یوگی مخالف لہر پر مودی قابو کر رہے ہیں

   

بدری نارائن
کورونا کی وجہ سے لگائے گئے تین لاک ڈاؤنس نے ہندوستانی معیشت کی کمر توڑ دی ہے اور اترپردیش کے دور دراز کے مقامات کے لاکھوں تارک وطن مزدوروں کو شدید معاشی مشکلات میں مبتلا کردیا ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس کے باوجود دیہی ووٹر کے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں اور وہ اب بھی وزیر اعظم نریندر مودی کی امیج کو پسند کرتے ہیں۔ ان کا اب بھی کہنا ہے کہ وہ قومی سطح پر انہیں پسند کرینگے ۔ ’’ مودی جی دیش کیلئے ٹھیک ہے ۔ کیندر کے چناؤ میں ووٹ انہیں کو دیں گے ‘‘ ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ چیف منسٹر ادتیہ ناتھ کی ریاست میں کارکردگی سے خوش نہ ہوں اور اکھیلیش یادو کی سائیکل کو پسند کریں لیکن قومی سطح پر ان کیلئے مودی ہی اول انتخاب ہیں حالانکہ افراط زر کی شرح اور بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔
سماجوادی پارٹی لیڈر اکھیلیش یادو اپنی انتخابی لڑائی کو امیج مودی کی بجائے امیج یوگی کے اطراف رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ۔ تاہم مودی اپنی جارحانہ مہم سے بی جے پی کی ڈبل انجن حکومت کی مخالف لہر کو کم سے کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اپوزیشن کی بی جے پی پر تنقیدیں تین واپس لئے گئے زرعی قوانین ‘ نوٹ بندی اور کورونا بحران پر ہیں اور یہ سب کچھ مرکزی حکومت کے خلاف جاتے ہیں لیکن اترپردیش کے دیہی علاقوں میں مودی اب بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ الہ آباد کے قریب سراتو حلقہ کے عوام کا کہنا ہے کہ ’’ کچھ غلطیاں کئے تو کچھ اچھا بھی کئے ۔ یہ تو راج ۔ کاج میں ہوتا ہی رہتا ہے ‘ لیکن ہم لوگ مودی جی کو ہی ووٹ دینگے ۔ جب ہماری ریسرچ ٹیم کے ایک رکن نے جواب دیا کہ یہ مودی کا چناؤ نہیں ہے تو ایک گاوں والے کا کہنا تھا کہ تب تو اکھیلیش کو ووٹ دینگے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اترپردیش میں برانڈ مودی برقرار ہے ۔
مودی کی امیج اب بھی مستحکم کیوں ہے ؟
سیاسی مبصرین ہوسکتا ہے کہ اس کو وزیر اعظم کی جانب سے عوام سے رابطے میں رہنے کی طاقت کو جوڑتے ہوں یا پھر ان کی حکومت کی موافق غریب اسکیموں کو اس کا سہرا دیتے ہوں یا پھر ہندوتوا کی وجہ سے ایسا ہو۔ ہم نے یہی سوال مشرقی اترپردیش کے مختلف گاووں میں عوام سے یہی سوال کیا ۔ اور بیشتر افراد نے ایک ہی طرح کے جواب دئے ۔ ’’ ان پر وشواس ہے ‘‘ ۔ سات سال تک حکمرانی کے باوجود یہ اعتماد کس طرح برقرار ہے اور ان کا امیج کیوں بنا ہوا ہے ؟ ۔ جب ہم نے عوام سے مخصوص وجوہات پر سوال کیا کہ ان کا اعتماد کیوں برقرار ہے تو بیشتر نے جواب دیا کہ وہ ( مودی ) جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں‘‘ ۔
اس جواب کو در اصل دفعہ 370 کی تنسیخ ‘ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے آغاز وغیرہ سے جوڑا جاسکتا ہے جس کو ہندو پسند کرتے ہیں۔ مڈل کلاس کی اپنی الگ وجوہات ہیں۔ ان کے خیال میں مودی قومی مفاد کے محافظ ہیں اور ان کی حکومت کرپشن سے پاک ہے ۔ تاہم دیہی عوام مودی کو اس لئے پسند کرتے ہیں کہ انہیں سرکشا اور راشن حاصل ہو رہا ہے ۔ ان کیلئے سرکشا کا مطلب کہ وہ مخصوص غلبہ والی برادریوں دوسری غیر ہندو مذہبی برادریوں کے طاقتور مجرموں کے خوف سے آزاد ہوں۔ کوشمبی ضلع کے ایک غریب دیہات میں جہاں پچھڑے طبقات مقیم ہیں عوام نے ہمیں بتایا کہ انہیں ہر ماہ دو مرتبہ راشن ملتا ہے ۔ ایک یوگی کی طرف سے تو دوسرا مودی کی طرف سے بھیجا جاتا ہے ۔ ایسے میں دیہی غریب کیلئے مودی کا امیج ان سماجی بھلائی کی اسکیمات سے بھی مستحکم ہے ۔ یہ درست ہے کہ یہ لوگ حکومت سے مزید توقع رکھتے ہیں لیکن مودی کے معاملے میں کئی لوگ بشمول ان کے ناقدین بھی نرم رویہ اختیار کرلیتے ہیں۔
ہماری بات چیت کے دوران کسی نے بھی مودی کی ذات کو بیچ میں نہیں لیا ۔ تقریبا ہر ذات والوں میں ان کے مداح رہے ہیں۔ تاہم ایک لیڈر کی امیج کو پسند کرنے کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ ووٹ میں بھی بدلیں گے ۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ بی جے پی کیلئے وسطی اترپردیش اور مشرقی اترپردیش میں برانڈ مودی کس حد تک کارآمد ہوسکتا ہے ۔