محمد مصطفی علی سروری
محمد نیاز کے دو ہی بچے تھے۔ چونکہ لڑکی بڑی تھی اور لڑکا چھوٹا تو وہ چاہتے تھے کہ لڑکی بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے تاکہ دوسرے لڑکے کو بھی اپنی بہن سے ترغیب بھی ملے اور مدد بھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کی لڑکی پڑھائی کرنے کے لیے باضابطہ طور پر اسکول کو جایا کرتی تھی۔ ایک دن نیاز کی بچی اسکول سے واپس آئی تو بڑی پریشان تھی۔ ماں نے سونچا کہ بچی کی طبیعت خراب ہوگی لیکن شام میں جب نیاز گھر پہنچے تو ان کے بیٹے نے اپنے والد کو بتلایا کہ بابا آج جب میں اور باجی اسکول سے گھر واپس آرہے تھے تو ہمارے اسکول کا ایک لڑکا باجی کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا تھا۔ باجی نے باضابطہ چیخ پکار کر کے وہاں کھڑے آٹو والوں کو بلوایا تب اسکول کے ایک ٹیچر نے مداخلت کر کے معاملہ ختم کروایا۔ نیاز صاحب نے جب اپنی بچی سے اس واقعہ کے بارے میں پوچھا تو وہ کچھ بھی بتانے سے پہلے روپڑی کہ بابا میں نے کچھ نہیں کیا ہے۔ وہ سب اسی لڑکے کی شرارت ہے۔ بہر حال ماں باپ کے دلاسا دینے کے بعد نیاز صاحب کی لڑکی نے تفصیل سے بتلایا کہ اس کے اسکول کا ہی ایک لڑکا ہے جو اکثر اس کو چھیڑتا رہتا ہے۔ کبھی فون نمبر پوچھتا ہے۔ کبھی کپڑے کھینچنے کی کوشش کرتا ہے۔ آج تو اس نے ہاتھ ہی پکڑ لیا ہے۔ نیاز صاحب تو بچی کو غصہ کرنے لگے کہ آخر تونے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا لیکن درمیان میں بچی کی ماں نے مداخلت کر کے کہا کہ اب تو معلوم ہوگیا نہ اب کل ہی اسکول جاکر پتہ کرو۔ اگلے دن نیاز صاحب نے اسکول جاکر شکایت کی۔ اسکول کے ٹیچر سے لے کر ہیڈ ماسٹر سے ملے۔ اسکول والوں نے فوری طور پر انکوائری کر کے لڑکے کو اسکول ہی سے نکال دیا۔ دوسری طرف محمد نیاز نے لڑکے کا نام اور پتہ لے کر اس کے گھر گئے تو لڑکے کے گھر والے الٹا لڑنے آئے۔ تب انہوں نے باضابطہ طور پر پولیس میں شکایت درج کروائی اور ایک کیس بھی بک کیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب لڑکا ابھی نابالغ تھا۔ پولیس بھی نابالغ ملزم کے ساتھ نرمی کا برتائو کر رہی تھی۔ جب اس طرح کا تاثر نیاز صاحب کو ملا تو انہوں نے لڑکے کو اپنے طور پر سبق سکھانا چاہا اور مبینہ طور پر لوگ بتلاتے ہیں کہ نیاز کے دوستوں نے نابالغ کی نالائق حرکات کو روکنے اس کو پکڑ کر اس کی خوب مرمت کی۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ نابالغ لڑکے نے اپنے والد کے ساتھ پولیس اسٹیشن جاکر نیاز صاحب کے خلاف ہی شکایت درج کروادی۔
جہاں تک لڑکی کے اسکول جانے کا سوال تھا تو انہوں نے تنگ آکر اسکول ہی بدلوادیا اور خود ہی لڑکی کو اسکول سے لانے لے جانے لگے۔ 2017ء کے اس معاملے کا سلسلہ پولیس اسٹیشن اور عدالت میں چلتا رہا اور اس دوران یہ نابالغ لڑکا 20 برس کی عمر کو پہنچ گیا۔
اب اس نوجوان نے لڑکی کے والد کو جنہوں نے اس کے خلاف اسکول میں پولیس میں شکایت درج کروائی تھی سبق سکھانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ نوجوان غلط صحبت میں پڑگیا تھا اور اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کچھ غلط کیا ہو۔
