واشنگٹن ۔ 27 نومبر (ایجنسیز) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز تصدیق کی ہے کہ وائٹ ہاؤس کے قریب نیشنل گارڈ کے دو اہل کاروں پر فائرنگ کرنے والا مشتبہ شخص ستمبر 2021 میں افغانستان سے آیا تھا۔ انہوں نے اس واقعے کو ’’دہشت گردی کا عمل‘‘ قرار دیا۔ٹرمپ نے یہ بیان فلوریڈا سے جاری کیا جہاں وہ ‘تھینکس گیونگ’ کی تعطیلات گزار رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ “گرفتار کیا گیا مشتبہ شخص ایک غیر ملکی ہے جو افغانستان سے ہمارے ملک میں داخل ہوا” اور اسے “جو بائیڈن کی انتظامیہ ستمبر 2021 میں یہاں لائی تھی”۔امریکی صدر نے مزید کہا کہ اْن کی حکومت کو اب اْن تمام افراد کی ’’دوبارہ جانچ پڑتال‘‘ کرنا ہو گی جو اْن کے پیش رو جو بائیڈن کے دور میں افغانستان سے امریکہ آئے۔اس سے قبل بدھ کو وائٹ ہاؤس کے قریب فائرنگ کے واقعے میں نیشنل گارڈ کے دو اہل کار شدید زخمی ہو گئے۔ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل نے بتایا کہ نیشنل گارڈز کے یہ دونوں اہل کار ’’نہایت تشویش ناک حالت‘‘ میں ہیں۔ نیشنل گارڈز ٹرمپ کے حکم پر کئی ریاستوں میں جرائم سے نمٹنے کیلئے تعینات ہیں.واشنگٹن پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ فائرنگ کرنے والے ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور علاقے کو محفوظ بنا دیا گیا ہے۔ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر لکھا کہ زخمی اہل کاروں کو ’’دو مختلف اسپتالوں منتقل کر دیا گیا ہے اور وہ نازک حالت میں ہیں‘‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ حملہ آور ’’شدید زخمی ہوا ہے، لیکن وہ بہت بھاری قیمت چکائے گا، خواہ کچھ بھی ہو‘‘۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے متعدد عہدے داروں کے مطابق فائرنگ کرنے والا مشتبہ شخص ’’29 سالہ افغان تارک وطن ہے، جس کا نام رحمان اللہ لاکانوال ہے‘‘۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ 2021 میں امریکہ میں داخل ہوا تھا۔ یہ بات سی بی ایس نیٹ ورک نے بتائی۔
شہباز شریف غزہ کے روشن اور محفوظ مستقبل کیلئے کوشاں:ٹرمپ
واشنگٹن۔ 27 نومبر (ایجنسیز) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستانی وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی تعریف کی ہے۔ٹرمپ کا کہنا ہیکہ شہباز غزہ کے روشن اور محفوظ مستقبل کیلئے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کی اردو ترجمان مارگریٹ میکلاؤڈ نے لندن میں میڈیا کو بتایا کہ صدر ٹرمپ کے فلسطین امن منصوبے میں اہم پیشرفت جاری ہے۔مارگریٹ میکلاؤڈ کے مطابق ٹرمپ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت، خاص طور پر شہباز اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی بینک سمیت مختلف مالیاتی ادارہ غزہ کی تعمیر نو کیلئے فنڈز فراہم کریں گے۔ترجمان نے واضح کیا کہ غزہ کی آئندہ حکومت میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا، البتہ ہتھیار ڈالنے والوں کو ایمنسٹی دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ غزہ کے شہریوں پر علاقہ سے نکلنے کیلئے کسی قسم کا بیرونی دباؤ نہیں ہے۔ اس موقع پر انہوں نے نیویارک کے میئر ظہران ممدانی کی جیت کو امریکہ کے جمہوری عمل کی مضبوطی قرار دیا۔
ہماری خودمختاری روٹی اور پانی سے زیادہ اہم ، لبنان کا ایرانی مشیر کو جواب
بیروت ۔ 27 نومبر (ایجنسیز) لبنانی وزیر خارجہ یوسف رجی نے ایرانی سپریم لیڈر کے بین الاقوامی امور کے مشیر علی اکبر ولایتی کے بیانات پر تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ لبنان کی خودمختاری اور اس کے اندرونی فیصلے کی آزادی روٹی اور پانی سے زیادہ اہم ہے۔یوسف رجی نے ’’ ایکس’ ‘‘پر پوسٹ میں اپنے ایرانی ہم منصب عباس عراقچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ یقین کرنا چاہتے تھے کہ ایران لبنانی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور ایران کے سپریم لیڈر کے مشیر نے لبنانیوں کو حزب اللہ کے ہتھیاروں کی تخفیف کے نتائج سے خبردار کر دیا۔وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ لبنانیوں کیلئے جو چیز زیادہ اہم ہے وہ ان کی خودمختاری، ان کی آزادی اور ان کے اندرونی فیصلے کی آزادی ۔
ٹرمپ کا2026 کے جی20اجلاس میں
جنوبی افریقہ کو مدعو نہ کرنے کا اعلان
