یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں

   

محمد مصطفی علی سروری
علی کی عمر صرف آٹھ برس ہے۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی کی صورت و شکل کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ علی کا یہ چھوٹا بھائی ابھی ایک دن پہلے ہی پیدا ہوا تھا۔ ویسے تو ننھے بچے فرشتوں کا روپ ہوتے ہیں اور ہر ایک کو اچھے لگتے ہیں لیکن علی کے اس چھوٹے بھائی کی ایک خاص بات تھی۔ قارئین آپ کو ہم اس چھوٹے بچے کی کہانی آگے بتلائیں گے۔ پہلے یہ سن لیجیے کہ علی نے اپنے چھوٹے بھائی کی نام رکھائی کے متعلق کیا کہا تھا۔ علی نے اپنی ماں کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’امی اس کا نام سونو رکھ دو‘‘۔
قارئین یہاں تک تو اس واقعہ میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ کیونکہ کئی گھرانوں میں ایسا ہوتا ہے۔ گھر کے بڑے بچے اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کا بڑے لاڈ سے نام رکھتے ہیں اور بہت سارے ماں باپ بھی اپنے بچوں کے مشوروں کو سن کر بڑے خوش ہوتے ہیں لیکن جب علی اپنے چھوٹے بھائی کا نام سونو رکھنے کی فرمائش کر رہا تھا اس نام کے تجویز کرنے کے پیچھے کچھ خاص بات چھپی تھی جو علی کے ذہن میں تھی۔ علی کون ہے؟ یہ بھی جان لیجیے علی کا تعلق شمالی مشرقی دہلی کے کروال نگر کے مہالکشمی وہار سے ہے۔ یہ 25؍ فروری 2020 کی بات ہے ۔ دہلی کے شمال مشرقی علاقے قتل و غارت گری سے دہل اٹھے۔ ظالم فسادی چن چن کر مسلمانوں اور ان کی جان و مال کو نشانہ بنارہے تھے۔ ان ہی شرپسندوں نے علی کے گھر پر بھی حملہ کردیا۔ پہلے تو ان شرپسندوں نے گھر کے لوگوں پر لاٹھیاں برسانی شروع کردی۔ بڑوں کو مار کھاتا اور چیختا دیکھ کر بچے بھی گھروں کے کونوں میں چھپنے کی کوشش کر رہے تھے۔ فسادی نوجوانوں نے علی کی ماں 26 سالہ شبانہ پر بھی حملہ کردیا۔ شبانہ نو مہینے کی حاملہ تھی۔ شبانہ اس پر اٹھنے والی ہر لاٹھی کو اپنے ہاتھوں سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی ایک ہی خواہش تھی کہ اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ شرپسند حملہ آوروں نے تو شبانہ کے پیٹ پر بھی لات ماری مگر لوگ سچ ہی کہتے ہیں کہ مارنے والے سے بڑا بچانے والا ہے۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ حملے میں شبانہ کے صرف بازو زخمی ہوگئے حملہ آوروں نے گھر سے باہر نکلتے وقت گھر کو آگ لگادی۔
شبانہ اور اس کے گھر والے کسی طرح بچ کر باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ منگل کی رات ہی شبانہ کو دواخانہ لے جایا گیا اور پھر چہارشنبہ 26؍ فروری 2020 کو شبانہ نے اولڈ مصطفی آباد کے الہند دواخانے میں ایک بچے کو جنم دیا جس کا وزن پیدائش کے وقت ساڑے تین کیلو تھا۔ (بحوالہ اخبار دی انڈین ایکسپریس۔ 28؍ فروری 2020 کی رپورٹ)