قارئین نیاز صاحب کی کہانی میں صرف نام ہی تو تبدیل کیے گئے ہیں ورنہ باقی سب تو وہی کچھ ہے جو شہر حیدرآباد کے کالا پتھر پولیس اسٹیشن کے حدود میں پیش آیا۔ اخبار تلنگانہ ٹوڈے نے 10؍ جولائی 2021ء کو Two picked up in connection with Kalapather Murder کی سرخی کے تحت ایک خبر شائع کی۔ دیگر اخبارات میں تفصیلات شائع ہوئیں جس کے مطابق جو لڑکا نیاز صاحب کی لڑکی کو چھیڑنے کے الزام میں پولیس کیس کا سامنا کر رہا تھا اس نے 8؍ جولائی 2021ء کو اپنے ساتھی کے ساتھ ان کے گھر پر پہنچتا ہے۔ اس وقت نیاز صاحب اپنے گھر کے باہر تھے تو یہ 20 سالہ نوجوان ان پر حملہ کر کے انہیں زمین پر گرادیتا ہے اور پھر ان کے سینہ پر پے در پے وار کر کے وہاں سے فرار ہوجاتا ہے۔ نیاز صاحب کے گھر والے اور رشتہ دار انہیں زخمی خون میں لت پت عثمانیہ دواخانہ لے جاتے ہیں جہاں ڈاکٹرز انہیں مردہ قرار دیتے ہیں۔
اس واقعہ کا سب سے خطرناک پہلو تو اس وقت سامنے آتا ہے جب پولیس قتل کے الزام میں 20 سال کے نوجوان کو تو گرفتار کرتی ہی ہے لیکن ساتھ میں قتل میں مدد کرنے کے الزام میں ایک اور شخص کو بھی گرفتار کرلیتی ہے جو نوجوان کا کوئی آوارہ یا بدمعاش دوست نہیں بلکہ خود نوجوان کا باپ ہے۔ ذرا اندازہ لگائیں باپ مددگار ہے اور کس کام میں، قتل کے کام میں اور کس بات یا کس بنیاد پر قتل ہو رہا ہے یا قتل کی وجہ کیا ہے۔ پولیس کے ذرائع کہتے ہیں کہ لڑکے نے لڑکی کے ساتھ چھیڑ خانی کی اور غیرت مند باپ نے اسی بات پر پولیس میں شکایت درج کروائی۔ بس اسی وجہ سے لڑکی کے باپ کا قتل ہوجاتا ہے اور ہم مسلمان اس واقعہ کو جرائم کے کالم کی ایک خبر کے طور پر پڑھ کر اپنی زندگی کے معمولات پر لوٹ آتے ہیں۔
یہ کوئی ایک اکلوتا جرم کا واقعہ نہیں ہے۔ شہر میں قتل کی وارداتیں جس طریقے سے بڑھتی جارہی ہیں ان میں سے ایک ایک واقعہ ہماری توجہ کا محتاج ہے۔ خاص طور پر وہ تنظیمیں، افراد او رانجمنیں جو مسلم کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ وہ سونچیں کہ کیا مسلمانوں کو بُرے وقت میں کھانا کھلا دینا کافی ہے۔ کیا ان کو روزگار سے لگانے ٹریننگ دینا کافی ہے۔ مسلمان کمیونٹی دین اسلام کی بنیادی تعلیمات پر چل بھی رہی ہے یانہیں اس کا جائزہ بھی لینا ضروری ہے۔ یقینا مجھے ہو یا آپ کو روز محشر صرف اپنے اعمال کا ہی جواب دینا ہے لیکن وہ قوم جس کو برائی کے سدباب اور بھلائی کی تبلیغ کی ذمہ دارای دی گئی ہے وہ خاموش تماشائی کیسے بنی رہ سکتی ہے۔ سونچنا ہوگا۔ ایک قتل کا ایسا واقعہ بھی سامنے آیا ہے جس میں مقتول کے متعلق پولیس نے بتلایا کہ اس کی عمر صرف 32 سال تھی اور جو اس کے گھر والوں کے مطابق بی ٹیک کا طالب علم تھا۔ اخبار نیو انڈین ایکسپریس نے مقتول کے متعلق لکھا کہ وہ 35 سال کا تھا اور اس پر 33 کیس پولیس کے ہاں درج تھے۔ ایک اور اخبار دی ہندو نے اس کیس کے متعلق رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا کہ مقتول پر 3 مرتبہ پی ڈی ایکٹ لگایا گیا اور دو برسوں کے دوران تین مرتبہ گرفتار کیا گیا تھا اور جو فی الحال بیل پر جیل سے باہر تھا۔قارئین کرام ہم مسلمان جس طرح سے اپنے بچوں کو Educated بنانے کے لیے فکر کرتے ہیں اگر اسی طرح سے بچوں کو دین اسلام کی تاریخ، دین اسلام کی تعلیمات اور اخلاق و کردار کے حوالے سے بھی فکر کریں تو ہی ہمارے بچوں کی اصل کامیابی ہے۔
ورنہ بی ٹیک کا اسٹوڈنٹ ہے اس پر PD ایکٹ لگتا ہے کوئی گریجویشن کر رہا ہے اور اس پر 33 کیس درج ہوتے ہیں۔ تو یہ کوئی خوش آئند بات ہرگز نہیں ہوسکتی ہے۔ ہاں قتل اور جرائم کے یہ واقعات ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونے چاہیے کہ اسکول ہو یا کالجس انسٹیٹیوٹ ہوں، یونیورسٹیاں ، یہاں سے بچوں کو سرٹیفکیٹ اور ڈگری تو مل سکتی ہے لیکن تربیت نہیں۔ اور تربیت دینا مولوی صاحب یا خطیب صاحب کا ہی کام نہیں بلکہ یہ تو والدین کی ذمہ داری ہے اور جب والدین اپنی اولاد خاص کر لڑکوں سے بے جا لاڈ و پیار کرنے لگتے ہیں تو ایسے مجرمین اور ملزمین کی تعداد بڑھتی ہے اور تعجب ہوتا ہے کہ بھائیوں کے نام پولیس اسٹیشن میں اقدام قتل کے ملزمین کے طور پر درج ہوتا ہے اور بہنیں ایم بی بی ایس، ایم ایس سی اور بی فارمیسی جیسے پروفیشنل کورسس کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور بھائی کا نام اسکول ڈراپ آئوٹ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اور بہن اعلیٰ پروفیشنل تعلیم حاصل کرلیتی ہے۔ بہن کا نام میرٹ میں آتا ہے۔ وہ گولڈ میڈل بھی حاصل کرلیتی ہے۔ اس طرح کی مثالیں دراصل اس تلخ حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ جو ہم دیکھ کر بھی نظر انداز کردینا چاہتے ہیں۔
سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی کل ہند تعلیمی، سماجی اور معاشی پسماندگی کو ڈاکیومنٹ کیا اور ثابت کیاکہ ریاست تلنگانہ کے قیام کے بعد سدھیر کمیشن نے ریاست تلنگانہ میں مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی اور معاشی پسماندگی کا جائزہ لے کر اس کی رپورٹ حکومت کو پیش کی۔ لیکن مسلمانوں کی بڑی تعداد دین اسلام کی تعلیمات سے دن بدن دور ہوتی جارہی ہے۔ جرائم کی واردات کرنے والے مسلمانوں کے نام باضابطہ طور پر جرائم کی خبروں میں نشر اور شائع ہو رہے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ان واقعات کا بھی نوٹ لیا جائے۔ کوئی حکومت، کوئی حکومتی ادارہ اس پر رپورٹ لکھنے والا نہیں ہے۔ یہ کام ہم مسلمانوں کو ہی کرنا ہوگا کیونکہ قاتل بھی مسلمان، مقتول بھی مسلمان، ظالم بھی مسلمان، مظلوم بھی مسلمان۔ ایسے میں ہم اپنے آپ کو مسلمان بھی کہیں اور پھر اس درد کو محسوس نہ کریں تو کیا ہم واقعی مسلمان بھی ہیں یا نہیں۔
ایک اور واقعہ بھی پچھلے دنوں سامنے آیا ہے جس میں ایک نوجوان اعلان کرتا ہے کہ اس نے لڑکی کے ساتھ ایک بزرگ کے مزار پر نکاح کرلیا ہے۔ یہ کیسا مسلمان ہے جو برسر عام اعلان کر رہا ہے ، ہاں میں نے ایک بزرگ کی مزار پر ایک لڑکی کے ساتھ کھڑے ہوکر قبول ہے تین مرتبہ کہہ دیا ہے۔ اب وہ میری بیوی ہے اور میرا اس سے نکاح ہوگیا ہے۔ تو یہ کوئی اکلوتے نوجوان کا قصہ نہیں بلکہ ایک نسل کا حال ہے جو کہ ہمارے ہی اطراف و اکناف میں رہتی ہے۔ اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے۔ لیکن دین اسلام کے متعلق ان کو کچھ بھی نہیں معلوم۔ ان کے محلوں میں نہ تو کوئی تبلیغی جماعت پہنچ سکی اور نہ کسی اسلامی جماعت نے ان تک پہنچنے کی کوشش کی۔ لوگ تو علماء اور خطیب حضرات کو ذمہ دار کہتے ہیں لیکن میرا ماننا ہے کہ ان سب کے ساتھ اصل ذمہ دار تو والدین ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو پیدائش کے بعد صرف اچھا کھانا اور اچھا کمانا سکھایا۔ کھانا حلال ہونا چاہیے، علم نفع والا ہونا چاہیے اور کمائی محنت کر کے حلال طریقے سے حاصل کی جانی چاہیے یہ اور قرآن کو سمجھ کر پڑھنا چاہتے بتلانا بھول گئے۔
یاد رکھئے خود نیکی کے راستے چلتے ہوئے اطمینان کرلینا کہ میں تو جنت کے راستے پر چل رہا ہوں اور دوسروں کی بھلائی کے لیے راستے تلاش نہ کرنا اور اپنے آپ کو برائی سے بچاکر مطمئن ہونا خود غرضی ہی نہیں بلکہ خودکشی بھی ہوگی۔
اٹھئے اپنی ذات سے اوپر اپنے خول سے باہر نکل کر فکر کیجئے۔ اپنی اولاد کو قائل کروایئے۔ اپنے رشتے داروں، اپنے عزیزوں اور اپنے پڑوسیوں کو کہ اولاد کی تربیت فرض ہے، نکاح کرنا تو سنت ہے اور ہماری اولاد بگڑتی ہے تو سوال علمائے کرام سے نہیں بلکہ ہم سے پوچھا جائے گا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مزید رسوائی سے بچائے اور ہم سب کو اپنی اولاد کی تربیت کے فریضہ کو پورا کرنے والا بنادے۔آمین یارب العالمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]