۔1500 سالہ قدیم مسجد صوفیہ کیا پھر مسجد میں تبدیل ہوگی ؟

,

   

امریکہ اور یونان کی ترکی کے صدر اردغان کے فیصلے پر نظریں مرکوز

انقرہ :ترکی کے اعلیٰ ترین انتظامی ادارے کونسل آف اسٹیٹ نے 1500 برس پرانے گرجا گھر اور یونیسکو کی جانب تاریخی ورثہ قرار دیے جانے والے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے سے متعلق فیصلہ موخرکر دیا ہے۔ میڈیا کے مطابق کونسل آف اسٹیٹ 15 دن میں اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا سیاحوں کی تفریح کے مرکز اور بازنطینی دور کی یادگار کو ایک عجائب گھر سے مسلمانوں کی عبادتگاہ میں تبدیل کرنا چاہیے یا نہیں۔ اس گرجاگھر کو مسجد میں تبدیل کرنے کی تحریک کو ترکی کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی جانب سے مذہبی اور قدامت پسند ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا ایک حربہ قراردیا جا رہا ہے اور اس عمل کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے، عمارت کی حیثیت اور اس کے مستقبل کا تعین اے کے پی کی انتخابی مہم کا ایک اہم موضوع تھا۔ترکی کی سیکولر جماعتوں اور عالمی برادری کی جانب سے اس مہم کی مخالفت کے باوجود اس گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔آیا صوفیہ میں عبادت پر 1934 سے پابندی عائد ہے۔ یہ گرجا گھر چھٹی صدی عیسوی میں بازنطینی شہنشاہ جسٹینن کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا اور چار پوپ بھی اس کا دورہ کر چکے ہیں۔اگرچہ انقرہ کے کئی مغربی حکومتوں کے ساتھ گرم جوشی والے تعلقات نہیں ہیں اور ایک ایسے اثاثے جس کے عالمی سیاسی اور مذہبی اثرات بھی ہیں کو اس طرح کے نظریات سے متاثرہ فیصلے سے تبدیل کرنے پر کئی اہم ممالک خصوصاً امریکہ اور یونان کیساتھ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ یونان کی وزیر ثقافت لینا میندونی نے حال ہی میں ترکی پر جنونی قوم پرستی اور مذہبی جذبات ابھارنے کا الزام عائد کیا ہے، جبکہ یونیسکو نے اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے قبل وسیع تر اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ایک ماہ قبل جب ترکی کے صدر اردغان سے ایک انٹرویو کے دوران یونان کی ناراضی کے حوالے سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ سراسر قومی خودمختاری کا ہے۔انہوں نے یہ کہنے کی جرات کیسے کی کہ آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل نہ کریں، کیا آپ ترکی پر حکومت کر رہے ہیں یا ہم؟

چند حالیہ سروے کے مطابق اگر ترکی میں قبل از وقت انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو اے کے پی کی حمایت میں کمی آئے گی۔بعض لوگوں کا خیال ہیکہ آیا صوفیہ کے حوالے سے مہم کا تعلق اسی کم ہوتی عوامی حمایت سے ہی جڑا ہے۔اتفاق سے گذشتہ برس مقامی حکومتوں کے انتخابات کے دوران ہی اردغان کا آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا بیان سامنے آیا تھا۔حال ہی میں ایک آزاد ادارے میٹروپول کی جانب سے ایک سروے کیا گیا جس کے مطابق 44 فیصد ترک عوام کا خیال ہیکہ آیا صوفیہ کا معاملہ ترکی کی اقتصادی صورتحال سے توجہ ہٹانے کیلئے چھیڑاگیا، جبکہ حکومت کے حامی چینلز پر ماہرین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ مقام اصل میں ایک شاپنگ مال تھا۔ترک یونان تعلقات اور یونیورسٹی آف ایتھنز میں بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ایکاوی ایتھناس پولو نے کہا کہ جب آپ ایک عالمی ورثے کے تناظر میں اپنے سیاسی ایجنڈے کو متحرک کرتے ہیں تو یہ آپ کی طاقت کو نہیں بلکہ کمزوری کی علامت کو ظاہر کرتا ہے۔امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے حال ہی میں خبردار کیا کہ آیا صوفیہ کی حیثیت میں کوئی بھی تبدیلی مختلف اقوام اور ثقافتوں کے مابین بہت ضروری پْل کی سی اس کی حیثیت کو کمزور کر دے گی۔