۔2024 سے پہلے دلچسپ ہوتا جائے گا
زینب سکندر
مرکزی حکومت کی نئی پارلیمنٹ کی عمارت مالیتی 970 کروڑ روپے کا سنگ بنیاد رکھا جاچکا ہے جبکہ ملک کی پہلی سہ ماہی برائے مالی سال 2021 کی جی ڈی پی شرح ترقی کا 23 فیصد اس لئے خرچ ہوگا جبکہ کورونا وائرس کی پھیلائی ہوئی وباء کی وجہ سے معیشت کی حالت ابتر ہو چکی ہے لیکن ہندوستان کی برسر اقتدار پارٹی 2017 کی معاشی حالت موجودہ معاشی حالت کی بہ نسبت بہتر تھی حالانکہ سیاست میں روایتی طور پر اقتدار کے دو مرکز پیدا ہوگئے تھے۔ اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن اڈوانی کی جوڑی کبھی انتہائی شہرت رکھتی تھی، جبکہ اڈوانی وزیر اعظم بننے کا انتظار کررہے تھے۔ اب نریندر مودی ۔ امیت شاہ اس جوڑی کے جانشین بن گئے ہیں لیکن جلد ہی ہندوستان کی سیاست میں ایک نئے اقتدار کی طاقت کا کھیل دیکھا جائے گا۔ یوگی ، مودی سے مقابلہ کریں گے۔ گزشتہ ہفتہ سوشل میڈیا کے چیانلوں پر چیف آف ڈیفنس اسٹاف یوگی آدتیہ ناتھ سی ڈی ایس جنرل بپن راوت مہارانا پرتاپ سالانہ جشن کے مہمان خصوصی تھے جو گورکھپور میں بین کالج تقریب کے طور پر منایا جاتا ہے یوم بحریہ تقریب میں چیف آف آرمی اسٹاف نے 9 مرتبہ شرکت کی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ 7 دسمبر کو جبکہ سی بی ایس راوت یوم بحریہ کی تقریب میں غیر حاضر رہے اور ہمارے وزیر اعظم نے ماسک کے بغیر پابندی کے ساتھ مسلح افواج کو پرچم عطا کرنے کی تقریب میں شرکت کی جو فوجیوں کو اعزاز عطا کرنے کے لئے منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ تمام تقاریب زرر رساں نہیں محسوس ہوتیں لیکن اگر آپ تمام واقعات کو مربوط کریں تو یہ لکیر اقتدار کے دو مراکز دہلی اور لکھنؤ کے اطراف گردش کرے گی۔
لکھنؤ کے انتخابات
یہ انتخابات ترقی پذیر اترپردیش کے لئے مساوی طور پر سیاسی اہمیت رکھتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار کا مرکز متوازی طور پر لکھنؤ بھی ہے کیونکہ یوپی میں مرکز کو کئی بااثر افراد دیئے ہیں۔ اس لئے یہ بی جے پی کے ایک متوازی اقتدار کے مرکز کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔ اگر آپ ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ اور ’’یوگی ہے تو یقین ہے‘‘ کے نعروں کی مماثلت پر غور کریں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ لکھنؤ بہت جلد دہلی کا متبادل اقتدار کا مرکز بن جائے گا۔ 2017 کے یوپی اسمبلی انتخابات کے بعد ہر ایک کو یقین تھا کہ یوگی ہی چیف منسٹر ہوں گے کیونکہ انہیں کسی مرکزی وزیر کے بجائے پارٹی کا ’’سب سے بڑا انتخابی مہم چلانے والا‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ اس طرح وہ پارٹی میں ایک اونچا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
مودی کا مقام
اپنی دوسری میعاد میں وزیر اعظم مودی نے خود کو سخت گیر اکثریتی قائد کی شبیہہ سے دور کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ انہیں اب ایک عوامی قائد اور فلسفی بننے کا خبط ہوگیا ہے۔ چنانچہ وہ موروں اور طوطوں کو دانا کھلاتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ مودی کے علاوہ دیگر دو نمایاں سیاسی شخصیتیں آر ایس ایس کے سرسنچالک موہن بھاگوت اور چیف منسٹر یوپی یوگی آدتیہ ناتھ کی بن گئی ہیں۔ امیت شاہ بھی کئی تاریخی تقاریب سے غائب رہے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ عوام کے ووٹ آئندہ انتخابات میں ان کی قسمت کا فیصلہ کردیں گے۔ مودی کی طرح یوگی بھی اپنی شخصیت کو ابھارنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور وہ برہماچاری کی اپنی شبیہہ سے دوری اختیار کرتے جارہے ہیں اور چیف منسٹر یوپی کی حیثیت سے شہرت حاصل کر رہے ہیں۔ عوام انہیں ’’پوروا آشرم کے جنم داتا‘‘ (بابائے ماضی) قرار دے رہے ہیں۔ وہ آج کل راج دھرم کا پالن کررہے ہیں۔
یوگی کے حامیوں کا حلقہ
یہ بھی بی جے پی کے ارکان کے لئے پریشان کن ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ جنہیں ’’مہاراج جی‘‘ کہا جاتا ہے اپنا ایک علیحدہ حلقہ بنا رہے ہیں جو ان کے حامیوں پر مشتمل ہے۔ بی جے پی کے راجیہ سبھا ایم پی ترون وجئے کا خیال ہے کہ یوگی نے ایک ایسا نظریاتی معیار قائم کیا ہے جو عوام کے قائد کی حیثیت سے انہیں قائم نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس معیار پر کوئی بی جے پی قائد پورا نہیں اتر سکتا۔ درحقیقت یوگی آدتیہ ناتھ الجھن زدہ ہیں اور نہیں جانتے کہ ذرائع ابلاغ کی نظر میں ایک عظیم شخصیت کی حیثیت سے پیش کرنے کے لئے انہیں کیا کرنا ہوگا۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے حامی حکومت میں بھی موجود ہیں۔ اجیت ڈوول کبھی بھی یہ کہنے سے یا یوگی کی بے انتہا تعریف کرنے سے گریز نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے یوپی نظم و ضبط کی صورتحال بنادی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایودھیا مقدمہ کے فیصلے کے بعد بھی یوپی میں کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔ یہ فیصلہ کے بعد وزیر اعظم مودی کی امن برقرار رکھنے کی اپیل کا نتیجہ نہیں تھا۔ یہ بھی ایک شاعرانہ تخیل ہے کہ مودی اور یوگی کے درمیان یعنی ایک فقیر کا یوگی سے مقابلہ ہوگا۔ 2021 تا 2024 میں اقتدار کے یہ دونوں مراکز ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے کیونکہ اس وقت تک اقتدار کے دو مراکز مساوی طور پر ابھر کر سامنے آجائیں گے اور مرکزی مقام کس کو حاصل ہوگا اس کا فیصلہ بھی ہو جائے گا۔ یہ دیکھنا انتہائی دلچسپ ہوگا کہ امیت شاہ اقتدار کے اس کھیل میں کوئی نقصان اٹھائیں گے یا اپنا مقام برقرار رکھ سکیں گے۔