واشنگٹن، 27 نومبر (یو این آئی) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز کہا کہ امریکہ آئندہ سال میامی میں ہونے والے جی20 اجلاس میں جنوبی افریقہ کو مدعو نہیں کرے گا، جس سے واشنگٹن اور پریٹوریا کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے ۔ جنوبی افریقہ کو ایک ایسی ریاست قرار دیتے ہوئے جوکہیں کی رکنیت کے قابل نہیں، ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ اس سال کے عالمی اجلاس میں امریکی حکومتی نمائندے کے ساتھ کیے گئے سلوک کے باعث اس ملک کو دی جانے والی تمام ادائیگیاں اور سبسڈیاں بند کردیں گے ۔ امریکی صدر یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب امریکہ نے جوہانسبرگ میں منعقدہ تازہ ترین جی20اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا، حالانکہ وہ جی20کا بانی رکن اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے ۔ جی 20سربراہ اجلاس غیرمتوقع سفارتی تنازعہ پر ختم ہوا جب میزبان ملک جنوبی افریقہ نے جی20کی روایتی گیول تقریب میں باری کے اعتبار سے امریکہ کو باضابطہ طور پر منتقل کرنے سے انکار کردیا۔
انہوں نے پروٹوکول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ گیول کسی جونیئرامریکی نمائندے کو نہیں دیا جاسکتا۔
امریکہ 2026 میں جی-20 کی صدارت سنبھالنے والا ہے ۔ ایک وائٹ ہاؤس اہلکار نے مبینہ طور پر صدر سیرل راما فوسا کو خبردار کیا کہ وہ امریکہ اور صدر ٹرمپ کے بارے میں “غیر ضروری باتیں” کرنے سے باز رہیں۔ جنوبی افریقہ کا کہنا تھا کہ چونکہ واشنگٹن نے سربراہ اجلاس میں کم درجے کے سفارتی اہلکار کو بھیجا، اس لیے گیول حوالے کرنے کی تقریب میں بھی انہیں اسی درجے کے نمائندے کو پیش کرنا تھا۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے جنوبی افریقہ میں امریکی وفد نہ بھیجنے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ وہاں سفید فام افریکانرز کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ مئی میں ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صدر راما فوسا کے ساتھ ہونے والی ایک کشیدہ ملاقات میں سفید فام نسل کشی اور زمین پر قبضے کے دعووں کا ذکر کیا تھا – جنہیں بڑے پیمانے پر متنازع اور شکوک و شبہات سے بھرپور قرار دیا جاتا ہے ۔ جنوبی افریقہ نے ان دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ دہائیوں سے نسل پرستی کے نظام سے گزرنے والا ملک ایسے الزامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے ۔
ٹرمپ کا فیصلہ امریکہ کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے: الاخوان
واشنگٹن ۔ 27 نومبر (ایجنسیز) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے الاخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے اقدامات کے اعلان کے بعد، لندن میں تنظیم کی شاخ نے اپنا پہلا سرکاری رد عمل جاری کیا ہے۔ اس شاخ نے جس کی قیادت صلاح عبدالحق کرتے ہیں … “العربیہ ڈاٹ نیٹ” اور “الحدث ڈاٹ نیٹ” شائع کردہ معلومات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے تمام قانونی راستے اختیار کیے جائیں گے۔بیان میں کہا گیا کہ مذکورہ شاخ واشنگٹن سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے اصولوں، قانونی طریقہ کار، شفافیت اور انصاف پر قائم رہے اور کسی بھی تنظیم کو دہشت گرد قرار دینے سے قبل اْس کے ’’قانونی نمائندوں‘‘ سے براہ راست اور واضح بات چیت کرے۔ بیان کے مطابق یہ فیصلہ ’’ایک خطرناک نظیر‘‘ ہے جو امریکی قومی سلامتی اور علاقائی استحکام کو نقصان پہنچائے گی۔تنظیم نے دعویٰ کیا کہ اس فیصلے سے ’’سیاسی دھڑوں اور لاکھوں وابستگان کے خلاف اجتماعی سزا اور جبر‘‘ کو فروغ ملے گا، جو تنظیم کی سماجی اور مذہبی سرگرمیوں سے منسلک ہیں۔ ان کے مطابق الاخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دینا ’’حقیقت کے خلاف‘‘ ہے اور ’’کسی ٹھوس ثبوت‘‘ پر مبنی نہیں۔بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ فیصلہ ’’بیرونی ایجنڈوں‘‘ کے کام آئے گا جو ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کے اصول کے خلاف ہیں اور یہ بھی کہ اس میں غیر ملکی لابیوں کا پریشان کن اثر نمایاں ہے، جو اپنی سیاسی لڑائیاں امریکی قومی سلامتی کے فیصلوں پر مسلط کرنا چاہتی ہیں۔لندن کی شاخ کے مطابق یہ صدارتی حکم ’’سیاسی محرکات‘‘ رکھتا ہے، اس کی ’’کوئی مضبوط قانونی یا سکیورٹی بنیاد‘‘ نہیں ہے اور یہ امریکی مفادات یا عوام کی خدمت نہیں کرتا۔