یو پی میں احتجاجیوں پر پولیس کی زیادتی۔ انٹرنٹ بند

   

رویش کمار
کیا دنیا میں کوئی ایسی پولیس ہے جو انڈیا کی پولیس کو بتا سکے کہ انٹرنٹ کو چالو رکھتے ہوئے لا اینڈ آرڈر سے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے؟ ہندوستان میں جس طرح انٹرنٹ کو بند کیا جانے لگا ہے، ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری پولیس تمام کام ذمہ داری سے کررہی ہے، لیکن جب انٹرنٹ چالو رہتا ہے تو وہ لا اینڈ آرڈر سے نمٹنے سے قاصر ہوتی ہے۔ متعدد آئی ٹی سل کھلے عام گالی گلوج کرتے ہیں اور دھمکیاں دیتے رہتے ہیں، پولیس کو ان سے کوئی جوکھم نہیں ہوتا۔ لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جو لوگ اس طرح کے سوال پوسٹ کرتے ہیں ان کی اکثریت کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ؟
ہانگ کانگ میں 15 مارچ سے مظاہرے جاری ہیں، لیکن وہاں انٹرنٹ بند نہیں کیا گیا۔ وہاں اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر انٹرنٹ بند کیا جائے تو بڑا مالی نقصان ہوجائے گا۔ کشمیر میں انٹرنٹ بند کرنے کے سبب 10,000 کروڑ روپئے کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا، پھر بھی انٹرنٹ بند کیا گیا۔ اتنا ہی نہیں، ہانگ کانگ کے احتجاج طویل عرصے سے جاری ہیں، پولیس کے ساتھ ٹکراؤ بھی ہوا، تشدد پیش آیا لیکن صرف دو افراد مارے گئے۔ یو پی میں 19 افراد ایک ہفتے میں مارے گئے ہیں۔ بعض اطلاعات میں 21 کی تعداد بھی بتائی گئی ہے۔
نئے مرکزی علاقہ لداخ کے کرگل میں 145 یوم بعد انٹرنٹ بحال کیا گیا۔ ان تمام دنوں میں جموں و کشمیر میں انٹرنٹ بند رہا ہے۔ انٹرنٹ بحال کرنے کیلئے ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل کی گئی۔ فیصلہ کا انتظار ہے۔ یہ عرضی کشمیر ٹائمز کی انورادھا بھاسین نے داخل کی ہے۔ دنیا میں جب کبھی کوئی جمہوری مسئلہ پیش آیا، انٹرنٹ کو بند نہیں کیا گیا۔ اب یو پی کو انٹرنٹ کو یرغمال بنانے کی عادت پڑچکی ہے۔
کیا پولیس کو گالی گلوج کرتے ہوئے روکا جاسکتا ہے؟ کئی ویڈیوز میں پولیس کو فرقہ پرستانہ باتیں اور گالی گلوج کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔ دہلی میں ٹی وی اسٹوڈیوز اس معاملے پر مباحث کررہے ہیں جبکہ حقیقی صورتحال تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔ 21 ڈسمبر کو پٹنہ کے پھلواری شریف میں ہجوم سڑکوں پر آیا اور نئے قانون شہریت (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے لگا۔ اس دوران سنگباری شروع ہوگئی۔ احتجاجیوں پر فائرنگ کی گئی اور 11 افراد زخمی ہوئے۔ پولیس نے ان کو نشانہ بنانے پر زائد از 40 افراد کو گرفتار کیا جن میں گڈو چوہان اور ناگیش سمراٹ شامل ہیں ۔ اس درمیان عامر وہاں سے غائب ہوگیا۔ تب سے عامر کے والد کو اپنے بیٹے کی تلاش ہے۔ ہارون نگر کے سہیل احمد نے عامر کے والد کی طرف سے ایف آئی آر درج کرائی ہے لیکن ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔

اسی طرح پٹنہ کے سہیل حامد کو 21 ڈسمبر سے اپنے 18 سالہ بیٹے کی تلاش ہے۔ 19 ڈسمبر سے بنارس کے چمپک کو اپنی ماں ایکتا شیکھر اور باپ روی شیکھر کی تلاش ہے۔ چمپک کے ماں باپ جیل میں ہیں کیونکہ وہ سی اے اے کیخلاف احتجاجی ریلی میں شرکت کیلئے گئے تھے۔ ہمارے رفیق کار اجئے سنگھ نے بتایا کہ 56 افراد گرفتار کئے گئے جن کی ضمانت مسترد کی جاچکی ہے۔ چمپک شیرخوار ہے۔ بنارس میں ماہر نفسیات نے بتایا کہ چمپک اپنے ماں باپ کو آس پاس نہیں پارہا ہے۔ اس طرح جتنا زیادہ عرصہ ہوگا، اس کے دل و دماغ پر اثر پڑے گا۔
