مولانا کلیم صدیقی … آخر سزا کس جرم کی ؟
عیسائی مشنریز کو کھلی چھوٹ… اسلام کی حقانیت سے خوفزدہ
رشیدالدین
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانہ میں
اکبر الہ آبادی نے 19 ویں صدی میں شائد یہ شعر کہا تھا۔ اکبر الہ آبادی نے کن حالات میں یہ شعر کہا اور کس نے انہیں خدا کا نام لینے سے روکا یہ تحقیق طلب مسئلہ ہے لیکن ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی شعر کی سچائی برقرار ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ شعر آج کے حالات پر لکھا گیا تھا ۔ شائد انگریزوں نے اس دور میں اکبر الہ آبادی کو ستایا تھا لیکن آج بھی حالات وہی ہیں۔ فرقہ پرست طاقتیں خدا کے نام لیوا افراد کو نشانہ بنارہی ہیں۔ ایک مکمل صدی گزرنے کے باوجود یہ شعر آج کے حالات پر صادق آتا ہے۔ مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی سے نفرت کی مہم کا آغاز ہوا۔ پہلے اذان کی آواز کو مساجد تک محدود کردیا گیا، بعد میں اذان پر پابندی عائد کردی گئی۔ نماز کی ادائیگی کی ہر مقام پر اجازت تھی لیکن اب سڑکوں پر نماز کی صفیں بنانے پر روک لگادی گئی ہے۔ ریلوے اسٹیشنوں، ایرپورٹ، اسکولس ، کالجس ، پارکس اور دیگر عوامی مقامات پر نماز ادا کرنا قانونی جرم بن چکا ہے۔ نفرت اور تعصب کا یہی سلسلہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب اسلامی لباس زیب تن کرنے اور داڑھی اور ٹوپی بھی جرم شمار کی جائیں گی۔ حجاب پر تو کئی ریاستوں میں پہلے ہی امتناع عائد ہوچکا ہے۔ لکھنو کی خصوصی عدالت نے ممتاز عالم دین مولانا کلیم صدیقی اور ان کے 11 ساتھیوں کو عمر قید کی سزا سنائی جبکہ 4 دیگر کو10 سال قید اور فی کس 2 لاکھ روپئے جرمانہ عائد کیا گیا ۔ مولانا کلیم صدیقی اور ان کے ساتھیوں کو آخر کس جرم کی سزا دی گئی۔ اترپردیش کی اے ٹی ایس نے جون 2021 میں مولانا کے خلاف تبدیلی مذہب کا مقدمہ درج کرتے ہوئے ستمبر میں گرفتاری عمل میں لائی تھی۔ طویل عرصہ تک جیل کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد ضمانت پر رہائی عمل میں آئی لیکن خصوصی عدالت نے ’’ غیر قانونی ‘‘ تبدیلی مذہب کے لئے قصوروار قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا دی۔ مولانا اور ان کے ساتھی جب غیر قانونی تبدیلی مذہب کے قصوروار ہیں تو پھر قانونی تبدیلی مذہب کیا ہے ؟ عدالت کو اس کی وضاحت کرنی چاہئے۔ عیسائیوں کی جانب سے کنورشن (دھرم پریورتن) اور ہندو تنظیموں کی جانب سے گھر واپسی مہم شائد پولیس اور عدلیہ کی نظر میں ’’قانونی تبدیلی مذہب‘‘ ہے۔ مولانا کلیم صدیقی اور ان کے ساتھیوں پر تبدیلی مذہب ریاکٹ چلانے کا الزام عائد کرنا خود غیر دستوری ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ مولانا نے تبدیلی مذہب کی کوئی مہم نہیں چلائی اور اگر کوئی شخص ان کے کردار اور اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام کی آغوش میں آتا ہے تو اس میں مولانا کا کیا قصور ہے۔ اسلام میں جبری تبدیلی مذہب کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اخلاق اور کردار کی بنیاد پر پھیلا ہے۔ اگرکوئی اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوتا ہے تو مخالفین کے سینہ پر سانپ لوٹنے لگتے ہیں۔ وہ اس لئے کہ اسلام کی حقانیت کے اظہار کے لئے کسی دباؤ یا لالچ کی ضرورت نہیں ہے۔ مولانا کلیم صدیقی کے درس اور ان کے کردار سے متاثر ہوکر لوگ اسلام کے دامن میں پناہ لے رہے ہیں۔ یہی چیز سنگھ پریوار کو کھٹک رہی ہے۔ جس دستور کی رو سے عدلیہ کا نظام قائم ہے، اسی دستور نے ہر شہری کو تبدیلی مذہب کا حق دیا ہے۔ دستور کے تحت ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے حتیٰ کہ اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی ہے۔ جب دستور میں آزادی اور حق دیا گیا ہو تو پھر مولانا کلیم صدیقی کے خلاف مقدمہ کا کیا جواز ہے ؟ مولانا اور ان کے ساتھیوں نے کسی کو جبراً تبدیلی مذہب کیلئے راضی نہیں کیا۔ تبدیلی مذہب کے نام پر صرف مسلمان ہی نشانہ کیوں ؟ کرسچین مشنریز کی کنورشن مہم پر حکومت اور سنگھ پریوار خاموش کیوں ہے ؟ شمال مشرقی ریاستوں کے علاوہ کیرالا ، اڈیشہ ، ٹاملناڈو اور دیگر ریاستوں میں کرسچین مشنریز منظم انداز میں دھرم پریورتن میں مصروف ہیں۔ وہ دلتوں اور کمزور طبقات کے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں کو بھی دولت کا لالچ دے کر فلاحی کاموں کی آڑ میں عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ مشنریز کا کام کھلے عام جاری ہے لیکن فرقہ پرستوں اور سنگھ پریوار کو شائد دکھائی نہیں دیتا۔ جب کرسچین مشنریز کیلئے دستوری تحفظ حاصل ہے تو مسلمانوں کے خلاف مقدمہ کس بات کا اور کونسے دستور اور قانون کے تحت ہے۔ ایک بھی شخص نے مولانا کلیم صدیقی پر جبری تبدیلی کا الزام عائد نہیں کیا۔ کرسچین مشنریز کے خلاف کارروائی سے اس لئے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں امریکہ ، برطانیہ اور یوروپی یونین ناراض نہ ہوجائیں۔ مشنریز کو بیرونی امداد بھی مختلف ممالک سے حاصل ہوتی ہے لیکن حکومت میں طاقت نہیں کہ وہ امداد اور پریورتن کو روک سکے۔ آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کی جانب سے دیہاتوں میں مسلم خاندانوںکو ہندو دھرم میں شامل کرنے ’’گھر واپسی‘‘ کے نام پر جو مہم چلائی جاتی ہے ، آخر وہ کس قانون اور دستور کے تحت ہے۔ کیا دستور صرف مشنریز اور ہندوتوا تنظیموں کیلئے ہے ؟ کیا مسلمان ملک کے شہری نہیں کہ دستور کے حقوق انہیں حاصل ہوں؟
بی جے پی ، آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کو دراصل اسلام سے خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ ہندوستان میں جس تیزی سے اسلام کے دامن میں لوگ پناہ لے رہے ہیں، وہ سنگھ پریوار کے نزدیک خطرہ کی گھنٹی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کو روکنے کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی اور ان کے ساتھی تو محض ایک بہانہ ہے اور اصلی نشانہ تو وہ مذہبی ادارے اور جماعتیں ہیں جو دین کی دعوت اور تبلیغ کے کام میں مصروف ہیں۔ علماء اور اکابرین کے حوصلوں کو پست کرنے کے لئے مولانا کلیم صدیقی کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ویسے بھی ماہرین قانون کے مطابق ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اے ٹی ایس کی خصوصی عدالت کا فیصلہ ٹک نہیں پائے گا۔ مولانا کلیم صدیقی کو جب لکھنو کی جیل میں رکھا گیا تھا ، اس وقت جیل میں موجود ہر قیدی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ قیدیوں کی خواہش تھی کہ مولانا مزید کچھ دن ان کے ساتھ رہیں تاکہ وہ برائیوں اور گناہوں سے توبہ کرسکیں۔ اب جبکہ مولانا دوبارہ جیل پہنچ چکے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ قیدیوں میں بھی اسلام کی طرف رغبت میں اضافہ ہوگا۔ ملک میں ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری میں شدت پیدا ہوچکی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں اکثریت سے محرومی کے بعد آر ایس ایس کو ہندو راشٹر کے قیام کا مقصد پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ لہذا مختلف ریاستوں میں مسلمانوں اور مساجد کو نشانہ بنانے کا آغاز ہوچکا ہے۔ کانگریس زیر اقتدار ہماچل پردیش میں مسجد کو غیر قانونی قرار دے کر انہدام کی کوشش کی جارہی ہے۔ جارحانہ فرقہ پرست عناصر شملہ کی مسجد کو بابری مسجد کی طرح شہید کرنے کے در پر ہیں۔ مقامی مسلمانوں اور مسجد کمیٹی نے شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجد کے غیر قانونی طورپر تعمیر کردہ حصوں کو منہدم کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے فرقہ پرستوں کی سازش کو ناکام بنادیا ہے۔ اب جبکہ مسجد کمیٹی نے خود بعض حصوں کو منہدم کرنے کی پیشکش کی ہے، لہذا ہندوتوا طاقتوں کے نزدیک یہ مسئلہ باقی نہیں رہا۔ کرناٹک ، مہاراشٹرا اور تلنگانہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دیتے ہوئے ماحول بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تہواروں کے موقع پر جلوس کے ذریعہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور فساد برپا کرنے کی کوشش کی گئی۔ کرناٹک اور مہاراشٹرا کے حالات ہر کسی پر عیاں ہیں۔ کرناٹک میں کانگریس برسر اقتدار ہے، لہذا سنگھ پریوار آئندہ اقتدار کے نشانہ کے تحت صورتحال بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں، لہذا ہندو ووٹ بینک مستحکم کرنے کیلئے فسادات کا سہارا لیا گیا۔ تلنگانہ کے وہ اضلاع جہاں بی جے پی نے لوک سبھا چناؤ میں کامیابی حاصل کی، وہاں پر مسلمانوں کی املاک اور عبادتگاہوں پر حملہ کے واقعات پیش آئے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں جس شدت کے ساتھ سر ابھار رہی ہیں، ملک کی سیکولر طاقتیں اتنی ہی شدت کے ساتھ مقابلہ کرنے اور سرکوبی میں ناکام ہیں۔ حالیہ لوک سبھا چناؤ میں مسلمانوں نے انڈیا الائنس میں شامل پارٹیوں کی کھل کر تائید کی تھی جس کے نتیجہ میں بی جے پی لوک سبھا میں اکثریت سے محروم ہوگئی۔ سیکولر طاقتوں کو تائید کا مسلمانوں سے بدلہ لیا جارہا ہے۔ ان حالات میں جب تک مسلمان خود بیدار نہ ہوں ، اس وقت تک کوئی پارٹی یا شخصیت ان کی مدد نہیں کرسکتی۔ بقول شاعر ؎
آگیا روز قیامت نہ جگے میرے نصیب
جاگ اٹھے مردے یہ غافل ابھی آرام میں ہیں