یہ کیسی شرم کی بات ہے

   

عبدالحسیب
ہمارے ملک میں ایسا لگتا ہے کہ تعصب و جانبداری نقطہ عروج پر پہنچ گئی ہے اور اس سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ٹی وی پرسنالٹی ارنب گوسوامی کو خودکشی کیلئے اُکسانے یا مجبور کرنے کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے لیکن سپریم کورٹ میں صرف ایک دن میں ہی اس کی ضمانت ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف کیرلا سے تعلق رکھنے والے صحافی صدیق کپن ہیں جو اترپردیش کے ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی اور بہیمانہ قتل واقعہ کی تحقیقاتی رپورٹ کیلئے اترپردیش جاتے ہیں جہاں یوپی پولیس انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیتی ہے۔ ان کے خلاف UAPA جیسے قانون کا اطلاق کرتی ہے ، جیسے کہ انہوں نے ملک کے خلاف بغاوت کی ہے ، کوئی دہشت گردانہ کارروائی انجام دی ہے، یا قتل و غارت گری میں حصہ لیا ہے۔ صدیق کپن کو گرفتار ہوئے ایک سال کا عرصہ ہوچکا ہے۔ کوئی بھی عدالت ان کی رہائی کیلئے حرکت میں نہیں آرہی ہے۔ دوسری جانب جے این یو لیڈر عمر خالددو سال سے جیل میں بند ہیں۔ ان کے خلاف بھی سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ اسی طرح شرجیل امام اور جے این یو و دیگر یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات اب بھی اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا پا رہے ہیں۔ انہیں ضمانتیں نہیں ملتیں۔ اس کے برعکس ارنب گوسوامی جیسے افراد کو اندرون چوبیس گھنٹے ضمانت دے دی جاتی ہے۔ اس طرح کے حالات پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہندوستان میں کیا ہورہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ایسا حقوق انسانی کا جہد کار بھی مہاراشٹرا کی جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہا ہے جو 90% مفلوج ہے، یعنی اس کا 90% جسم کسی کام کے قابل نہیں۔ ہم بات کررہے ہیں آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے حقوق انسانی کے جہد کار جی این سائی بابا کی جن کے خلاف ملک سے بغاوت، نکسلائیٹ کے ساتھ تعلقات، ملک کے خلاف جنگ جیسے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں جیل میں ٹھونس دیا گیا ہے۔ جی این سائی بابا کی اہلیہ وسنتا کے مطابق آندھرا پردیش کے املاپورم کے سائی بابا نے اپنی زندگی انتہائی کسمپری میں گذاری اور سخت محنت کے ذریعہ تعلیمی میدان میں غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کیں اور دہلی یونیورسٹی کے کالج میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی زندگی میں ہمیشہ غربت رہی اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے غریبوں اور مظلوموں کی مدد کو اپنا نصب العین بنایا او ر اسی نصب العین کی وجہ سے وہ عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ حال ہی میں جی این سائی بابا کی نظموں اور خطوط کے مجموعہ کی رسم اجراء عمل میں آئی ، اس موقع پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکریٹری ڈی راجہ نے جی این سائی بابا کی فوراً رہائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت سوچتی ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو ’اربن نکسل‘، ’دیش دروہی‘، ’دہشت گرد‘ قرار دے کر اور انہیں جیل میں ڈال کر کامیاب ہوسکتی ہے۔
