یہ وہ جنگ ہے جو جیتنی ضروری ہے

   

Ferty9 Clinic

محمد مصطفی علی سروری
جب میں سکنڈ کلاس میں تھا تب سے ہی سنسکرت سیکھنا شروع کردیا تھا۔ میرا محلہ باگرو جئے پور سے 30 کلو میٹر دور واقع ہے جہاں پر مسلمانوں کی آبادی 30 فیصدی ہے۔ جب میں سنسکرت پڑھ رہا تھا تو تب مجھے نہ تو میرے محلے کے مولوی صاحب نے ٹوکا اور نہ ہی سماج میں کسی نے مجھ سے پوچھا کہ میں سنسکرت کیوں سیکھ رہا ہوں۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ آج مجھے قرآن اتنا نہیں آتا جتنا میں سنسکرت کے متعلق جانتا ہوں۔ میرے علاقے کے بڑے بڑے ہندو بھی میری سنسکرت کی نالج پر میری تعریف کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار راجستھان کے ڈاکٹر فیروز خان نے کیا۔ وہ اخبار دی انڈین ایکسپریس کے نمائندے سے بات کر رہے تھے۔ (19؍نومبر دی انڈین ایکسپریس)
قارئین ڈاکٹر فیروز خان کا 6؍ نومبر 2019ء کو اترپردیش کی بنارس ہندو یونیورسٹی کے سنسکرت لٹریچر ڈپارٹمنٹ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر باضابطہ تقرر عمل میں آیا۔ لیکن ڈاکٹر فیروز خان کے لیے اس وقت مسائل اٹھ کھڑے ہوئے جب بنارس ہندو یونیورسٹی کے (ABVP) کے طلبہ نے ڈاکٹر فیروز خان کے تقرر کے خلاف احتجاج شروع کردیا اور انہیں ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے وی سی کی قیام گاہ پر دھرنا شروع کردیا۔
بنارس ہندو یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی کے اسکالر نے انڈین ایکسپریس کو بتلایا کہ 1916 میں بنارس یونیورسٹی قائم کرتے وقت یونیورسٹی کے بانی مدن موہن مالویہ نے ایک اصول بنادیا تھا کہ یونیورسٹی کے سنسکرت ڈپارٹمنٹ میں سکھ، جین اور بدھسٹ تو داخل ہوسکتے ہیں مگر دوسرا غیر ہندو نہیں آسکتا ہے۔
بنارس ہندو یونیورسٹی کے وائس چانسلر راکیش بھٹناگر نے انڈین ایکسپریس اخبار کو بتلایا کہ ڈاکٹر فیروز خان کا یونیورسٹی کے سنسکرت ڈپارٹمنٹ میں تقرر پوری طرح جائز اور قانونی ہے۔ لیکن آر ایس ایس کے طلبہ تنظیم ABVP کی جانب سے ڈاکٹر فیروز خان کے خلاف مسلسل احتجاج جاری ہے اور یہ احتجاج کس نوعیت کا ہے اور کتنا شدید ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے ڈاکٹر فیروز خان گذشتہ کئی دنوں سے روپوش ہوگئے ہیں اور اپنا موبائل فون بھی بند کردیا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی جان کے خوف سے وہ اسٹاف روم کا بھی رخ نہیں کر رہے ہیں۔
بنارس ہندو یونیورسٹی کے سنسکرت ڈپارٹمنٹ کے طلبہ نے وائس چانسلر کی رہائش گاہ کے باہر دھرنا دینے کے ساتھ ساتھ ’’ہون کنڈ‘‘ بھی لگادیا ہے۔ طلبہ کے احتجاج پر ڈاکٹر فیروز خان کہتے ہیں کہ ’’ساری زندگی میں نے سنسکرت سیکھی ہے۔ مجھے کبھی احساس نہیں ہوا کہ میں مسلمان ہوں لیکن اب جب میں اپنی سنسکرت کی قابلیت پر پڑھانا چاہتا ہوں تو میرا مسلمان ہونا مسئلہ بن گیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر فیروز خان نے بی اے، ایم اے کے علاوہ NET اور JRF کے امتحانات بھی پاس کیے اور سال 2018ء میں راشٹریہ سنسکرت سنستھان سے Ph.D. پاس کیا۔
