راج دیپ سردیسائی
میں نے 2000ء میں پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے اُس ملک کے اُن دہشت گرد ملیشیا کے بارے میں جاننے کی کوشش کی جو وادیٔ کشمیر میں کو نشانہ بناتے ہیں۔ میں راولپنڈی پہنچا اور خودساختہ یونائیٹیڈ جہاد کونسل کے ہیڈکوارٹرز گیا تاکہ سربراہ حزب المجاہدین سید صلاح الدین سے ملاقات کی جائے۔ ابتدائی گفتگو کچھ خوشگوار نہ رہی۔ جسیم قدوقامت والے باریش صلاح الدین اپنے کشادہ پٹھانی سوٹ میں تھے۔ انھیں میرے کیمرہ پرسن اور خود میرے تعلق سے اس قدر یقین ہوچلا تھا کہ ہم ہندوستانی جاسوس ہیں، ہمارے پاسپورٹس اور کیمرے چھین کر ہمیں ایک روم میں مقفل کردیا گیا۔ ایک گھنٹہ بعد دروازہ کھلا، اور کرخت لہجہ میں ہم پر برسنے کے بعد صلاح الدین نے یکایک طرزعمل بدلا اور کافی گفتگو کرنے لگے۔ انھوں نے کافی برہمی سے دعویٰ کیا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ میں نے 1987ء کے کشمیر انتخابات لڑے تھے اور میرا جیتنا یقینی تھا لیکن جس طرح تمہاری دہلی حکومت نے فاروق عبداللہ کے ساتھ مل کر الیکشن میں آخری مرحلے پر رگنگ کی جس کا مقصد محض میرے جیسے لوگوں کو شکست دینا تھا؟‘‘
سرینگر کے مقامی مدرسہ میں اسلامی درس دینے والے معلم یوسف شاہ کی کہانی کہ کس طرح وہ یکایک خطرناک دہشت گرد میں تبدیل ہوگیا، کشمیر میں خونریزی کی پیچیدہ داستانوں کا حصہ ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تب یسٰین ملک ان کے الیکشن ایجنٹس میںسے تھا جو بعد میں جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ کا کمانڈر بن گیا۔ ’’اگر میں وہ الیکشن جیت گیا ہوتا تو کسے معلوم میں آج حکومت میں پی ڈبلیو ڈی منسٹر ہوسکتا تھا!‘‘ صلاح الدین نے اس جملے کے ساتھ قہقہہ لگایا۔ یہ شاید ہماری ’ملاقات‘ کے دوران واحد لمحہ رہا جب میں نے کچھ سکون محسوس کیا، اور ہمارے اطراف کھڑے خوفناک بندوق برداروں سے میری نظروں کو ہٹایا۔میں نے اپریل میں صلاح الدین کی بات کا سابق چیف منسٹر جموں و کشمیر فاروق عبداللہ سے تذکرہ کیا، اور ان سے فوری جرأت مندی سے پوچھ لیا کہ آخر کس چیز نے انھیں راجیو گاندھی کی حکومت کے ساتھ تال میل میں وادی میں 1987ء کے الیکشن کو رِگ کرنے پر اُکسایا تھا؟ عبداللہ نے پہلے تو رگنگ کے الزام کی صاف تردید کردی، لیکن پھر کسی خیال میں ڈوب گئے: ’’اگر مسلم یونائیٹیڈ فرنٹ (وہ پارٹی جس کی صلاح الدین نمائندگی کررہے تھے) وہ الیکشن جیت جاتا تو وہ اسلامک اسٹیٹ کا اعلان کردیتے، آزادی کا مطالبہ کرتے، یا پاکستان کے ساتھ شامل ہوجاتے۔ فخریہ ہندوستانی کی حیثیت سے میں کبھی ایسا نہیں ہونے دے سکتا تھا، کیا میں ایسا کرسکتا؟‘‘بمشکل پانچ ماہ بعد کشمیر کی کہانی میں ایک اور موڑ آیا ہے۔ عبداللہ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت حراست میں ہیں، جو ایسا قانون ہے کہ مملکت کو کسی بھی فرد کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہونے پر دو سال تک محروس رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے برعکس ہندوستان کو نہایت مطلوب افراد میں شامل صلاح الدین آزادی سے پاکستان میں گھوم سکتا ہے اور ہندوستانی مملکت کے خلاف مزید کینہ اور تشدد پھیلا سکتا ہے۔ آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد کی صورتحال میں کیا نریندر مودی حکومت نے ایسی سیاسی راہ اختیار کرلی ہے جس میں ’’قوم پرست‘‘ فاروق عبداللہ اور ’’دہشت گرد۔ علحدگی پسند‘‘ صلاح الدین دونوں کو مملکت کے ’’دشمن‘‘ کے طور پر دیکھا جارہا ہے؛ ایک کو سرینگر کی گپکر روڈ پر واقع ان کے بنگلہ میں قید کردیا گیا، اور دیگر اپنے محفوظ پاکستانی مکان میں ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جو وادی کی پیچیدہ صورتحال کے پس منظر میں مطابقت رکھتا ہے، جہاں قوم پرستی اور علحدگی پسندی کے درمیان خطوں کو سخت گیر مملکتی کارروائی نے دھندلا کردیا ہے، جو ہر کشمیری سیاستدان کے ساتھ امکانی پریشان کن شخص اور شورش پسند کے طور پر برتاؤ کررہی ہے۔
وادیٔ کشمیر میں ’’معمول کی کیفیت‘‘ کیلئے ہمارے پاس عجیب سانچہ ہے۔ وہاں سیاسی سرگرمی پر امتناع ہے؛ جہاں کوئی بھی احتجاج یا اظہار ناراضگی کو ’’قوم دشمنی‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے؛ اور جہاں میرواعظ عمر فاروق جیسے علحدگی پسند لیڈر کو ایک مچلکہ پر دستخط کرنے پر رہا کردیا جاتا ہے کہ وہ سیاسی مظاہروں میں شامل نہیں ہوں گے، لیکن تین سابق چیف منسٹرس جنھوں نے ہندوستانی دستور کے تئیں وفاداری کا عہد لیا ہوا ہے، وہ زیرحراست ہیں۔ ان تینوں میں فاروق عبداللہ نے مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور کانگریس دونوں حکومتوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ ان کے فرزند عمر عبداللہ اٹل بہاری واجپائی حکومت میں وزیر تھے، اور محبوبہ مفتی ایک سال قبل تک بی جے پی کی اتحادی پارٹنر تھیں۔ اچانک تینوں نہ صرف ناپسندیدہ شخصیتیں بن گئے، بلکہ مملکت کیلئے خطرات باور کئے گئے۔ ان پر خاندانی حکمرانی، غلط حکمرانی اور کرپشن کا الزام عائد کرنا الگ بات ہے… تمام الزامات وادی کے باہر بھی سیاستدانوں کے خلاف عائد کئے جاسکتے ہیں… لیکن کیا انھیں اب غدار بھی سمجھا جانا چاہئے؟مثال کے طور پر فاروق عبداللہ کے خلاف جموں اینڈ کشمیر کرکٹ اسوسی ایشن کیس میں مالی بے قاعدگیوں کے الزامات پر کارروائی کرنا بالکلیہ معقول ہے؛ انھیں پی ایس اے کے تحت محروس کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی مملکت کو یکایک اندازہ ہوا ہے کہ 81 سالہ لیڈر جس نے اکثر پاکستان کی سرپرستی والی سرحد پار دہشت گردی کے خلاف پُرزور اور بارہا لب کشائی کی ہے، وہ مخالف ہند احساسات کیلئے عین ممکن ہے پُرکشش شخصیت ثابت ہوسکتا ہے۔سچائی یہ ہے کہ عبداللہ قائدین ہوں یا مفتی قائدین، انھیں سیاسی طور پر ہی شکست دینا چاہئے، نہ کہ کھلے طور پر غیردستوری حراستوں کے ذریعے۔ نہ صرف اس طرح کی طویل حراست کشمیر کے نامور سیاستدانوں کیلئے غیرمستحقہ کارنامہ کا ہالہ عطا کرے گی، بلکہ اس سے خطرناک سیاسی خلاء بھی پیدا ہوجائے گا جو وادی کو غیریقینی کیفیت اور مایوسی کے درمیان بدلتی حالت میں چھوڑ دیتا ہے۔ پاکستان میں بیٹھے صلاح الدین کو عین ممکن ہے کشمیر میں سرکاری کارروائی اس کا خوب انصاف دکھائی دے گا جو کچھ 1987ء میں پیش آیا۔ وہ رگنگ سے متاثرہ الیکشن عسکریت پسندی کا نقطہ آغاز ثابت ہوا، اب یہ ممکنہ غلط اقدام کس چیز کا موجب بنے گا؟
اختتامی تبصرہ: ان دنوں کشمیر کے پس منظر میں ’’قوم پرستی‘‘ کے بارے میں تاریخی اسباق کے حوالے دیئے جارہے ہیں، ایک اور حقیقت ملاحظہ کیجئے۔ 1999ء میں قندھار ہائی جیک واقعہ میں فاروق عبداللہ نے چیف منسٹر جموں و کشمیر کی حیثیت سے شدت سے کہا تھا کہ مسعود اظہر اور دیگر دہشت گردوں کو رہا نہ کیا جائے۔ عجیب بات ہے کہ جنھوں نے ہائی جیکرز اور طالبان کے ساتھ بات چیت کی تھی، اب وہ حکومت میں ہیں۔ وقت یقینا بدل چکا ہے۔٭
[email protected]