آپ نے ضرور سنا ہوگا کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے 51 پروفیسرز نے سی اے اے کی مخالفت کرتے ہوئے اسٹوڈنٹس سے پرامن مظاہرے کی اپیل کی۔ ہر کسی نے سی اے اے کی مخالفت کے مکتوب پر دستخط کئے لیکن خوف اس قدر ہے کہ پروفیسر سطح کے ٹیچرز تک میڈیا سے بات کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ فون کال قبول تو کررہے ہیں لیکن لب کشائی سے گریزاں ہیں۔
چند روز قبل میں امریکہ کی مشہور یونیورسٹی آف کولمبیا برکلی گیا تھا۔ آپ تصور نہیں کرسکتے کہ آج ہندوستان کی یونیورسٹی میں کتنا فرق ہوچکا ہے۔ یہاں پروفیسر کے روم کے باہر نوٹس بورڈ پر معمولی زرد پوسٹر تک اس پروفیسر کو جیل بھیجنے کیلئے کافی ہے۔ لیکن امریکہ میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں لکھا ہے کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ٹرمپ اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔ انسانیت کے نام پر ہم اس فاشست امریکہ کی مخالفت کرتے ہیں۔

اچھی چیز یہ ہے کہ اب پروفیسرز کی کمیونٹی پرواہ نہیں کرتی کہ اُن کے رفقائے کار کو غدار کہا جارہا ہے۔ وائس چانسلر کو اس میں برائی معلوم نہیں ہوتی؛ یہ بہترین تبدیلی ہے۔ دوسری طرف کانگریس اور بی جے پی این آر سی اور ڈیٹنشن سنٹر کے تعلق سے ایک دوسرے کو نشانہ بنانے میں مشقت کررہے ہیں۔ 20 جون 2019ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدرجمہوریہ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ حکومت نے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس کا عمل ترجیحی اساس پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ 20 ڈسمبر کو وزیراعظم نے رام لیلا میدان میں کہا کہ میری حکومت نے کبھی این آر سی پر غور تک نہیں کیا۔ صدرجمہوریہ نے جب این آر سی کی بات کی تب کیمرہ میں قید ہوا کہ وزیر داخلہ امیت شاہ تالی بجارہے تھے۔ جب حکومت نے اس بارے میں غور ہی نہیں کیا تو یہ صدرجمہوریہ کے خطبہ کا حصہ کس طرح بن گیا؟
سی اے اے کی مخالفت میں دہلی میں کئی مرتبہ احتجاجی مارچ نکالے جاچکے ہیں۔ زور باغ میں عوام نے بھیم آرمی کے چندر شیکھر آزاد کی رہائی کا مطالبہ کیا کیونکہ تشدد میں ان کا کوئی رول نہیں رہا۔ یہ مارچ پی ایم کی قیامگاہ تک جانا چاہتا تھا لیکن اسے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ جامعہ رابطہ کمیٹی نے بھی یو پی بھون کے روبرو مظاہرہ کا اہتمام کیا۔ ایک لڑکی جو تنہا اور سب سے پہلے آئی اسے حراست میں لے لیا گیا۔ وہاں سیکشن 144 لاگو کردیا گیا۔ یہ لوگ یو پی بھون کے اطراف اس لئے جمع ہورہے تھے کیونکہ ان کے مطابق یو پی میں جھوٹے کیسوں میں سینکڑوں لوگوں کو ماخوذ کیا گیا ہے۔ پولیس احتجاجیوں کے خلاف تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کچھ کارروائی نہیں کررہی ہے۔ دہلی پولیس نے 400 افراد کو پکڑا لیکن بعد میں ان کو رہا کردیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی فارغ سریجن چاؤلہ بھی وہاں پہنچی تاکہ اپنی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کی خیرخیریت دریافت کی جائے جن کو پولیس نے تحویل میں لیا ہے۔ چاؤلہ نے وہیں سے اپنا بیان جاری کیا۔ جامعہ کے باہر مظاہرے بند نہیں ہوئے ہیں۔ جامعہ کے قریب شاہین باغ میں خواتین نے رات بھر دھرنا بھی دیا۔ اسٹوڈنٹس اور ٹیچرز مختلف انداز میں احتجاج کررہے ہیں۔ یہاں پر احتجاج 12 ڈسمبر سے جاری ہیں۔