ہندو یونیورسٹی کے وائس چانسلر راکیش بھٹناگر اور سنسکرت ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ نے انڈین ایکسپریس اخبار کو بتلایا کہ بنارس ہندو یونیورسٹی یو جی سی کے قواعد کے تحت چلائی جانے والی ایک سنٹرل یونیورسٹی ہے اور وہاں کے سارے تقررات UGC کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔ سنسکرت ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے لیے نو امیدواروں نے انٹرویو دیا اور ان میں سے ڈاکٹر فیروز خان کا انتخاب عمل میں آیا۔ لیکن ڈاکٹر فیروز خان مسلمان ہیں اس لیے ان کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی گئی؟ کیا یہ ایک نئی بات ہے۔ قارئین ان سوالات کا ہم سب کو جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
19 سالہ فاطمہ لطیف کا تعلق کیرالا کے علاقے کولم سے تھا۔ انہوں نے آئی آئی ٹی مدراس سے ڈیولپمنٹ اسٹڈیز میں ایم اے میں داخلہ لیا تھا۔ 19؍نومبر کی صبح فاطمہ لطیف نے اپنے ہاسٹل کے کمرے میں پھانسی لے کر خود کشی کرلی۔ فاطمہ کے والد عبداللطیف نے پولیس میں شکایت کی کہ فاطمہ کو ٹیچرز کی جانب سے ہراساں کیا جارہا تھا اور اپنے ٹیچر کی ہراسانی سے ہی تنگ آکر اس نے خود کشی کرلی۔ تاملناڈو پولیس اس واقعہ کی تحقیقات کر رہی ہے۔ (اخبار ’’دی نیو انڈین ایکسپریس‘‘) فاطمہ لطیف کی چھوٹی بہن کے حوالے سے سی این این ۔ نیوز 18 نے خبر دی کہ ’’فاطمہ نے خودکشی کیوں کی، اس حوالے سے باضابطہ تحقیق کی جانی چاہیے۔ یہ مطالبہ کرتے ہوئے فاطمہ کی بہن نے مزید کہا کہ ہوسکتا ہے کہ فاطمہ کے پروفیسر اس کو صرف اس لیے ہراساں کررہے تھے کیونکہ وہ ایک خاص طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔
ہمارے ملک ہندوستان میں مسلمانوں سے جس تیزی کے ساتھ امتیازی سلوک بڑھتا جارہا ہے وہ بہت سارے ہندوستانیوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ حالانکہ ہندوستانی مسلمانوں نے بہت حد تک اپنی طرف سے دیگر برادران وطن کو کسی طرح کی شکایت کا موقع نہیں فراہم کیا۔
یہ 1987ء کی بات ہے جب گوپالیکا انتھر جانم نام کی ایک برہمن خاتون نے عربی پڑھانا شروع کیا۔ کیرالا پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد گوپالیکا نے جب کیرالا کے ایک اسکول میں عربک ٹیچنگ کی جاب شروع کی تو کچھ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔ گوپالیکا نے کیرالا ہائیکورٹ میں درخواست داخل کرتے ہوئے اپنی سرکاری نوکری کی عدالت سے توثیق کروالی۔
The News Minute ویب سائٹ کی 15؍ مارچ 2016ء کی رپورٹ کے مطابق گوپالیکا کا خاندان کوٹیشور مندر کا پجاری تھا۔ اس خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود گوپالیکا نے 17 سال کی عمر میں اپنے گھر والوں کو بتلایا کہ وہ عربی زبان سیکھنا چاہتی ہے۔ اس کے مطابق اس کو شروع سے ہی مختلف زبانیں لکھنے کا شوق تھا اور جب گائوں کے لوگ عربی سیکھ رہے تھے تو اس نے بھی عربی زبان سیکھنا شروع کردیا۔
قارئین ریاست کیرالا میں ایک برہمن خاتون عربی زبان سیکھ کر سرکاری ملازمت حاصل کرلیتی ہے اور جب کچھ لوگ برہمن خاتون کے عربک ٹیچر بننے پراعتراض کرتے ہیں تو وہ عدالت سے رجوع ہوکر باضابطہ طور پر اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرتی ہے اور 29 برسوں تک عربک ٹیچر کے فرائض انجام دینے کے بعد 2016 میں ریٹائر ہوتی ہے۔
اس خاتون نے TNM کو بتلایا کہ جب وہ عربک پڑھاتی تھی تو سبھی بچوں نے اس کا خیر مقدم کیا اور سب مجھے چاہنے لگے تھے اب جب میں ریٹائر ہو رہی ہوں تو بڑی خوش ہوں۔
