پلین کراش … جب لاد چلے گا بنجارہ
بہار الیکشن … مودی بمقابلہ راہول گاندھی
رشیدالدین
’’ایئر انڈیا کی بوئنگ 787 ڈریم لائنر فلائٹ اُڑان کے لئے تیار ہے‘‘۔ کون جانتا تھا کہ فلائٹ پرواز تو کرے گی لیکن لندن نہیں بلکہ زندگی کی آخری منزل کی طرف۔ فلائٹ میں پائلیٹ کی جیسے ہی یہ آواز گونجی کہ تمام 230 مسافرین نے لندن پہونچنے کے بعد کے پروگراموں کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ کوئی وطن واپس ہورہا تھا تو کوئی رشتہ داروں سے ملنے کے لئے جارہے تھے۔ برطانیہ سے 53 شہری سیر و تفریح کے بعد وطن واپس ہورہے تھے۔ ٹیک آف کے اعلان کے ساتھ ہی مسافرین کے دلوں میں خوشی کا ماحول فطری تھا اور چہرے پر اطمینان کے جذبات کے ساتھ پرواز کا انتظار کرنے لگے۔ طیارہ نے جیسے ہی رن وے پر برق رفتاری کا آغاز کیا، مسافرین کو اپنی منزل نظروں میں گھومنے لگی۔ کسے پتہ تھا کہ اُڑان کیلئے تیار ہونے کا پائلیٹ کا اعلان آخری ثابت ہوگا اور چند لمحوں میں وہ تمام موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔ لندن میں دوست احباب، رشتہ داروں کو آمد کا انتظار تھا لیکن ایئرپورٹ کے باہر موت بانہیں پھیلائے کھڑی تھی تاکہ 12 عملہ کے ارکان سمیت جملہ 241 کو اپنی آغوش میں لے۔ فلائٹ نے اُڑان بھری لیکن محض دیڑھ منٹ میں طیارہ حادثہ کا شکار ہوگیا اور مسافرین کے ساتھ کئی عام شہری بھی موت کی ابدی نیند سوگئے۔ طیارہ نے جیسے ہی اُڑان بھری پائلیٹ کی آواز ’’مے ڈے‘‘ ایئر ٹریفک کنٹرول میں گونجی۔ ٹریفک کنٹرول کے عہدیدار اِس پیام کا جواب دینے تک طیارہ شعلہ پوش ہوچکا تھا۔ فرانسیسی زبان میں ’’مے ڈے‘‘ کا مطلب ’’آیئے میری مدد کیجئے‘‘ جس کا استعمال پائلیٹس کی جانب سے انتہائی خطرہ کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ پائلیٹ نے مدد کیلئے تو پکارا لیکن اُس وقت تک دیر ہوچکی تھی۔ کسی کے گمان میں نہیں تھا کہ پرواز اور منزل پہونچنے کی خوشی یکلخت سانحہ بن جائے گی۔ فلائٹ میں سوار ہونے کے لئے بورڈنگ کے اعلان کے ساتھ ہی مسافرین خوشی کے عالم میں کاؤنٹر کی طرف دوڑے، کسی نے اپنے گھر والوں، کسی نے دوست احباب کو بورڈنگ کی اطلاع فون پر دی۔ 2 برطانوی شہریوں نے ایئرپورٹ پر ویڈیو بنایا جس میں بائے بائے انڈیا کہتے ہوئے وطن جانے کی خوشی ظاہر کی۔ ویڈیو ابھی وائرل ہوا تھا کہ دونوں موت کی آغوش میں چلے گئے۔ فلائٹ میں نشست سنبھالنے کے بعد سیلفی کا دور شروع ہوا۔ اپنی اپنی سیلفیاں گھر والوں کو روانہ کی جانے لگیں۔ ایک خاتون نے فلائٹ میں سوار سابق چیف منسٹر گجرات وجئے روپانی کے ساتھ سیلفی گھر والوں کو بھیجی۔ فلائٹ میں ہر طرف سیل فون پر اپنے رشتہ داروں کو بائے بائے کرنے کی آوازیں گونجنے لگیں لیکن کون جانتا تھا کہ یہ آخری پیام احمدآباد نہیں بلکہ دنیا سے کوچ کرنے کا بن جائے گا۔ ایئرپورٹ پر وداع کرنے کے بعد رشتہ دار اور دوست احباب ابھی واپس بھی نہیں ہوئے تھے کہ فلائٹ کے کراش ہونے کی دردناک خبر ملی۔ فلائٹ کے دونوں انجن بند ہوجانے سے فضاء میں اوپری سمت پرواز کے بجائے طیارہ زمین پر میڈیکل کالج کی عمارت پر گر پڑا۔ طیارہ میں چونکہ ایندھن بھرا ہوا تھا لہذا نہ صرف طیارہ بلکہ اطراف کی کئی عمارتیں شعلہ پوش ہوگئیں۔ بوئنگ 787 کا شمار دنیا کے عصری طیاروں میں ہوتا ہے جس میں 2 انجن ہیں۔ ایک میں خرابی کی صورت میں دوسرے سے بہ آسانی منزل تک پہونچ سکتے ہیں۔ 12 سال پرانا ایئر انڈیا کا بوئنگ 787 بیرونی ممالک کے سفر کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ احمدآباد ایئرپورٹ کا یہ سانحہ ہندوستان کی تاریخ کا اب تک کا بڑا سانحہ ہے جس میں 230 مسافرین، 10 عملہ کے ارکان اور 2 پائلیٹ ہلاک ہوئے۔ مسافرین میں 53 برطانوی شہری، پرتگال کے 7 اور کینیڈا کا ایک شہری شامل تھا۔ بیک وقت 2 انجنوں کا بند ہوجانا ماہرین کے لئے ایک معمہ بن چکا ہے۔ احمدآباد ایئرپورٹ پر پرندوں کے جہاز سے ٹکرانے کے سبب کراش لینڈنگ کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ بوئنگ 787 کے حادثہ کی وجوہات کا پتہ چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور بلیک باکس کی دستیابی سے لمحہ آخر میں پائلیٹس کی گفتگو کا پتہ چلے گا۔ پلین کراش کی وجوہات چاہے تکنیکی خرابی ہو یا انسانی غلطی لیکن ہمارا ایمان تو بس یہی ہے کہ مرنے والوں کے دنیا سے کوچ کرنے کا وقت آچکا تھا اور یہ حادثہ تو ایک بہانہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہر انسان کی موت کیلئے جو وقت مقرر ہے اُس میں ایک لمحہ بھی کم یا زیادہ نہیں ہوسکتا۔ پلین کراش کے واقعہ نے فضائی سفر کے بارے میں عوام میں خوف پیدا کردیا ہے جس کا اثر چند دن تک دکھائی دے گا۔ مسافرین فضائی سفر کے غیرمحفوظ ہونے پر تشویش میں مبتلا ضرور ہیں لیکن اِس سے مسافرین کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ احمدآباد ایئرپورٹ کے رن وے کے باہر بوئنگ طیارہ کراش ہوا اور اُس کا ملبہ علاقہ میں بکھرا پڑا تھا لیکن ایئرپورٹ سے ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل پروازوں کا چند گھنٹوں میں آغاز ہوگیا۔ اِس تیز رفتار زندگی میں بڑے سے بڑا سانحہ محض چند دنوں کا ہوتا ہے اور لوگ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر غم کو بھلا کر زندگی کے معمولات میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ایئر انڈیا نے مہلوکین کے پسماندگان کے لئے فی کس ایک کروڑ کی امداد کا اعلان کیا ہے لیکن رقم سے کسی کی زندگی تو واپس نہیں کی جاسکتی۔ کتنے بچے یتیم، کئی خواتین بیوہ اور کتنے ہی خاندان بے سہارا ہوگئے، اُن کے زخموں کو دولت کے مرہم سے مندمل نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ایئر لائنز کمپنیاں اپنے طیاروں کی بہتر جانچ کرتے ہوئے قدیم طیاروں کا استعمال ترک کریں تاکہ آئندہ اِس طرح کے حادثات کا تدارک ہو۔ حادثہ میں رمیش مشرا کمار نامی مسافر کا زندہ بچ جانا کسی معجزہ سے کم نہیں۔ حادثہ کی نوعیت کے اعتبار سے کسی کا بچنا ممکن ہی نہیں تھا اور 241 مسافرین کی نعشیں جھلس کر ناقابل شناخت بن چکی ہیں اور شناخت کے لئے ڈی این اے ٹسٹ کیا جائے گا۔ ایسے میں ایک مسافر کا محفوظ رہنا خدا کی قدرت کے قائل ہونے کے لئے کافی ہے۔ جب تک موت کا وقت مقرر نہیں آتا اُس وقت تک کوئی بڑے سے بڑا حادثہ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ ملک کے دیگر ایئرپورٹس کے مقابلہ احمدآباد طیاروں کے حادثات کے لئے بدنام ہے۔ ابھی پلین کراش کے خوف سے عوام اُبھر نہیں پائے تھے کہ اچانک دہلی اور ممبئی سے لندن کے لئے پرواز کرنے والے طیارے راستہ سے واپس ہونے لگے۔ مسافرین نے سمجھا کہ شاید احمدآباد ایئرپورٹ کا سانحہ پھر دوہرایا جائے گا لیکن دونوں طیاروں کے پائلیٹس نے بھروسہ دلایا کہ واپسی کسی خرابی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ معاملہ کچھ اور ہے۔ دراصل رات میں اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا لہذا لندن جانے والی فلائٹس کو راستہ سے واپس طلب کرلیا گیا۔ اِسے محض اتفاق ہی کہا جائے گا کہ ایئر انڈیا کی بوئنگ 787 ڈریم لائنر کا ’’ڈبل انجن‘‘ اُس ریاست میں ناکام ہوا جہاں بی جے پی کی ’’ڈبل انجن‘‘ سرکار ہے۔ ’’سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ‘‘۔
