یکساں سیول کوڈ بی جے پی کی نئی چال نیا جال

   

یوگیندر یادو
یونیفارم سیول کوڈ (یکساں سیول کوڈ ) کے تنازعہ کو بی جے پی کی جانب سے دوبارہ بھڑکائے جانے کی پوری پوری توقع تھی اور اس بات کی بھی توقع تھی کہ اس پر اپوزیشن اور مسلمانوں ( مسلم تنظیموں) کا بھی ردعمل ظاہر ہوگا اور ایسا ہی ہوا ۔ بی جے پی اور اس کے حکمت سازوں یعنی انتخابی حکمت عملی طے کرنے والوں کو 2024 کے عام انتخابات میںکامیابی کیلئے ایسا کچھ کرنا ہے جس سے پھر سے مذہبی خطوط پر رائے دہندے تقسیم ہوں اور 2014 اور 2019 کے عام انتخابات کی طرح بی جے پی کو زبردست انتخابی فائدہ حاصل ہو ۔ اگر دیکھا جائے تو عین عام انتخابات 2024 سے قبل بی جے پی نے ایک شکاری کی طرح سیاسی جال پھینکا ہے جس میں اپوزیشن قائدین اور مسلم تنظیمیں پھنستی جارہی ہیں ۔ اپوزیشن قائدین نے بی جے پی حکومت کے ایسا اقدام کی مذمت کی ہے اور مذمتی بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ لا کمیشن کی جانب سے اس مسئلہ کو دوبارہ اُٹھائے جانے کی ضرورت پر سوال اُٹھاتے ہوئے کئی اپوزیشن لیڈروں نے خود کو یونیفارم سیول کوڈ کے خلاف موثر طور پر کھڑا کیا ہے ۔ ایک طرف اپوزیشن قائدین حکومت کی مذمت میں مصروف ہوگئے تو دوسری طرف مسلم تنظیموں نے ان سے ایک قدم آگے بڑھ کر اسے ایک مذموم حرکت قرار دے کر شدید مذمت کی ہے ان مسلم تنظیموں کا موقف ہیکہ یکساں سیول کوڈ اقلیتوں اور دستور ہند کے مغائر ہے ان کے خلاف ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اب ایک نظریاتی جنگ کیلئے ملک کی سیاست میں ایک اسٹیج تیار ہوچکا ہے ۔ المیہ اور ستم ظریفی یہ ہیکہ حکومت یونیفارم سیول کوڈ کے آئنی وعدہ پر زور دے رہی ہے جبکہ سیکولر سیاست اس کی مخالفت پر اتر آئی ہے ۔ غرض بی جے پی یکساں سیول کوڈ کے نام پر اپنے حق میں ماحول تیارکرنا چاہتی ہے، بالکل اسی طرح اس نے اس بحث کی اسکرپٹ بھی تیار کی ہوگی یہ ہمارے دور کی علامت ہے کہ راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس ) اور بی جے پی نے جس طرح ہندوازم ، روایات ، قوم پرستی پر ناجائز قبضہ کیا ہے اور اب یونیفارم سیول کوڈ کے ذریعہ وہ سیاسی فوائد حاصل کرنے بے چین ہے تاہم سیکولر سیاست آر ایس ایس اور بی جے پی کو اس طرح کی سرگرمیوں و حرکتوں سے روکنے آگے نہیں بڑھتی اسے اپنے قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور نہیں کرتی ایسے میں خاص کر بی جے پی کو یونیفارم سیول کوڈ کے بہانے اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل سے روکنا ضروری ہے اور اس کیلئے یونیفارم سیول کوڈ پر سیکولر سیاست ( سیاسی جماعتوں ) کو اصولی اور ترقی پسند موقف اختیار کرنا چاہئے اور اس پر دوبارہ اپنا دعوی کرنا چاہئے ساتھ ہی اس امر پر زور دینا چاہئے کہ یونیفارم سیول کوڈ UCC کا کسی ایک مذہب کے رسم و رواج سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ مذہبی برادریوں کے درمیان اور ان میں برابری کے آئنی اصولوں کی یکساں ترجیح پر زور دینے اور صنفی انصاف کو یکساں طور پر یقینی بنانے سے متعلق ہے۔ اس سے یہ سمجھنا چاہئے کہ یکساں سیول کوڈ کے آئیڈیا کی مخالفت کرنا غیردانشمدانہ سیاست ہے اس کے علاوہ یہ 2024 کے عام انتخابات کیلئے ایک بڑی سیاسی حکمت عملی ہے ۔
