یہ بازار سیاست ہے یہاں خودداریاں کیسی

,

   

نتیش کمار … مہاراشٹرا کا بدلہ بہارمیں
جموں و کشمیر … ناانصافی کے تین سال

رشیدالدین
سیاست محض دو لفظ کا نام ہے ’’صحیح وقت پر صحیح فیصلہ‘‘ ۔ جو پارٹی اور سیاسی قائد اس فارمولہ کو اختیار کرے وہ زیادہ تر کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔ یوں تو سیاست غیر یقینی حالات سے بھری ہوتی ہے اور کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ ہمیشہ اچھے دن رہیں گے۔ کب وقت اور حالات تبدیل ہوجائیں کہا نہیں جاسکتا۔ بہت کم سیاستداں ایسے گزرے جنہوں نے ہواؤں میں بو سونگھ کر حالات کے رخ کا اندازہ کرلیا اور بروقت فیصلوں کے ذریعہ اپنا اقتدار باقی رکھا۔ سیاسی اصطلاح میں اسے موقع پرستی کہہ لیں یا پھر مفاد پرستی لیکن آج کے سیاسی ماحول میں دل بدلو کوئی عیب نہیں رہا۔ سیاست میں اصول پسندی اور اقدار ختم ہوچکے ہیں اور کرسی کیلئے کچھ بھی کرنے تیار ہوجاتے ہیں۔ آج کے دور میں اصول پسندی کی بات کرنے والا احمق سمجھا جاتا ہے۔ بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار کو آپ موقع پرست کہیں یا پھر چالاک سیاستداں۔ انہوں نے کم تعداد کے باوجود بھی چیف منسٹر کی کرسی کو اپنے قبضہ میں رکھا۔ مارچ 2000 سے وقفہ وقفہ سے نتیش کمار نے 8 مرتبہ چیف منسٹر کے عہدہ کا حلف لیا ۔ کمال یہ ہے کہ کم تعداد کے باوجود انہوں نے بڑی پارٹیوں کو تائید کیلئے مجبور کیا ۔ جب بھی کسی سے خطرہ محسوس کیا فوری دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ جس وقت لالو پرساد یادو سے رشتہ توڑ کر نتیش کمار نے بی جے پی سے دوستی کی ، اس وقت انہیں سیکولر طاقتوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور فرقہ پرست پارٹی سے مفاہمت پر نکتہ چینی کی گئی تھی۔ نتیش کمار نے بھلے ہی بی جے پی کے ساتھ اقتدار میں حصہ داری نبھائی ہے لیکن انہوں نے بی جے پی کو بہار میں ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل کرنے کا موقع نہیں دیا ۔ نتیش کمار بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت میں گھٹن محسوس کر رہے تھے اور جیسے ہی بی جے پی نے بہار میں مہاراشٹرا پلان پر عمل کرنے کی تیاری شروع کی نتیش کمار نے آر جے ڈی کا ہاتھ تھام کر بی جے پی کو دن میں تارے دکھادیئے ۔ ایسے وقت جبکہ ملک میں اپوزیشن کے خلاف بی جے پی کا پلان کامیاب ہورہا ہے ۔ اپنے ارکان کو متحد رکھنا کسی کارنامہ سے کم نہیں۔ ایک جہاندیدہ سیاستداں کا ثبوت دیتے ہوئے نتیش کمار نے بی جے پی کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ ادھو ٹھاکرے جو بالا صاحب ٹھاکرے کی وراثت کے باوجود ارکان اسمبلی کو متحد نہ رکھ سکے لیکن نتیش کمار نے امیت شاہ اور جے پی نڈا کو بتایا کہ سیاست میں وہ ابھی طفل مکتب ہیں۔ بی جے پی قیادت کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ صرف چند گھنٹوں میں پارٹی اقتدار سے اپوزیشن میں آجائے گی۔ ملک میں اپوزیشن کا صفایا کرتے ہوئے ایک جماعتی نظام کا خواب دیکھنے والی بی جے پی کو بہار میں بریک لگ گیا ہے۔ بی جے پی کے چانکیہ امیت شاہ کو ایک بہاری نے شکست دیتے ہوئے اس محاورہ کو سچ کر دکھایا کہ ’’ایک بہاری سب پہ بھاری ‘‘ ۔ بہار ہی سے تعلق رکھنے والے شاہنواز حسین نے دلچسپ بات کہی کہ وہ وزیر صنعت کی حیثیت سے دہلی میں فلائیٹ میں سوار ہوئے لیکن پٹنہ ایرپورٹ اترتے وقت وہ سابق وزیر ہوچکے تھے کیونکہ حکومت ختم ہوچکی تھی ۔ ممتا بنرجی کے بعد اگر کسی نے بی جے پی کو سبق سکھایا ہے تو وہ نتیش کمار ہیں ورنہ ان کا حشر بھی ادھو ٹھاکرے کی طرح ہوتا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ ملک میں بی جے پی کی تیزی سے پیشقدمی کو بہار میں روک دیا گیا ہے۔ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ، سی بی آئی اور انکم ٹیکس ادارے بی جے پی کے کچھ بھی کام نہ آسکے۔ ملک کی دوسری بڑی ریاست بی جے پی کے ہاتھ سے نکل گئی جو پارٹی کے لئے ایک جھٹکا ہے۔ گزشتہ ہفتہ ہم نے کہا تھا کہ وقت ہمیشہ یکساں نہیں رہتا اور لوگوں کے درمیان بدلتا رہتا ہے۔ اسی کا مظاہرہ بہار میں دیکھنے کو ملا۔ نشیب و فراز سیاست کا لازمی جز ہیں۔ مہاراشٹرا کا جشن ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ بہار نے خوشی کو غم میں تبدیل کردیا۔ دوسروں کے ساتھ کئے گئے سلوک کے لوٹ کر آنے کی بات سچ ثابت ہوئی ۔ بی جے پی نے جو سلوک مہاراشٹرا میں ادھو ٹھاکرے کے ساتھ کیا تھا ، وہی سلوک نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ کیا ہے ۔ اپنے ارکان کو انحراف سے بچانے کیلئے اتحاد کو ختم کر کے مہا گٹھ بندھن میں واپس ہوگئے جس کے دروازہ پہلے سے کھلے ہوئے تھے ۔ بہار میں چاچا بھتیجے کی سرکار کی واپسی نے ادھو ٹھاکرے کے غم کو کسی قدر ہلکا ضرور کیا ہوگا۔ مہاراشٹرا کا بدلہ نتیش کمار نے بہار میں لے لیا ۔ شیوسینا سے بی جے پی کی بے وفائی کا نتیش کمار نے موثر جواب دیا ہے اور بی جے پی کو بے وفائی کا صلہ مل گیا۔ مہاراشٹرا کے بعد بہار بی جے پی کے نشانہ پر تھا ۔ ملک کی غیر بی جے پی حکومتوں کو بی جے پی نے حلیف بننے پر مجبور کردیا ہے ۔ جو حکومتیں مزاحمت کر رہی ہیں ، ان کو طرح طرح سے ہراساں کیا جارہا ہے ۔ تلنگانہ کی مثال سامنے ہے جسے مرکزی فنڈس میں حصہ داری سے محروم رکھتے ہوئے معاشی مسائل سے دوچار کیا جارہا ہے۔ اپوزیشن کو ہراسانی کے اس ماحول میں بہار کی سیاسی تبدیلی سے اپوزیشن نے راحت کی سانس لی ہے اور بی جے پی سے مقابلہ کے جذبہ کو نئی جلا ملے گی۔ اہم سوال یہ ہے کہ نتیش کمار نے اچانک فیصلہ کیا یا پھر وہ پہلے سے منصوبہ بندی کر رہے تھے ۔ یوں تو بی جے پی سے اتحاد کے بعد سے نتیش کمار مطمئن نہیں تھے کیونکہ بی جے پی ہمیشہ احسان جتا رہی تھی۔ احسان کی آڑ میں جنتا دل یونائٹیڈ میں پھوٹ کے اشاروں سے نتیش کمار کا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب بی جے پی صدر جے پی نڈا نے دورہ بہار کے موقع پر کہا تھا کہ علاقائی جماعتوں کا صفایا ہوجائے گا اور ملک میں بی جے پی کا راج ہوگا۔ نڈا کے اس بیان سے بی جے پی کے عزائم صاف جھلک رہے تھے۔ پھر کیا تھا نتیش کمار نے دوسرے متبادل کو اختیا کرنے کا فیصلہ کیا اور انہیں اچھے وقت یعنی نیک شگون کا انتظار تھا۔ بی جے پی قیادت سکتہ میں آگئی جب نتیش کمار نے استعفیٰ دے کر دوسرے دن آر جے ڈی کے ساتھ نئی حکومت کی کمان سنبھال لی۔ نتیش کمار کے فیصلے اور بہار میں بی جے پی کی شکست سے اپوزیشن خاص طور پر کانگریس پارٹی کو ہمت ملے گی جو ان دنوں انتقامی کارروائیوں کے سبب پریشان ہے۔ دیگر اپوزیشن جماعتوں کو جدوجہد کا حوصلہ ملے گا۔ نتیش کمار نے اپوزیشن کو متحد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اور انہیں 2024 ء میں نریندر مودی کے مقابلہ اپوزیشن کے پرائم منسٹر امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ 2024 ء تک حالات کیا رہیں گے ، کہنا قبل از وقت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نتیش کمار نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر اور مہاراشٹرا کا بدلہ لے کر سیکولر اور جمہوری طاقتوں کے گرتے ہوئے حوصلوں کو سہارا دیا ہے اور مخالف بی جے پی مہم کیلئے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔
نریندر مودی حکومت آزادی کے 75 سال کی تقاریب ملک بھر میں بڑے پیمانہ پر منا رہی ہے لیکن کسی کو ان کشمیریوں کی فکر نہیں جن کی آزادی سلب کرلی گئی۔ کشمیر کے خصوصی موقف یعنی آرٹیکل 370 کی برخواستگی کو تین سال مکمل ہوگئے لیکن کسی بھی سیاسی جماعت اور جہد کار کو اتنی فرصت نہیں کہ وہ کشمیریوں کے دکھ درد کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ مودی حکومت نے مخالفین کا جس انداز میں تعاقب شروع کیا ہے ، کوئی بھی یہ حوصلہ نہیں کر پا رہا ہے کہ کشمیریوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائے۔ 5 اگست 2019 ء کو کشمیر کا خصوصی موقف ختم کردیا گیا جو 1954 ء سے برقرار تھا۔ ہندوستان کی تقسیم کے وقت جب کشمیریوں نے پاکستان کے بجائے ہندوستان کو اپنا وطن تسلیم کیا، اس وقت شریفانہ معاہدہ اور جذبہ خیر سگالی کے تحت دفعہ 370 کے ذریعہ کشمیریوں کو خصوصی مراعات فراہم کئے گئے تھے ۔ بی جے پی نے اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کردیا۔ مودی حکومت نے اسمبلی انتخابات اور ریاست کا موقف بحال کرنے کا جو وعدہ کیا تھا ، آج تک پورا نہیں ہوا ہے ۔ کشمیریوں نے اپنے حق کے لئے سپریم کورٹ میں 23 سے زائد درخواستیں داخل کی ہیں، لیکن ان کی سماعت زیر التواء ہے۔ خصوصی موقف کی برخواستگی کے بعد سے میر واعظ مولوی فاروق اور کئی جہد کار مسلسل محروس ہیں۔ سیاسی قائدین کو بھی محدود اجازت دی جارہی ہے۔ اسمبلی الیکشن کیلئے حلقہ جات کی حد بندی مکمل ہوچکی ہے لیکن الیکشن کا دور دور تک پتہ نہیں۔ 370 کی برخواستگی نے کشمیر کے حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ گزشتہ دنوںکشمیر کا دورہ کرنے والے سی پی آئی قائدین نے بتایا کہ وہ لال چوک علاقہ میں ترنگا کے ساتھ تصویر کشی نہیں کرسکے کیونکہ سیکوریٹی فورسس نے یہ کہتے ہوئے اجازت نہیں دی کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ اپنے ہی ملک میں ترنگا لہرانے پر یہ پابندی کشمیر کے حقیقی حالات کی عکاسی کرتی ہے۔ حکومت صورتحال کے معمول پر آنے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن دہشت گرد کارروائیاں اور انکاؤنٹرس بدستور جاری ہیں۔ فوج اور سیکوریٹی فورسس کے ذریعہ عوامی حقوق کو پامال کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرنا مضحکہ خیز ہے کہ صورتحال معمول پر آچکی ہے۔ آزادی کے 75 سال کی تکمیل پر کشمیری عوام اپنے حقوق کی بحالی کے منتظر ہیں۔ بہار کے حالات پر منور رانا نے کیا خوب کہا ہے ؎
یہ بازار سیاست ہے یہاں خودداریاں کیسی
سبھی کے ہاتھ میں کاسہ ہے مٹھی کون باندھے گا