے ۔ روس ایسا لگتا ہے کہ وسط اور جنوبی ایشیا میں اعتماد سازی میں اہم رول ادک کریگا اور کسی بھی طرح کے حالات پیدا ہونے کا موقع نہیں دیگا ۔ یہی بات مذہبی برادریوں پر بھی لاگو ہوتی ہے ۔ دوسروں سے مقابلہ میں مسلمانوں کو مزید چوکس اور اپنے حرکات کی تئیں مزید ذمہ دار رہنے کی ضرورت ہے خاص طور پر ایسے حالات میں جبکہ اسلامی دہشت گردی کی بکواس قابل لحاظ حد تک کم ہوگئی ہے۔