31؍ مارچ 2016ء کو گوپالیکا کیرالہ کے ایک سرکاری اسکول سے باضابطہ طور پر ریٹائر ہوئی ہیں۔ انہوں نے بتلایا کہ عربی زبان سے جڑے روزگار کے مواقع اتنے بڑھ گئے ہیں کہ لوگ بلا کسی مذہبی امتیاز کے عربی زبان سیکھنے لگے ہیں۔
سال 2015ء میں گوپالیکا کو عالمی یومِ عربی کے موقع پر اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ گوپالیکا نے بتلایا کہ میں عربی زبان کو ایک خوبصورت زبان سمجھتی ہوں اس کا کسی ایک مذہب سے تعلق نہیں ہے۔ہندوستانی مسلمانوں کو بین مذہبی بھائی چارہ کی اہمیت خاصی سمجھ میں آگئی ہے اور ملک کا مسلمان اس سمت کام کر رہا ہے اور کام کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ مندر ۔مسجد کے موضوع پر جہاں ملک میں بین مذہبی تقسیم کی بات ہوتی ہے وہیں پر مندر ۔مسجد کا موضوع دونوں فرقوں کو جوڑنے کا کام کرتا ہے۔ مگر خبروں کے ہجوم میں مثبت خبریں جگہ حاصل نہیں کرپاتیں اور کہیں گم ہوجاتی ہیں۔
مغربی بنگال کے بیرہم ضلع کے گائوں باسو پورہ کے مسلمانوں نے ہندو بھائیوں کے لیے مندر تعمیر کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ جی ہاں قارئین اخبار ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کی 29 اکتوبر 2019ء کی ایک رپورٹ میں اس کی تفصیلات شائع ہوئی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق دو برس قبل گائوں میں سڑک کی تعمیر و توسیع کے لیے ایک مندر کو ڈھادیا گیا تھا۔ کولکتہ سے 160 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع اس گائوں کے مسلمانوں نے اپنے گائوں کے ہندو بھائیوں کے لیے مندر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور زمین خرید کر اس پر مندر تعمیر کرنے آپس میں چندہ بھی جمع کیا اور جب پورا ملک اور خاص کر سارا مغربی بنگال کالی کی پوجا کر رہا تھا عین اسی وقت گائوں کے مولوی صاحب نے کالی کی مندر کا افتتاح انجام دیا۔
10لاکھ کے صرفے سے تعمیر ہونے والی اس مندر کے لیے جب چندہ جمع کیا گیا تو گائوں کی 35 فیصد آبادی کے ساتھ مسلمانوں نے 7 لاکھ روپئے جمع کیے۔
مندر کی پوجا کمیٹی کے صدر سنیل ساہا نے ہندوستان ٹائمز کے نمائندے کو بتلایاکہ ’’اگر مقامی مسلمان مندر کی تعمیر کے لیے ہماری مدد نہیں تے تو ہمارے لیے ممکن نہیں تھا کہ ہم اپنے بل پر یہ کام کریں، اس لیے جب کالی کی مندر بن کر تعمیر ہوگئی تو ہم نے نصیر الدین مولوی کو مندر کے افتتاح کے لیے بلایا۔ موجودہ حالات کا رونا رونے والوں کے لیے یہ واقعات آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونے چاہئیں کہ ملک کا مسلمان دستور ہند کے دائرے کار میں رہتے ہوئے بطور ہندوستان کے ذمہ دار شہری اپنے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور ملی فرائض کو بخوبی سمجھتا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ نفرت کا جواب محبت سے ہی دینا صحیح ہے اور یہ وہ جنگ ہے جو محبت سے خلوص سے ہی جیتی جاسکتی ہے اور اسلام کے آفاقی پیغام کو دیگر برادران وطن تک پہنچانے کے لیے عملی اقدامات ہی سب سے مؤثر ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نبیؐ کی سچی سیرت پر عمل کرنے والا امتی بنادے۔ (آمین یارب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]