روش کمار
متحدہ عرب امارات اب ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے ارب پتیوں کا مرکز بننے جارہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک یہاں تک کہ امریکہ، برطانیہ، دوسرے مغربی ممالک اور خود ہمارے ملک ہندوستان کی دولت مند اور کاروباری شخصیتیں خاص طور پر دوبئی منتقل ہورہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوبئی ہر کسی کے لئے پُرکشش مقام بن گیا ہے۔ دوبئی اور متحدہ عرب امارات کی دیگر ریاستوں (متحدہ عرب امارات سات ریاستوں دوبئی، ابوظہبی، شارجہ، راس الخیمہ، فجیرہ، ام القوئین اور عجمان پر مشتمل ایک وفاق ہے) میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہے اور یو اے ای کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہاں مذہب، ذات پات اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی سے بھی امتیاز نہیں برتا جاتا۔ بہرحال دوبئی میں بسنے کی ایک اسکیم کیا لانچ ہوئی ٹوئٹر پر لوگ خوشی کے مارے اُڑنے لگے۔ کیا ہندوستان میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جو ہر حال میں ہندوستان چھوڑ دینا چاہتے ہیں، ابھی اور اسی وقت۔ انھیں یہاں کے سسٹم اور سہولتوں سے اب کوئی اُمید نہیں رہی۔ کیوں جن کے پاس پیسہ ہے جو کمارہے ہیں وہ اپنی کمائی بچانے دوبئی جانے کیلئے بے چین ہیں۔ آخر اچھی خاصی آمدنی اچھی خاصی کمائی کے باوجود یہ لوگ دوبئی کیوں جارہے ہیں۔ کیا اِس لئے کہ وہ ہنندوستان میں ٹیکس زیادہ دے رہے ہیں؟ اور سہولتوں و سیفٹی کے نام پر کچھ بھی نہیں مل رہا تو اس پر کھل کر بات کرنی چاہئے کہ 2019ء کے بعد سے کارپوریٹ پر ٹیکس کا بوجھ تمام طرح کی چھوٹ کی اسکیموں کو ملاکر 15 فیصد تک رہ گیا ہے جبکہ انفرادی طور پر ٹیکس دینے والوں میں سب سے زیادہ متوسط طبقہ ہے وہ ٹیکس دیتے دیتے سوکھ کر ککڑی ہوگیا ہے اور ککڑی بھی تب پھر نیوز لانڈری میں شائع وویک کے اس مضمون پر یہ متوسط طبقہ بحث کیوں نہیں کررہا ہے کہ ملک اصل میں وہ چلا رہا ہے کارپوریٹ نے ٹیکس دیتے دیتے اس کی حالت خراب ہورہی ہے مگر یہ ملک اسی کے پیسہ سے چل رہا ہے۔ کیا متوسط طبقہ نے طے کرلیا ہے کہ موقع ملے گا تو ہندوستان سے بھاگ ہی چلیں گے لیکن ہندوستان میں رہ کر ضروری سوال نہیں اُٹھائیں گے۔ ٹائمس آف انڈیا میں ایک مضمون شائع ہوا ہے کہ ہندوستانی عوام امریکہ کی بہ نسبت ایک لیٹر پٹرول کے لئے 21 روپئے زیادہ دیتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ جوش میں مڈل کلاس نے ایک ایسا ملک بنالیا کہ اب اسے بھی لگ رہا ہے کہ بولنے کا مطلب ہے چھاپہ یا جیل اور کہیں کوئی سنوائی نہیں۔ مذہب کے نام پر ملک بنانے کی آندھی میں میڈل کلاس کے کندھوں پر ٹیکس کا بوجھ بڑھتا گیا اور حلق سے اس کی آواز نکلنا بند ہوتی گئی۔ متوسط طبقہ کی خاموشی یوں ہی نہیں ہے اس ڈر اور خوف کی خاموشی ہے جس کے لئے وہ خود ذمہ دارہے۔ اب اس متوسط طبقہ کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہیں سے گولڈن ویزا مل جائے تو بڑی خاموشی سے یہاں سے کھسک لے اور واٹس ایپ گروپ میں گڈ مارننگ مسیج کے نام پر قوم پرستی کا نظریہ کھیلتا رہا۔ کون لوگ ہیں جو گولڈن ویزا کو لے کر پرجوش ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے 23 لاکھ روپئے میں زندگی بھر بسنے کے لئے گولڈن ویزا اسی مڈل کلاس کو ذہن میں رکھ کر بنایا ہے۔ کیا متوسط طبقہ یا تھوڑے سے زائد پیسے والے اب ہندوستان میں وقت گزار رہے ہیں۔ مجبوری میں رہ رہے ہیں۔ ایسا کیا ہے دوبئی میں؟ جیسے ہی وہاں سے گولڈن ویزا اسکیم کا اعلان کیا گیا ٹوئٹر پر ہندوستانیوں میں جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی۔ کیا صرف یہی وجہ ہوسکتی کہ دوبئی میں پرسنل انکم ٹیکس عائد نہیں ہے یا پھر کچھ اور بھی وجوہات ہیں، ہم کیوں نہیں دوبئی کی طرح محفوظ اور سہولتوں سے لیس شہر بناسکیں جس میں ہندوستان کے دولتمندوں کا اعتماد ہو، جب ان ہی کا اعتماد یا بھروسہ نہ ہو تو پھر یہاں کے نظام میں کس کا یقین ہے۔ ہم ان لوگوں کی بات نہیں کررہے ہیں جو پڑھائی اور روزگار کے لئے دنیا کے کئی ملکوں کو ہجرت کرگئے بلکہ ان کی بات کررہے ہیں جنھوں نے ہندوستان میں پیسہ کمایا لیکن ٹیکس دیتے دیتے اور یہاں کے شہروں کی تھرڈ کلاس سہولتوں سے تنگ آکر بوریا بستر باندھ کر چلے جانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کے امیروں کی اس منتقلی کو کیا نام دیا جانا چاہئے۔ کیا یہ لوگ اب مان چکے ہیں کہ ہندوستان کے شہروں کا حال اب کبھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ آپ کو جان لینا چاہئے کہ جس وقت قوم پرستی کا چورن تقسیم ہورہا ہے اس کی ہوا چلاکر لگاتار آپ کے حقوق لگاتار کم کئے جارہے ہیں۔ اس وقت امیر لوگ ہندوستان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، کیوں ہندوستان سے نکل جانے کا سوچتے ہیں۔ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے لوگوں کو ذہن میں رکھ کر یو اے ای نے یہ اسکیم بنائی ہے۔ لکھا جارہا ہے کہ چین کو بھی یہ سہولت دی جاسکتی ہے۔ یو اے ای نے گولڈن ویزا لانچ کیا ہے۔ اس سے پہلے آپ 4.5 کروڑ سے کچھ زیادہ رقم کی سرمایہ کاری کرکے دوبئی میں رہنے کا حق حاصل کرسکتے تھے لیکن اب دوبئی میں جائیداد خریدنے کی ضرورت نہیں یا وہاں کاروبار میں سرمایہ مشغول کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ بس 23 لاکھ روپیہ دیجئے، آپ کا پس منظر دیکھا جائے گا اور ویزا مل جائے گا۔ گولڈن ویزا والے تاحیات دوبئی میں رہ سکیں گے۔ انہیں وہاں کی شاندار سہولتیں حاصل ہوں گی اور قانونی حقوق بھی حاصل ہوں گے۔ یہی نہیں گولڈن ویزا والے اپنے ارکان خاندان، رشتہ داروں، گھریلو خادماؤں اور ڈرائیوروں کو بھی اسپانسر کرسکتے ہیں۔ اس سے پہلے یو اے ای میں 4.5 کروڑ روپئے سے زائد کی سرمایہ کاری کرنی پڑتی تھی مگر اب یہ کام 23 لاکھ روپئے سے کچھ زیادہ کی یکمشت رقم دے کر ہوجائے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ 23 لاکھ کی رقم پر ویزا دینے کی اسکیم کے پیچھے گریٹر نوئیڈا، نوئیڈا، گروگرام کی واہیات سہولیات سے تنگ لوگوں کو ذہن میں رکھا گیا۔چار چار کروڑ کا فلیٹ ہے۔ اپارٹمنٹ کے باہر گندگی کا انبار، سکیورٹی کا پتہ نہیں، اسپتال سے لے کر کچھ بھی پتہ نہیں حالت یہ ہے کہ نوئیڈا، گریٹر نوئیڈا اور گرو گرام کے لئے لوگ جتنی بڑی بڑی باتیں کرلیں لیکن ان تین شہروں میں ایک بھی ڈھنگ کا کالج نہیں ہے جہاں ان کے ہی بچے اعلیٰ معیاری تعلیم حاصل کرسکیں۔ پرائیوٹ کے نام پر موٹی فیس وصول کرنے کی دوکانات کھل گئی ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں، زیادہ تر پرائیوٹ کالج اس اُصول پر چلتے ہیں کہ انجان اور بے وقوف لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ کوئی نہ کوئی کسی کے سہارے داخلہ لینے آجائے گا کہ پہلے ڈگری لے لیتے ہیں بعد میں دیکھا جائے گا اور اس طرح وہ موٹی فیس دے آتا ہے۔ متوسط طبقہ دھوکہ دہی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ اب اسے ٹھگنے کے لئے سائبر فراڈ کی بھی سہولت فراہم کردی گئی ہے تو ہوسکتا ہے کہ ایسے لوگوں کو ذہن میں رکھ کر یو اے ای نے یہ اسکیم شروع کی ہے تاکہ یہاں کے لوگوں کو صرف 23 لاکھ روپئے میں گولڈن ویزا لے کر دوبئی میں کرایہ کے مکان میں رہنا شروع کردینا چاہئے۔ ضروری نہیں کہ آپ ویزا لے کر لگاتار ہی وہاں رہیں یہ بھی اصول بنایا گیا ہے کہ اگر آپ 6 ماہ تک دوبئی سے باہر رہتے ہیں تب بھی آپ کا ویزا کارکرد رہے گا۔ اگر گولڈن ویزا پانے والے فرد کی موت ہوجائے تو بھی اس کے خاندان والے یو اے ای میں پرمٹ پورا ہونے تک رہ سکتے ہیں۔ دوبئی سے ممبئی راست پرواز کے لئے تین گھنٹے لگتے ہیں اور دوبئی سے دہلی اور بنگلورو کے لئے چار گھنٹے لگتے ہیں۔ یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ قریب 5 ہزار ہندوستانی گولڈن ویزا کے لئے درخواست دے سکتے ہیں۔ مطلب ایک اسکیم کیا آئی کہ ایک جھٹکے میں 5 ہزار لوگ ہندوستان کے عظیم شہروں کو چھوڑ کر دوبئی جاکر رہنے کے لئے تیار ہورہے ہیں۔ دوبئی میں ہندوستانی سفارت خانہ کی ویب سائٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 43 لاکھ سے زائد ہندوستان ایسے ہیں جو ابھی تک امارات منتقلی اور نوکری کے ساتھ ساتھ تعلیم کے حصول کے لئے جارہے تھے لیکن یہ ایک نئی منتقلی ہے۔ ویزا منتقلی اور اچھے شہروں کی تلاش میں لوگ منتقل ہورہے ہیں کہیں کا بھی ویزا مل رہا ہے ہندوستان کے یہ لوگ اٹیچی اُٹھاکر چل دیتے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بتارہا ہے کہ یہاں کی بدحال صورتحال سے لوگ پوری طرح تنگ آچکے ہیں۔ ہندوستان کے دولتمندوں میں ہندوستان چھوڑنے کی اتنی بے چینی کیوں؟ کیا یو اے ای میں ٹیکس نہیں لگتا۔ پیسے والے لوگ متوسط طبقہ کے لوگ ٹیکس دیتے دیتے پریشان ہیں، بدلے میں انھیں خاصی سہولتیں مل نہیں رہی ہیں۔ انھوں نے اب یہ سچائی دیکھ لی، کئی ملکوں میں گھومنے جاتے ہیں تو پتہ چل گیا ہے کہ ہندوستان میں کیا مل رہا ہے اس قدر زیادہ ٹیکس دینے کے بعد بھی۔ کالج سے لے کر اسپتال کباڑ ہی ان کے نصیب میں لکھے ہیں۔ دوبئی میں کوئی Capital Gins Tax نہیں لگتا۔ کوئی پرسنل انکم ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا۔ کیا ہندوستانی صرف ٹیکس سے تنگ آکر وہاں جانا چاہتے ہیں یا انھیں سہولتیں بھی اور سلامتی بھی دوبئی کے مقابلہ میں نہیں مل رہی ہے۔ اچھی تعلیم کے لئے بچوں کو ہندوستان سے باہر الگ الگ ملک بھیجنا پڑرہا ہے تو بھارت میں رہ کر وہ کیا کریں گے؟ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 2014ء اور 2024ء کے درمیان 17,10,800 ہندوستانیوں نے ہندوستانی شہریت ترک کردی۔ 2022ء میں 2,25,620 لوگوں نے ہندوستانی شہریت ترک کردی تھی۔ کیا کوویڈ کی وجہ سے اس انتظار میں تھے یا اس دوران ہندوستان کے بدحال نگہداشت صحت کے شعبہ کو انھوں نے دیکھ لیا تھا۔