یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ

   

پارلیمنٹ سیشن … کسانوں اور عوام کی نظریں
مسلم پرسنل لا بورڈ … سلگتے مسائل پر خاموشی

رشیدالدین
مسلمان عدم تحفظ کا شکار کیوں ہیں؟ اس مسئلہ پر دانشوروں کے ایک اجلاس میں بحث جاری تھی، مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کا کہنا تھا کہ مسلمان اور عدم تحفظ کا احساس یہ دونوں یکجا نہیں ہوسکتے۔ مسلمان ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے ساتھ ایک مکمل جامع نظام حیات کے حامل ہیں۔ ایک شخص کا خیال تھا کہ شریعت اور قرآن سے دوری نے مسلمانوں کے دلوں میں خوف پیدا کردیا ہے ورنہ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ معمولی فوج نے بڑے لشکروں پر فتح پائی ہے۔ شرکاء کا احساس تھا کہ عام طور پر چھوٹی اقلیتوں کو بڑی اقلیت سے ہمت رہتی ہے کہ برے وقت میں وہ کام آئیں گے ۔ گزشتہ 7 برسوں میں ملک میں مسلمان دوسری اقلیتوں کا سہارا بننے کے بجائے خود اپنے لئے سہاروں کی تلاش میں ہیں ۔ یہی صورتحال جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلوں میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ جب ہر کسی نے اپنی رائے کا اظہار کردیا تب ایک آواز نے سناٹے کو چیرتے ہوئے ہر کسی کی سماعتوں کی توجہ حاصل کرلی اور وہ کسی دانشور کی آواز نہیں بلکہ ایک عام سیدھے سادھے دکھائی دینے والے انسان کی تھی ۔ اس شخص نے کہا کہ تمام کی رائے قابل احترام ضرور ہے لیکن وہ اپنے مشاہدہ کی بنیاد پر یہ کہنے کے موقف میں ہیں کہ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کیلئے کوئی غیر نہیں بلکہ خود اپنے ذمہ دار ہیں۔ ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت ، مختلف عنوانات سے ہجومی تشدد اور فسادات ، مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ فسادات ، نفرت کی مہم اور آج کی ماب لنچنگ کی طرح حملوں کے دوسرے طریقے ملک میں گزشتہ 70 برسوں سے مسلمانوں پر آزمائے جارہے ہیں لیکن پھر بھی مسلمانوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ گزشتہ 7 برسوں میں ایسا کیا ہوگیا کہ مسلمان خود اپنے طور پر دوسرے درجہ کا شہری تصور کرنے لگے ہیں۔ جب تمام ہمہ تن گوش ہوگئے تو اس شخص نے جو جملہ ادا کیا وہ دانشوروں کی قابلیت اور تجربہ کیلئے چیلنج بن گیا۔ اس شخص نے کہا کہ مسلمان عدم تحفظ کا شخص اس وقت نہیں ہوتا جب کوئی غیر اسے دھوکہ دے دے۔ عدم تحفظ کا احساس دراصل اس وقت ہوتا ہے جب مسلمان کسی اپنے پر بھروسہ کرتے ہوئے قیادت کیلئے منتخب کریں اور اقتدار کے ایوانوں میں پہنچادیں لیکن وہاں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے بجائے وہ مسلمانوں کے نام پر سودے بازی کرلیں تو مسلمانوں کا عدم تحفظ کا شکار ہونا یقینی ہوتا ہے۔ وہ اس لئے کہ جن پر بھروسہ کیا اسی نے دھوکہ دیا اور وہی غاصب نکلا۔ یہ محض ایک جملہ نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کی موجود حالت زار کی بھرپور عکاسی ہے ۔ مسلمانوں کی قیادت چاہے وہ مذہبی ہو کہ سیاسی جرأت مندی اور حوصلے کے بجائے مصلحتوں کا شکار ہوچکی ہیں۔ مسائل بھلے ہی کتنے ہی سنگین آجائیں ، قیادتیں قوم کو جگانے کے بجائے اپنے آپ کو بچانے کی فکر میں ہیں۔ قیادتوں سے شکایت اس لئے بھی ہے کہ آج وہ قیادت نہیں رہی جس نے حکومت وقت کو شریعت میں مداخلت روکنے کیلئے دستوری ترمیم پر مجبور کردیا تھا۔ شاہ بانو کیس میں شریعت کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ کی مخالفت میں قیادت اور عوام دونوں سڑکوں پر تھے ، آخرکار راجیو گاندھی حکومت کو دستوری ترمیم کے ذریعہ عدالت کے فیصلہ کو بے اثر کرنا پڑا تھا۔ کہاں گئے وہ لوگ۔ مسلمانوں کی آنکھیں ایسے قائدین کیلئے ترس رہی ہیں جن کی ایک آواز سے اقتدار کے ایوان دہل جاتے تھے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے قیادتوں کو نشانہ بناتے ہوئے عوام میں ان کے اعتبار کو کم کردیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب قیادت پر ہی بھروسہ نہ رہے تو پھر ظلم اور ناانصافی کا مقدر بن جانا طئے ہوتا ہے ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا 27 واں اجلاس عام کانپور میں منعقد ہوا جس میں عہدوں پر ترقی اور تقررات کے بعد مسلمانوں کو درپیش بعض مسائل پر رسمی انداز میں تبصرہ اور مذمت کی گئی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ یقیناً مسلمانوں کے ایک نمائندہ ادارہ کا موقف رکھتا ہے لیکن بے باک اور مخلص قا ئدین کی رحلت کے بعد گروہ بندیوں نے بورڈ کی ساکھ متاثر کردی ہے۔ عہدوں کے حصول میں دلچسپی اور ارباب اقتدار اور سیاسی قائدین سے قربت کے رجحان نے بورڈ کو حقیقی مقصد سے دور کردیا ہے۔ جب کبھی بورڈ کا اجلاس ہوتا ، مسلمانوں کو رہنمائی حاصل ہوتی رہی لیکن حالیہ اجلاس عام اس قدر لو پروفائل رہا کہ مسلمانوں کی اکثریت اجلاس کے انعقاد اور فیصلوں سے لا علم ہے ۔ جن کو اجلاس کی اطلاع تھی ، وہ امید کر رہے تھے کہ شائد موجودہ حالات میں بورڈ مسلمانوں کے لئے کسی لائحہ عمل کا اعلان کرے گا۔ لیکن مسلمانوں کو مایوسی ہوئی ۔ دراصل بورڈ سے وابستہ ذمہ داروں کی اپنی اپنی ریاستوں میں مجبوریاں ہیں۔ اور مودی حکومت مخالفین کے خلاف جس طرح کی انتقامی کارروائیاں کرر ہی ہیں، اس نے اچھے اچھوں کو خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے ایک ذمہ دار سے جب پوچھا گیا کہ روداد کیا تھی تو ان کا جواب تھا کہ انتظامات میں حیدرآباد کی مہمان نوازی اپنی مثال آپ ہے۔ یعنی اجلاس کے موضوعات سے زیادہ صرف انتظامات کی فکر رہی۔ مسلمانوں سے بابری مسجد چھین لی گئی ، طلاق ثلاثہ پر پابندی کے ذریعہ شریعت میں مداخلت کی گئی ، مساجد میں اذاں پر اور کھلے مقامات پر نماز کی ادائیگی سے روکا جارہا ہے ۔ ماب لنچنگ کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے ۔ تاریخی مساجد میں مورتیاں رکھنے کی دھمکی دی جارہی ہے ۔ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے ذریعہ مسلمانوں کی شہریت کو مشتبہ بنانے کی تیاریاں ہیں۔ ایک ہنگامۂ محشر ہو تو اس کو بھولوں، سینکڑوں باتوں کا رہ رہ کر خیال آتا ہے لیکن قیادتوں اور عوام پر بے حسی طاری ہے اور خاموشی سے ہر چیز کو برداشت کیا جارہا ہے۔ اس بات کو بھلادیا گیا کہ ظلم کو سہہ لینا دراصل ظالم کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔
