’امداد‘ کے نام پر ریاستوں کو 15% پر ’قرض‘دیئے گئے
پونے : جملہ بازی نریندر مودی اور ان کے دست راست قائدین کا خاصہ رہا ہے۔ 2014ء کے عام انتخابات سے قبل وزارت عظمیٰ کے این ڈی اے امیدوار کی حیثیت سے مودی نے عوام کو راغب کرنے کے مقصد سے کئی وعدے کردیئے تھے جو تمام کے تمام الیکشن جیتنے کے بعد مودی حکومت نے ٹائیں ٹائیں فش ہوگئے۔ انہوں نے بیرون ملک جمع کالادھن واپس لاتے ہوئے ہر ہندوستانی کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ ملک میں بیروزگاروں کیلئے ہر سال 2 کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ اسی طرح اور بھی کئی چھوٹے بڑے وعدے کئے گئے جو کوئی بھی پورے نہیں کئے گئے۔ اس تعلق سے جب سینئر بی جے پی لیڈر امیت شاہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے ایسے وعدوں کو ’جملہ‘ کہتے ہوئے بات ختم کردی۔ مودی حکومت 7 سال گزر چکے ہیں۔ ابھی تک مودی حکومت کی جملہ بازی جاری ہے۔ تازہ معاملہ 20 لاکھ کروڑ کے وبائی امدادی پیاکیج کا ہے جو کھوکھلا ثابت ہوچکا ہے۔ اب یہ سرکاری بات ہوگئی ہے۔ کوروناوائرس وبا کے دوران کافی پروپگنڈہ کرتے ہوئے ماہ مئی 2020ء معلنہ 20 لاکھ کروڑ روپئے کا خصوصی پیاکیج عملی طور پر اپنے کام میں ناکام ثابت ہوا جبکہ اسے کوویڈ سے بری طرح متاثر معیشت کو بحال کرنے کیلئے جاری کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ آر پی آئی کے تحت حاصل آج یہاں جاری کردہ جواب میں یہ بات کہی گئی۔ مارچ 2021ء میں اس تاریخی مالیاتی پیاکیج کی مدت ختم ہوجانے کے بعد اس کے حقیقی فوائد کو معلوم کرنے کی غرض سے پونے کے بزنسمین پرفل سردا نے آر ٹی آئی کے تحت ایک سوال داخل کیا تھا۔ 4 ماہ گذر جانے کے بعد مرکز سے حیران کن جواب حاصل ہوا ہے۔ مرکز نے کہا ہیکہ کوویڈ۔19 وبا کے عدیم النظیر اثرات کے تناظر میں 2 فیصد جی ایس ڈی پی تک اضافی قرض لینے کی حد کے ساتھ ریاستوں کو مالی سال 2020-21ء کیلئے آتما نربھر پیاکیج کے تحت رقومات لینے کا موقع دیا گیا۔ چنانچہ اس عنوان کے تحت مرکز نے ریاستوں کو اضافی قرضے لینے کی اجازت دی جو 2020-21ء کے دوران 319,939 کروڑ روپئے کے ہوئے۔ اس میں سے جن ریاستوں نے سب سے زیادہ اضافی قرضے حاصل کئے وہ مہاراشٹرا (30,788 کروڑ روپئے)، اترپردیش (29,108)، ٹاملناڈو (28,880)، کرناٹک (27,955)، گجرات (26,112) اور راجستھان (21,301) ہیں۔ اوسط درجہ میں اضافی قرض حاصل کرنے والی ریاستیں آندھراپردیش (19,192)، کیرالا (18,087)، مدھیہ پردیش (18,034)، تلنگانہ (17,558)، مغربی بنگال (13,574)، ہریانہ (12,878) اور پنجاب (10,917) ہیں۔ بقیہ ریاستیں اوڈیشہ (9,716)، بہار (7,754)، اتراکھنڈ (5,617)، آسام (5,418)، چھتیس گڑھ (5,374)، جھارکھنڈ (3,530)، ہماچل پردیش (2,892)، گوا (1,738) اور تریپورہ (1,127) ہیں جنہوں نے اضافی قرض کی قدر کے اعتبار سے تیسرے درجہ کا قرض حاصل کیا۔ شمال مشرق کی تمام چھوٹی ریاستوں نے دلچسپ بات ہیکہ 1000 کروڑ سے کم اضافی قرض حاصل کیا ہے۔ ان ریاستوں میں میگھالیہ، منی پور، اروناچل پردیش، سکم، ناگالینڈ اور میزورم شامل ہیں جن کا مجموعی اضافی قرض 2,389 کروڑ ہوا۔ بزنسمین پرفل نے نشاندہی کی کہ خوبصورت الفاظ کے ساتھ اضافی قرض دیا گیا جو مستقبل میں کسی نہ کسی وقت واجب الادا ہے اور اس کیلئے سود بھی دینا پڑسکتا ہے۔ یہ قرض بنام امداد ہر شہری کیلئے 24 روپئے فی کس ہوگا جبکہ جملہ پیاکیج (20 لاکھ کروڑ روپئے) کے تحت ہر ہندوستانی سے 150 روپئے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو نام نہاد امدادی پیاکیج کدھر گیا جس کا اعلان مرکزی وزیرفینانس نرملا سیتارامن نے کافی تشہیر کے ساتھ کیا تھا۔ جب ارادہ صرف اضافی قرض فراہم کرنے کا ہی تھا تو مرکزی حکومت سے منظوری کے بغیر بھی ریاستیں ایسا قرض حاصل کرسکتی تھیں۔ علاوہ ازیں پرفل نے استدلال پیش کیا کہ جملہ 20 لاکھ کروڑ کے پیاکیج میں سے جو اضافی قرض کی آڑ میں دیا گیا، بمشکل 15 فیصد ہی جاری کیا گیا ہے تو پھر آتمانربھر پیاکیج کے بقیہ حصہ کا کیا ہوا۔ وزیراعظم نریندر مودی آتمانربھر پیاکیج کی تعریف کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ ماضی کی چند مثالیں پیش کرتے ہوئے پرفل نے تعجب ظاہر کیا کہ آیا وزارت فینانس اب کچھ نیا ڈیٹا جاری کرتے ہوئے خود اپنی اتھاریٹی کی جانب سے دیئے گئے جواب (10 اگست 2021ء) کو کالعدم کرے گی؟