آپریشن سندور تو بقول ڈونالڈ ٹرمپ روک دیا گیا جبکہ نریندر مودی اور اُن کی ٹیم بہار میں اِس آپریشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کی ہدایت پر دونوں ممالک نے جنگ بندی کا اعلان کیا جس کا ٹرمپ 11 مرتبہ دعویٰ کرچکے ہیں لیکن وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ جئے شنکر نے جیسے لب کشائی نہ کرنے کی قسم کھائی ہو۔ ٹرمپ کے دعوے کے مطابق ہندوستان نے پاکستان کے خلاف بمباری، شلباری اور گولیوں کو برسانا بند کردیا ہے لیکن بہار میں نریندر مودی اور اُن کی ٹیم سیاسی حریفوں پر آپریشن سندور کی آڑ میں الفاظ کی بمباری اور شلباری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بہار الیکشن نریندر مودی کے لئے وقار کا مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ جب کبھی کسی ریاست میں الیکشن قریب آتے ہیں اور جہاں بی جے پی کی کامیابی ضروری ہوجاتی ہے اُس سے عین قبل ملک میں دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور پیش آتا ہے۔ پہلگام میں دہشت گرد حملہ کے بارے میں آج تک راز کے پردے پڑے ہیں۔ دہشت گرد کہاں سے آئے اور کہاں واپس ہوئے، اِس کا آج تک سکیورٹی ایجنسیوں کو کوئی پتہ نہیں ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد ٹھکانوں پر حملہ تو کیا گیا لیکن ہندوستان میں داخل ہوکر سیاحوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے والے دہشت گردوں کا آج تک پتہ نہیں چلا۔ مودی حکومت سے اگر کوئی سوال کرتا ہے تو اُسے ملک دشمن قرار دے کر مقدمات میں پھانس دیا جاتا ہے لیکن دنیا کو سوال کرنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ بیرونی ممالک کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا آج بھی مودی حکومت سے پہلگام دہشت گرد حملہ اور آپریشن سندور کے بارے میں سوال کررہے ہیں۔ جنگ بندی کے بعد ہندوستان نے اعلان کیا تھا کہ حملوں کو روکنا محض عارضی ہے اور کسی بھی وقت دوبارہ کارروائی کی جاسکتی ہے۔ آخر وہ وقت کب آئے گا جب پہلگام حملہ کے ذمہ دار دہشت گردوں کو سزا دی جائے گی۔ نریندر مودی کے نزدیک پہلگام حملہ سے زیادہ اہم بہار کا الیکشن ہے اور یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے ہنگامی حالات کے باوجود بہار میں انتخابی ریالی سے خطاب کیا۔ نریندر مودی چاہتے ہیں کہ آپریشن سندور پر بہار میں کامیابی حاصل کی جائے لیکن یہ کام آسان نہیں کیوں کہ کانگریس کے قائد راہول گاندھی ملک بھر میں نریندر مودی حکومت کو بے نقاب کررہے ہیں۔ بہار الیکشن میں اصل مقابلہ نریندر مودی اور راہول گاندھی کے درمیان ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کو روکنے میں راہول گاندھی کس حد تک کامیاب ہوں گے۔ لالو پرساد یادو اور تیجسوی یادو نے تمام چھوٹی سیکولر جماعتوں کو اتحاد کی دعوت دی ہے اور اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوجائے تو پھر آپریشن سندور بھی بی جے پی کی نیّا کو پار نہیں لگا سکتا۔ امیت شاہ نے مغربی بنگال پہونچ کر مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کئے ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ مسلم ووٹ بینک کو خوش کرنے کے لئے ممتا بنرجی آپریشن سندور کی مخالفت کررہی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ممتا بنرجی نے کبھی بھی آپریشن سندور کی مخالفت نہیں کی۔ اگر ایسا ہوتا تو بیرونی ممالک کو روانہ کئے گئے ارکان پارلیمنٹ کے وفود میں ترنمول کانگریس کے ابھیشک بنرجی شامل نہ ہوتے۔مسلمانوں کو آپریشن سندور کا مخالف قرار دینے کی کوشش دراصل مغربی بنگال اور بہار کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ امیت شاہ نے وہی بات کہی جو مدھیہ پردیش کے وزیر وجئے شاہ نے کرنل صوفیہ قریشی کے بارے میں کہا تھا۔ جب ملک کے مسلمان آپریشن سندور کے مخالف تھے تو پھر مسلم ممالک کو ارکان پارلیمنٹ کے وفود کیوں روانہ کئے گئے۔احمدآباد پلین کراش پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
یہاں ہر شخص ہر پل حادثہ سے ڈرتا ہے
کھلونا ہے جو مٹی کا فنا ہونے سے ڈرتا ہے