کسانوں نے اپنے اتحاد اور احتجاج کے ذریعہ مودی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ یو پی اور ہریانہ میں حکومتوں کو بچانے متنازعہ زرعی قوانین سے نہ صرف دستبرداری کا اعلان کیا گیا بلکہ مودی نے قوم سے معذرت خواہی کی۔ سکھوں کی طاقت ان کا اتحاد اور مخلص قیادت تھی جس نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی بکاؤ ثابت ہوئی ۔ برخلاف اس کے کہ مسلمانوں کی شریعت سے کھلواڑ اور ان کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے لیکن معذرت تو دور افسوس کا اظہار تک نہیں ۔ مسلمانوں کی ہلاکتوں کو کتے بلی کے بچوں سے تشبیہہ دی جارہی ہے ۔ یہ سب کچھ اتحاد کی کمی اور انتشار کا نتیجہ ہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اصلاح معاشرہ کا آسان ایجنڈہ اختیار کرلیا ہے اور جدوجہد کا راستہ ترک کردیا گیا۔ کسانوں سے سبق لیتے ہوئے طلاق ثلاثہ قانون سے دستبرداری کے لئے لائحہ عمل کا اعلان کیا جاسکتا تھا۔ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کو روکنا ہو تو قرارداد نہیں بلکہ سڑکوں پر آنا ہوگا کیونکہ حکومت صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔ یکساں سیول کوڈ کے خلاف قرارداد منظور کی گئی جبکہ تازہ ترین مسئلہ طلاق ثلاثہ پابندی قانون کے ذریعہ شریعت میں مداخلت ہے ۔ اگر یہ قانون واپس لینے پر مجبور کیا جائے تو یکساں سیول کوڈ کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ حضور اکرم اور صحابہ کی شان میں گستاخی روکنے قانون سازی کے مطالبہ کے بجائے گستاخ کیلئے شرعی حد کا اعلان کیا جانا چاہئے تھا جو عناصر گستاخوں کی سرپرستی کر رہے ہیں، ان سے قانون سازی کی امید کرنا نادانی ہے۔ دوسری طرف پارلیمنٹ سیشن کا آغاز ہونے جارہا ہے ۔ یہ اجلاس کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ نہ صرف کسانوں بلکہ ملک کے عوام کی نظریں پارلیمنٹ کی جانب رہیں گی۔ حکومت کو وعدہ کے مطابق زرعی قوانین سے دستبرداری کا قانون پاس کرنا ہے۔ اس کے علاوہ کسان امدادی قیمت کے لئے قانون سازی کی مانگ کر رہے ہیں۔ متوفی کسانوں کے خاندانوں کو امداد اور مقدمات سے دستبرداری پر مودی حکومت کو موقف واضح کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ کا یہ اجلاس مودی حکومت کا امتحان ثابت ہوگا۔ کسان مطالبات کی یکسوئی تک احتجاج ختم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور حکومت کے پاس مطالبات کی تکمیل کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان ٹکراؤ کی اس صورتحال میں مسلمانوں کی نظریں قیادت کا دعویٰ کرنے والے ارکان پر رہیں گی جن کا تعلق سیکولر سیاسی جماعتوں سے ہے۔ سیکولر جماعتوں نے شریعت میں مداخلت کے مسئلہ پر مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار تو کیا لیکن اب وقت آگیا ہے کہ وہ عمل کے ذریعہ اپنی سنجیدگی ثابت کریں۔ حکومت جب زرعی قوانین واپس لے سکتی ہے تو پھر شریعت میں مداخلت کا قانون بھی واپس لیا جانا چاہئے ، اس کا انحصار مسلم اور سیکولر ارکان کے رویہ پر ہوگا۔ طلاق ثلاثہ قانون سے دستبرداری کے علاوہ مودی حکومت کو سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف بھی موقف تبدیل کرنے کیلئے مجبور کیا جانا چاہئے ۔ اگر پارلیمنٹ میں مودی حکومت مسلم اور سیکولر ارکان کے مطالبہ کو تسلیم نہ کرے تو کسانوں کی طرح احتجاج کی تیاری کی جانی چاہئے ۔ کسانوں نے ملک کے تمام مظلوموں کو انصاف کے حصول کی رہنمائی کی ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال پر سرور بارہ بنکوی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
نہ کسی کو فکر منزل نہ کہیں چراغ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