اس کے پیچھے کار فرما معقولیت ، یو سی سی کا آئیڈیا ایک سیدھا سادہ اور ایک طاقتور دلیل ہے قانون کے سامنے مساوات یعنی قانون کی نظر میں تمام ہندوستانی شہری برابر ہیں اگر تمام شہریوں پر ایک ہی پیانل کوڈ کے ذریعہ حکمرانی کی جاسکتی ہے تو اسی اصول کو سیول کوڈ پر لاگو کیوں نہیں کیا جاسکتا ۔ مختلف برادریاں اپنے الگ الگ رسم و رواج سے محظوظ ہوسکتی ہیں لیکن کسی بھی برادری کو افراد کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے کیا کسی برادری کے مذہب یا ثقافت کے حق کو اس برادری کی خواتین کے برابری کے حق کو ختم کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ یہ بی جے پی کے دلائل نہیں ہیں ، خواتین کی تنظیموں کی طرف سے یو سی سی کے اصل مطالبہ کے پیچھے یہی دلیل کار فرما تھی یہ دستور ساز اسمبلی میں بھی وسیع تر اتفاق رائے تھا ۔ دراصل اس شق کو بنیادی حقوق کی دفعات میں ڈالنے کی تجویز تھی لیکن تقسیم کے تناظر میں روکدیا گیا تھا ۔ سطور بالا میں دیئے گئے دلائل کو پنڈت جواہر لال نہرو ، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور رام منوہر لوہیا نے استعمال کیا جس وقت انہوں نے یو سی سی کی وکالت کی اور وہ آزاد ہندوستان میں یکساں سیول کوڈ کا مطالبہ کرنے کیلئے تحریک حقوق نسواں کا میدان تھا ۔ دستور کی دفعہ 44 غیر منصفانہ ہدایتی اصول پر مشتمل ہے ۔ ’’ ریاست ، ہندوستان کے سارے علاقوں میں شہریوں کیلئے یکساں سیول کوڈ کو یقینی یا محفوظ بنانے کی کوشش کرے گی ‘‘ ۔ ہم میں سے لوگ یہ مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ ریاست کو آئین میں درج ہدایتی اصولوں کی تعمیل کرنی چاہئے وہ اچانک ان اہم اور کلیدی اصولوں میں سے کسی ایک سے بھی منہ نہیں موڑ سکتے ۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آئین کو اپنانے کے 73 سال بعد بھی ملک اس آئیڈیا کیلئے تیار نہیں ہے ۔
بی جے پی یکساں سیول کوڈ کے لغوی اور سطحی معنی پر کھیلتی ہے یہ فرض کرنا ہے کہ یکسانیت کا مطلب انفرادیت اور یکسانیت ہے لہذا اس کو پڑھنے میں ’’ یکساں ‘‘ سیول کوڈ کا مطلب ایک واحد قانون ہونا چاہئے جو ہمارے ملک میں موجود متعدد خاندانی قوانین کی جگہ لے اور اسی قانون میں تمام مذہبی برادریوں کے ارکان کیلئے شادی ، طلاق ، گود لینے اور وراثت کیلئے یکساں دفعات شامل ہونی چاہئے یہ وہی ورژن ہے جسے بی جے پی آگے بڑھانا چاہتی ہے اور یہی وہ ورژن ہے جس کی بی جے پی کے مخالفین اور ناقدین مزاحمت کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ دستوری ہدایات کی غلط تشریح ہے ۔ یو سی سی میں کہاں یکسانیت ہے ، سماجی مصلحین کی بصیرت ، آئین سازوں کا ارادہ اور تحریک نسواں کا مطالبہ اس بات کو پوری گہرائی و گیرائی سے پڑھنے کی دعوت دیتا ہے کہ آخر یکساں سیول کوڈ کا مطلب کیا ہے ۔ یونیفارم سیول کوڈ نہ ہی ایک جیسا ہے اور نہ ہی منفرد ( واحد ) ہے اس کی بجائے اس میں عام اصول لیکن مختلف قوانین شامل ہیں ۔ یہاں یکسانیت کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام مذہبی اور سماجی برادریاں ایک ہی آئنی اصولوں کے تابع ہوں گے کسی بھی برادری کے خاندانی قانون کو حق مساوات ، امتیازی سلوک کے خلاف حق اور صنفی انصاف کے آئیڈیا کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ کوئی بھی رواج یا عائلی قانون جو ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے اسے جانا ہی پڑے گا ساتھ ہی یہ مشترکہ اصول مختلف برادریوں کیلئے مختلف شکل اختیار کرسکتے ہیں ان کے موجودہ یا ضابطہ اخلاق و طریقوں کی بنیاد پر ہندو رسم و رواج کے برعکس مسلم شادی نکاح نامہ پر مبنی ایک معاہدہ ہے ایک یونیفارم سیول کوڈ کیلئے مسلمانوں کو اسے ترک کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ہندوؤں کو اسے اپنانے کی ضرورت ہوگی۔ مختلف برادریوں میں شادی ، طلاق ، گود لینے اور وراثت سے متعلق طریقہ کار یکسر مختلف ہے یہاں تک کہ متضاد رسم و رواج کی پیروی رکھی جاسکتی ہے جب تک کہ وہ آئنی اصولوں کی سیٹ کی خلاف ورزی نہ کریں ۔ یکساں سیول کوڈ صرف ایک قانون سازی یا ایک جنبش قلم سے ایک دن میں نافذ نہیں کیا جاسکتا جو اس سے پہلے موجود ہر چیز کو مٹادے گا اس تناظر میں یو سی سی کے حصول کیلئے تین دورس قانون سازی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