دوسری طرف یو پی میں اضطراب آمیز خاموشی ہے۔ کئی اضلاع میں انٹرنٹ بند ہے۔ پولیس نے کئی مقامات پر فلیگ مارچ کئے ہیں۔ یو پی حکومت کے بیان کے مطابق بلندشہر میں مسلم کمیونٹی نے نماز کے بعد پیش آئے تشدد پر افسوس ظاہر کیا اور نقصان کی تلافی کے طور پر پولیس کو 6 لاکھ 27 ہزار 507 روپئے کا ڈیمانڈ ڈرافٹ اور گلدستہ حوالے کیا ہے۔ سادہ عدد 510 نہیں بلکہ 507۔ واہ کیا ٹھیک ٹھیک حساب ہے! سرکاری بیان میں لکھا گیا ہے کہ مظفرنگر میں علماء نے تشدد پر معذرت خواہی کی ہے۔
اس درمیان بی جے پی نئے قانون شہریت کے حق میں بڑی مہم کی تیاری کررہی ہے، جس میں لوگوں کو ترغیب دی جائے گی کہ ایک کروڑ افراد وزیراعظم کو اس قانون کے حق میں مکتوب تحریر کریں۔ یہ مہم 5 جنوری کو شروع ہوگی اور 15 جنوری تک چلے گی۔ صدر بی جے پی امیت شاہ اور کارگزار صدر جے پی نڈا اور دیگر سینئر قائدین اس مہم میں حصہ لیں گے۔ اس سلسلہ میں کئی مقامات پر بی جے پی کے اجلاس منعقد ہورہے ہیں۔ آسام میں چیف منسٹر سونوال نے پہلی مرتبہ تائید میں ریلی نکالی اور بڑا مجمع اکٹھا ہوا۔ اسی طرح ممبئی کے کرانتی میدان میں بھی قانونِ شہریت کے حق میں جلسہ عام منعقد ہوا۔ اس موقع پر ساورکر کا بڑا پوسٹر لگایا گیا۔ بھارت ماتا کی تصویر بھی لگائی گئی جس کے درمیان جیوتی با پھولے اور ساہو جی مہاراج بھی ساورکر کے ساتھ نظر آئے۔ اس پلیٹ فارم کو کانسٹی ٹیوشن فورم کا نام دیا گیا۔
کانگریس میں پارٹی لیڈر منیش تیواری نے جب کہا کہ ساورکر نے سب سے پہلے ناگپور میں مذہب کی اساس پر دو قومی نظریہ کی بات کی تھی۔ اس کے جواب میں امیت شاہ نے کہا کہ ساورکر نے ایسا کہا تھا یا نہیں، وہ واقف نہیں اور وہ تردید بھی نہیں کررہے ہیں۔ ساورکر کی بات کئی کتب میں محفوظ ہے۔ کرانتی میدان میں کس قسم کے نعرے بلند کئے گئے؟ مخالفین کی قبریں ساورکر کی سرزمین پر کھودی جائیں گی۔ جے این یو کا مقبرہ ساورکر کی سرزمین پر بنے گا۔ ممتا کی قبر ساورکر کی زمین پر بنے گی۔ سابق چیف منسٹر دیویندر فڈنویس بھی اسٹیج سے یہی نعرے دہراتے دیکھے گئے۔
ممبئی کے آزاد میدان میں سی اے اے کی مخالفت میں احتجاج منعقد کیا گیا۔ آزاد میدان اور کرانتی میدان کے درمیان 4 کیلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ آزاد میدان پر سی اے اے کے خلاف بڑا مجمع جمع ہوا۔ انقلاب مورچہ کے بیانر تلے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس، اے ایم یو، جے این یو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، آئی آئی ٹی ممبئی اور ممبئی یونیورسٹی کالجس کے اسٹوڈنٹس شریک ہوئے۔ غور کیجئے کے ممبئی میں دو مظاہرے ہوئے لیکن انٹرنٹ روکا نہیں گیا۔ عمر خالد، سوارا بھاسکر، ریچا چڈھا اور ورون گروور بھی اس جلسہ عام میں شریک ہوئے۔ کئی سماجی تنظیموں سے وابستہ لوگ بھی شامل ہوئے۔
[email protected]