اروندھتی رائے (Arundhati Roy) نے ہندوستان کو ایک ایسے طیارے سے تشبیہ دی جو پیچھے کی طرف اُڑان بھر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ ایک ایسا طیارہ ہے جو حادثے کی طرف جارہا ہے‘‘۔ رائے نے یہ تبصرہ گزشتہ 4 مئی کو ’’وہائی ویڈیو فیر مائی وے سو مچ‘‘ نام سے شائع کتاب کی رونمائی کے موقع پر کیا۔ یہ کتاب جیل میں بند انسانی حقوق کے کارکن جی این سائی بابا کی نظموں اور خطوط کا مجموعہ ہے۔ رائے نے کہا کہ 1960ء کے دہے میں جائیداد اور زمین کی دوبارہ تقسیم کی ’’حقیقی انقلابی تحریک‘‘ شروع کرنے کے بعد سے ملک میں لیڈر اب 5 کیلو چاول اور ایک کیلو نمک تقسیم کرکے ووٹ مانگ رہے ہیں اور الیکشن جیت رہے ہیں۔اروندھتی رائے نے کہا کہ حال ہی میں مَیں نے اپنے ایک پائلٹ، دوست سے پوچھا، کیا وہ جہاز کو پیچھے کی طرف اڑا سکتے ہیں؟ وہ زور سے ہنسا۔ میں نے تب کہا دراصل یہاں یہی ہورہا ہے۔ جہاں لیڈر اس ملک کو پیچھے کی طرف اُڑا رہے ہیں، سب کچھ گر رہا ہے اور ہم ایک حادثے کی طرف جارہے ہیں۔ رائے نے ہندوستان کو ’’سو فیسٹیکیٹیڈ جیورس پروڈنس‘‘ کی سرزمین کے طور پر بیان کیا، ایک ایسی سرزمین جہاں ذات پات، طبقہ، جنس اور نسل کی بنیاد پر قوانین کو الگ الگ طریقے سے نافذ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم یہاں کیا کررہے ہیں؟ ہم ایک ایسے پروفیسر کے بارے میں بات کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں جو 90% تک فالج کا شکار ہیں اور پچھلے سات سال سے جیل میں ہیں۔ ہم یہی کررہے ہیں۔ یہ کافی ہے۔ ہمیں اب اور انہیں بولنا ہے۔ آپ کو یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ ہم کس طرح کے ملک میں رہ رہے ہیں۔ یہ کیسی شرم کی بات ہے۔ واضح رہے کہ 90% سے زیادہ جسمانی طور پر معذور اور وہیل چیئر پر رہنے والے جی این سائی بابا کو 2017ء میں مہاراشٹرا کے گڑھ چرولی ضلع کی ایک سیشن عدالت نے ماؤ نوازوں سے تعلق رکھنے اور ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے والی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
عدالت نے جی این سائی بابا اور دیگر کو یو اے پی اے کے تحت مجرم قرار دیا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے رام لال آنند کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر ان کی خدمات گزشتہ سال 31 مارچ کو ختم کردی گئی تھیں۔ دارالحکومت کے جواہر بھون میں کتاب کا اجراء کرنے والے سی پی آئی کے جنرل سیکریٹری ڈی راجہ نے جی این سائی بابا کی فوراً رہائی کے اپنے مطالبہ کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر موجودہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ کسی کمیونسٹ کو ’دہشت گرد‘ کہہ کر یا سلاخوں کے پیچھے ڈال کر اسے شکست دے دے گی ، تو یہ بہت غلط ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی حکومت سوچتی ہے کہ کچھ لوگوں کو ’اربن نکسل‘ ’دیش دروہی‘، ’دہشت گرد‘ قرار دے کر یا انہیں جیل میں ڈال کر یا ان پر تشدد کرکے وہ کامیاب ہوسکتی ہے۔ ڈی راجہ نے کہا میں انہیں خبردار کرتا ہوں کہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ایک کمیونسٹ کو مارا جاسکتا ہے لیکن مودی جی ایک کمیونسٹ کو کبھی شکست نہیں دی جاسکتی۔
جیسا کہ ہم نے سطور ِ بالا میں سائی بابا کی اہلیہ کا حوالہ دیا ۔ کتاب کی رسم رونمائی میں جی این سائی بابا کی اہلیہ وسنتا نے بھی شرکت کی۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح ان کے شوہر جو آندھرا پردیش کے املا پورم قصبے میں غربت میں پیدا ہوئے، اپنی جسمانی معذوری پر قابو پاکر اپنی یونیورسٹی میں ٹاپ کیا اور ایک انتہائی معزز پروفیسر بن گئے۔
انہوں نے ناگپور سنٹرل جیل کی قید میں جی این سائی بابا کے ساتھ مبینہ غیرانسانی سلوک، ان کی خراب صحت، ان کے دل کی حالت اور ریڑھ کی ہڈی میں شدید درد اور اپنی والدہ کی آخری رسومات میں شرکت کیلئے کچھ دنوں کیلئے کئی بار پیرول سے انکار کے بارے میں بھی تفصیل سے بات کی۔ کتاب اسپیکنگ ٹائیگر نے شائع کی ہے اور یہ آف لائن اور آن لائن دکانوں پر فروخت کیلئے دستیاب ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے انقلابی ادیب ورا ورا راؤ بھی حکومت کے ظلم کا شکار بنے ہیں جبکہ صفورہ زرگر جیسی طالبہ کو جو حاملہ تھی، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ اسی طرح بے شمار ایسے جہد کار ہیں جو اب بھی جیلوں میں بند ہیں اور حکومت کو ان کی صحت اور زندگیوں کی کوئی پرواہ نہیں۔