8 سالہ علی شائد اس بات کو سمجھ گیا تھا کہ حملہ آور مارنے سے پہلے لوگوں سے ان کے نام پوچھ رہے تھے۔ شائد اسی لیے اس نے اپنے چھوٹے بھائی کے لیے سونو کا نام تجویز کیا تاکہ سننے والے کو یہ سمجھنے میں مشکل ہو کہ بچہ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ کیونکہ سونو جیسے نام سے مذہب کی شناخت آسان نہیں۔
اتوار 23؍ فروری 2020 کو دہلی کے چاند باغ علاقے کے لوگوں نے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف راج گھاٹ تک ریالی نکالی تھی کیونکہ اس دن بھیم آرمی کی جانب سے ملک گیر بند کا بھی اعلان کیا گیاتھا۔ دہلی پولیس نے اس ریالی کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ دوسری طرف بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا نے مسلم خاتون احتجاجیوں کو تین دن کا الٹی میٹم دیا کہ وہ اپنا احتجاج ختم کردیں۔ کپل مشرا کی اس اشتعال انگریز تقریر کے بعد پتھرائو کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ دہلی میں مسلمانوں کے قتل، ان کے گھروں کو جلانے کے ایک طویل بھیانک دور تک جاپہنچا۔ 23؍ فروری کو شروع ہونے والے ان فسادات کی آگ 26؍ فروری تک بھڑکتی رہی۔ اس سارے عرصے کے دوران کئی ایک واقعات رونما ہوئے۔ ان میں سے بیشتر واقعات کا جب تجزیہ کیا جائے تو ہمیں یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ جو کچھ ہوا وہ کس نے کیا؟ اور نقصان کس کو ہوا۔کیا دہلی میں جو کچھ فساد ہوا وہ ہندو- مسلم فساد تھا؟ اس سوال کا جواب Scroll.in کے نمائندہ وجیتا لالوانی کی 2؍ مارچ 2020 کی رپورٹ سے مل جاتا ہے۔ دہلی کے تشدد میں 47 معصوم لوگوں کی جانیں چلی جانے کے بعد دہلی کی حکومت نے تشدد سے متاثرہ لوگوں کی راحت اور سہولت کے لیے (نو) ریلیف کیمپس کا آغاز کیا تھا تاکہ تشدد کے دوران جن لوگوں کے گھر تباہ کردیئے گئے ان لوگوں کی عارضی رہائش کا انتظام کیا جاسکے۔
سیما نام کی ایک خاتون دہلی کے شیو وہار کے علاقے کی رہنے والی ہیں۔ انہوں نے مکتوب میڈیا کے نمائندے کو بتلایا کہ دہلی کی گڑبڑ کے دوران ان کے گھر کو آگ لگادی گئی۔ 26؍ فروری کی رات جب سیما کے گھر پر فسادیوں نے آگ لگادی تو سیما نام کی مسلم خاتون اپنے پورے خاندان کے ساتھ اپنے گھر کو چھوڑ کر اپنے پڑوسی ہندو کے گھر چلی جاتی ہے۔ سیما اور آصف یہ لوگ دو دن ہندو پڑوسی کے گھر میں چھپ کے بیٹھے رہتے ہیں۔ اس دوران فسادیوں کو پتہ لگ جاتا ہے۔ مسلمان خاندان اپنے پڑوسی ہندو کے گھر بحفاظت موجود ہیں تو وہ فسادی ہندو گھر پر بھی حملہ کرتے ہیں۔
موج پور مین روڈ پر 27؍ فروری کو جلی ہوئی دوکانیں آنسو گیس کے استعمال شدہ شلس، ٹوٹی ہوئی گلاسس بکھری پڑی تھیں۔ مین روڈ پر تو پولیس اور نیم فوجی دستوں کی ٹکڑیاں کھڑی تھیں لیکن مین روڈ سے اندرونی سڑکوں کا کیا منظر تھا۔ 27؍ فروری کی سومیا لکھانی کی اخبار دی اڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق 26 سالہ بلپریت سنگھ کالسی، 33 سالہ محمد عرفان اور 52 سالہ چمپاداما گلی نمبر 6 میں مستعدی کے ساتھ کھڑے تھے۔ محمد عرفان اس گلی میں ہی اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کے پڑوسی ہندو ہیں۔ وہ اخبار کو بتلاتے ہیں کہ ہم لوگ ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔ ہمارے درمیان اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ اگر میں مشکل میں پڑوں تو میرا پڑوسی مجھے مدد کرے گا اور جب پڑوسی کو ضرورت پڑے گی تو میں اس کے پاس جائوں گا۔ فسادی عناصر ان کی گلی میں گھس نہ سکیں اس کے لیے ان لوگوں نے محلے کے بھی لوگوں سے چندہ جمع کر کے گلی کے آگے لوہے کی گیٹ لگادی تاکہ کوئی باہر والا ہماری مرضی کے بغیر اندر نہ آسکے۔ گلی کے ایک مکین سلمان انصاری کے حوالے سے انڈین ایکسپریس نے لکھا کہ منگل 25؍ فروری کو 40 مسلمان جو کہ دوسرے علاقے سے تعلق رکھتے تھے ان کی گلی میں آنا چاہتے تھے لیکن مسلمانوں نے انہیں اندر آنے سے منع کردیا۔ محلے کے مکینوں نے واٹس ایپ کا ایک گروپ بناکر ایک دوسرے سے رابطہ کا ایک موثر طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ ایسے ہی محلے کے اندر موجود گرودوارہ میں آگ لگنے کی افواہ پھیلادی گئی تب باہر سے سردارجیوں کا ایک گروپ وہاں آنا چاہتا تھا لیکن محلے کے سردار جیوں نے انہیں یقین دہانی کروائی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
شیو وہار دہلی کا وہی اصل علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ تباہی مچائی گئی۔ اشوک تومر کی چاندی کی دوکان اسی علاقے میں ہے۔ فسادات کے بعد 2؍ مارچ 2020 کو اشوک نے اپنی دوکان کھولی فسادیوں نے جب 25؍ فروری کو ان کی دوکان لوٹنا شروع کیا تو انہیں محلے کے مسلمان لڑکوں نے فون کرکے اطلاع دی کہ انکل فسادی آپ کی دوکان پر حملہ کر رہے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ بیٹا فسادیوں کو جو کرنا ہے کرنے دو میں واپس ضرور آئونگا۔ فسادیوں نے ان کا چار لاکھ کا سامان لوٹ لیا۔ (بحوالہ اخبار دی ٹیلیگراف کی رپورٹ مطبوعہ۔ 3؍ مارچ 2020)
ٹیلیگراف کی اس رپورٹ کے مطابق پیر کے دن شیو وہار کے علاقے میں دھرمیندر شرما نے اپنی مٹھائی کی دوکان کھولی۔ جو کہ فساد شروع ہونے کے بعد 25؍ فروری کو عجلت میں بند کردی گئی تھی۔ دھرمیندر شرما نے اخبار کے نمائندے کو بتلایا کہ میرے 60 فیصد کسٹمرس مسلمان ہیں۔ اپنے گراہک کو اچھی طرح جانتا ہوں وہ لوگ میری مٹھائی پسند کرتے ہیں۔ قارئین جب دہلی کے ہندو اور مسلمان اس بات کو سمجھ گئے کہ ان کے درمیان آپسی اتحاد ہوتو کوئی بھی چاہے وہ فسادی کیوں نہ ہو ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکتے تو کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ بھی جان لیجیے۔
ٹیلیگراف اخبار کے نمائندے فیروز یل ونسٹ کی رپورٹ سے پتہ چل جاتا ہے۔ بھاگیرتی وہار، دہلی کا ایسا ہی ایک علاقہ ہے۔ جہاں پر فساد کے دوران بالکل سکون رہا۔ حالانکہ اس علاقے میں ہندو بھی رہتے ہیں اور مسلمان بھی اور یہ لوگ محنت مزدوری کرنے والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انور بھی اسی علاقے میں رہنے والا مزدور ہے۔ اس نے ٹیلیگراف کے نمائندے کو بتلایا کہ ’’ہم لوگ محفوظ ہیں۔ چونکہ ہم ایک ہیں۔ باہر سے جب ہجوم آیا تو ہم نے کسی کے بھی گھر کی طرف انگلی نہیں اٹھائی۔‘‘ اشفاق دہلی کے ایک اُردو اخبار میں کام کرتا ہے۔ وہ 25؍ فروری کو جعفرآباد کے علاقے سے گذر رہا تھا تو فسادیوں نے اس کو پکڑ لیا۔ اس کی شناخت پوچھی اور جب پتہ چلا کہ وہ مسلمان ہے تو اس کو مارنے لگے۔ مار کھانے کے بعد بھی اشفاق کی جان کیسے بچ گئی اس کے متعلق اخبار ٹیلیگراف کے نئی دہلی میں نمائندے عمران احمد صدیقی نے اپنی 26؍ فروری کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اشفاق کو جب فسادی مار رہے تھے تو ایک ہندی اخبار کے رپورٹر نے اشفاق کو پہچان لیا اور مداخلت کی۔ یوں اشفاق کی جان بچ گئی۔ (بحوالہ دی ٹیلیگراف ۔ 26؍ فروری 2020)
اشفاق نے کہا کہ ہندی رپورٹر کی مدد کے سبب ہی وہ زندہ بچ گیا۔ قارئین بہت سارے لوگوں کی نظر میں اشفاق کو مارنے والے ہندو تو نظر آجاتے ہیں اور وہ لوگ ہندی کے اس رپورٹر کو بھول جاتے ہیں جو مسلمان نہیں ہونے کے باوجود ایک مسلمان کی جان بچاتا ہے۔
پریم کانت باگل کی عمر 29 برس ہے۔ پریم آج کل دہلی کے جی ٹی بی ہاسپٹل میں زیر علاج ہے۔ وہاں پر اس کے چہرے کا علاج چل رہا ہے۔ پریم کا چہرہ آگ میں جل گیا ہے۔ حالانکہ وہ خطرے سے باہر ہے مگر اس کو علاج کی ضرورت ہے۔ قارئین پریم کو کسی اور نے نہیں جلایا بلکہ اس کا چہرہ اس وقت جھلس گیا جب وہ اپنے پڑوسی مسلمانوں کو آگ سے محفوظ باہر نکلنے میں مدد کر رہا تھا۔ اخبار نیو انڈین ایکسپریس کی 29؍ فروری 2020ء کی رپورٹ کے مطابق پریم کانت نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر جب 25؍ فروری کی رات میں دیکھا کہ فسادیوں نے اس کے پڑوسی مسلمان کے گھر میں آگ لگادی ہے اور مسلمان مدد کے لیے پکار رہے ہیں تو پریم نے آگ میں کود کر اپنے پڑوسی مسلمانوں کی جان بچائی۔ نیو انڈین ایکسپریس اخبار نے اس خبر کی سرخی یوں لگائی۔
Delhi Riots: Hindu Man Saves Six Muslim neighbours from torched house, struggles with severe burns.
قارئین سمجھدار کے لیے اشارہ کافی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بین مذہبی بھائی چارگی بہت کارآمد اور سودمند ہے۔ دہلی میں مسلمانو ںکو مارنے کے لیے جو بھی آئے وہ باہرسے آئے۔ جنہوں نے بھی آگ لگائی وہ باہر کے تھے۔ جب تک ہم اپنے پڑوسی کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رکھیں گے تب تک ہمارے پڑوسی ہی ہماری سیکوریٹی کی ضمانت ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو دیگر برادران وطن کے ساتھ سچی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تعلقات استوار کرنے والے بنادے۔ آمین یارب العالمین ۔بقول شاعر ؎
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]