دورۂ ایران کی روداد
محمد ریاض احمد
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
تاریخ انسانی کا بغور جائزہ لیا جائے اور اقوام عالم کی ترقی و خوشحالی ان کے عروج و زوال طاقت و کمزوری فتح و شکست کامیابیوں و ناکامیوں پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان ہی قوموں کو کامیابی و کامرانی حاصل ہوئی، وہی اقوام ترقی و خوشحالی کی معراج پر پہنچی اور ایسی اقوام نے ہی سارے عالم میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور دنیا بھر میں اپنی برتری قائم کی جس نے موت کا تعاقب کیا۔ علم کی روشنی سے خود کو منور کیا۔ سچائی، دیانت داری، محنت و جدوجہد کے قیمتی زیور سے خود کو آراستہ کیا۔ ایسی ہی اقوام میں ایرانی قوم کا شمار ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں خصوصی دعوت پر ملک کے چنندہ صحافیوں نے ایران کا دورہ کیا جس میں روزنامہ سیاست کی نمائندگی راقم الحروف نے کی۔ 24 فروری کو حیدرآباد سے روانگی عمل میں آئی اور 25 فروری کی صبح دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل سے دوبئی اور پھر دوبئی سے تہران روانہ ہوئے۔ دوران پرواز ہمارے ذہن میں تاریخ ایران کے اوراق کھلنے جارہے تھے اور تصور میں وہ منظر بھی گردش کرنے لگا جب حضرت عمر فاروق ؓ کے دورِ خلافت میں اس وقت کی سوپر پاورس یعنی بڑی طاقتوں روم اور ایران میں سے ایران فتح کیا گیا اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کے مطابق حضرت سراقہ ؓ کو شہر نبی مدینہ المنورہ میں کسریٰ کے کنگن پہنائے گئے۔ بہرحال سطور بالا میں راقم نے زندہ قوموں کی خاصیتوں اور خوبیوں کا ذکر کیا ہے، ایرانی دارالحکومت تہران کے امام خمینی انٹرنیشنل ایرپورٹ پہنچتے ہی وہ تمام خوبیاں ایرانی قوم میں نظر آنے لگیں۔ واضح رہے کہ ایران پچھلے 43 برسوں سے حالت جنگ میں ہے۔ 1979ء کے اِسلامی انقلاب کے بعد سے سامراجی طاقتوں نے مختلف بہانوں سے ایران کو بے شمار تحدیدات کا شکار بنایا۔ صیہونی طاقتوں نے جان بوجھ کر عالمی سطح پر اقوام متحدہ، IAEA اور دیگر اداروں کے ذریعہ ایران کی معیشت کو تباہ و برباد کرنے ، اُسے ترقی کی راہ سے ہٹانے، اسلام پسندی سے کفر پسندی کی راہ پر ڈالنے ، اس کرۂ ارض پر ایران کو الگ تھلگ کردینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ آج تمام مشکلات و مسائل اور رکاوٹوں کے باوجود ایرانی قوم نے انتہائی جواں مردی اور جانبازی کا مظاہرہ کرکے دشمن طاقتوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا اور فی الوقت ایران نہ صرف زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کے منازل بڑی تیزی سے طئے کررہا ہے بلکہ وہ دنیا کے چند ایک ایسے ممالک میں شامل ہے جو امریکہ، اسرائیل اور ان کی حلیف طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور دنیا کی دیگر بڑی طاقتیں ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملکوں کو منہ توڑ جواب دیتے ہیں اور اپنی گردنوں میں ان کی غلامی کا طوق ڈال لینے سے صاف انکار کرتے ہیں۔
ایران کے دورہ میں ہم نے وہاں کی جتنی اہم شخصیتوں سے ملاقاتیں کیں، تبادلہ خیال کیا، ان کے نقاط نظر سے آگہی حاصل کی، اس سے اسی نتیجہ پر پہنچے کہ ایرانی قوم کی کامیابی اس کی بقاء دراصل میدان کربلا میں شہادت حسینؓ کی مرہون منت ہے۔ ہمیں ایرانی قوم کی بقاء اس کی کامیابی و کامرانی اور خود مکتفی ایران کو دیکھ کر ایسا لگا کہ اس قوم نے شہدائے کربلا بالخصوص شہادت حضرت امام حسینؓ سے تحریک و ترغیب پائی اور میدان کربلا سے دیئے گئے اس پیغام کو اپنے اذہان و قلوب میں پوری طرح سمو لیا کہ تمہارے سامنے دنیا کی کتنی ہی بڑی طاقت کیوں نہ ہو مومن اپنا سَر صرف اپنے رب کے سامنے جھکاتا ہے۔ اس کے سامنے سربسجود ہوکر اپنی زندگی اپنے رب کے حوالے کردیتا ہے اور مومن اپنا سر کٹا سکتا ہے، لیکن سر جھکا نہیں سکتا ۔ دورۂ ایران کے موقع پر تہران اور مشہد مقدس میں ہم نے جن اہم شخصیتوں ، صحافیوں، مفکرین و دانشوروں، حکمت سازوں، سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کی، اُن تمام میں جہاد و شہادت کا جذبہ موجزن دیکھا۔ ویسے بھی آپ کو بتادیں کہ جس قوم نے موت کا تعاقب کیا، زندگی اس قوم کا پیچھا کرتی رہی اور جو قوم موت سے ڈرگئی، زندگی اس قوم سے دور چلی گئی ۔ ایرانی قوم بھی ایسی ہی قوم ہے جو موت کا تعاقب کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ، اسرائیل، ان کے حلیف ممالک باالفاظ دیگر تمام نام نہاد بڑی طاقتیں اسے کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے سے قاصر ہیں۔ قارئین آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی یوروپ اور ایشیا کے وسط میں واقع ہونے کے باعث کافی اہمیت ہے۔ رقبہ کے اعتبار سے عالمی سطح پر اسے 17 واں مقام حاصل ہے۔ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ ایران کے شمال میں آرمینیا، آذربائیجان، ترکمانستان اور بحیرہ قروین، مشرق میں افغانستان اور پاکستان، جنوب میں خلیج فارس و خلیج اومان مغرب میں عراق اور ترکی واقع ہے۔ قدرتی گیاس، تیل قیمتی معدنیات بالخصوص فولاد کے بڑے بڑے ذخائر اس کے دامن میں موجود ہیں۔ ایران اور ایرانی قوم کا موقف یہ ہے کہ جو اسرائیل کا دوست ہے، وہ ہمارا دشمن ہے۔ ایران میں زندگی کے ہر شعبہ میں مذہبی قیادت کو حرفِ آخر کی حیثیت حاصل ہے۔ خارجی پالیسی ہوکہ داخلی دفاعی اُمور ہوں کہ تعلیم، نگہداشت، صحت، سائنس و ٹیکنالوجی، قانون سازی ہوکہ عالمی تعلقات ہر معاملہ میں مذہبی قیادت یعنی رہبر معظم آیت اللہ علی خامنہ ای کی رائے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
اس دورہ میں اس بات کا اندازہ ہوا کہ ایران کے جو مذہبی و سیاسی رہنما دانشور و مفکرین اور اعلیٰ دفاعی عہدوں پر فائز شخصیتیں ہیں، وہ تمام کے تمام سادگی کے پیکر ، عاجزی و انکساری کا بہترین نمونہ ہیں۔ دورۂ ایران کے موقع پر ہمیں بانی اسلامی انقلاب ایران آیت اللہ روح اللہ خمینی کے اس مکان کو جانے اسے دیکھنے کا موقع جہاں آپ نے جلاوطنی سے واپسی کے بعد آخری سانس تک قیام کیا۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ سارا ایران جس کے ایک اشارے پر اُمڈ پڑتا تھا، ہر قسم کی قربانیوں دینے کیلئے تیار رہا کرتا تھا، اپنے قائد سے والہانہ محبت کیا کرتا تھا۔ وہ قائد وہ رہنما کسی عالیشان وسیع و عریض محل میں مقیم نہیں تھا بلکہ دو کمروں پر مشتمل ایک مکان میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ زندگی گذارا کرتا تھا۔ ہم نے وہ مقام بھی دیکھا جہاں امام خمینی ملک کی اہم ترین شخصیتوں اور بیرونی سفارت کاروں و سربراہانِ مملکتوں سے ملاقات اور خطاب کیا کرتے تھے۔ آپ کو یاد دلادیں کہ ایران میں شاہ کی حکومت کے خلاف کسی کیمیائی و حیاتیاتی ہتھیار خطرناک میزائیلوں یا راکٹوں، دبابوں ، راکٹ لانچرس، توپوں غرض طاقت کے بل بوتے پر اسلامی انقلاب پرپا نہیں کیا گیا بلکہ امام خمینی کے خطاب کی کیٹس خفیہ طریقوں سے عوام تک پہنچائی جاتی اور پھر جو کوئی اس مرد مومن کا پیام سنتا اسلامی انقلاب کا حامی بن جاتا اور اس کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اسلامی انقلاب کیلئے علامہ خمینی ان کے ساتھیوں اور آزادی کے متوالوں نے کس طرح کی اذیتیں، مصیبتیں، ظلم و جبر برداشت کیا۔ اس کا اندازہ ہمیں عبرت میوزیم کے دورہ سے ہوا۔ شاہ کے زمانہ میں یہ میوزیم جو تہران کے اہم ترین علاقہ میں واقع ہے، خفیہ عقوبت خانہ ہوا کرتا تھا جہاں سی آئی اے کی سرپرستی میں شاہ کی فوج اور انٹلیجنس کے ظالم و جابر عہدیدار اسلامی انقلاب کے حامی مرد و خواتین کو بدترین سزائیں دیا کرتے تھے۔ عبرت میوزیم کو دیکھ کر ہی دیکھنے والوں کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اب اسے ایک میوزیم میں تبدیل کردیا گیا ہے، لیکن وہاں جو خفیہ سیل میں مومی مجسمے اور تصاویر ہیں وہ سب کچھ ماضی کی المناک داستان سناتے ہیں۔ اس جیل میں آیت اللہ خامنہ ای اور بے شمار مجاہدین کو اذیتیں دی گئی تھیں۔ اس جیل کے 30% قیدیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنہیں بڑی بیدردی سے شہید کیا گیا اور ان کی نعشوں کا پتہ بھی نہیں لگ سکا۔ اس دورہ میں ہماری ملاقات ایران کے قدیم اخبار ’’کیھان‘‘ کے ایڈیٹر و مالک جناب حسین شریعتمداری سے بھی ہوئی جو رہبر اعلیٰ حضرت علی خامنہ ای کے نمائندہ اور کیھان گروپ آف نیوز پیپرس اینڈ پبلیکیشن کے صدرنشین بھی ہیں۔ وہ بھی مذکورہ عقوبت خانہ میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرچکے ہیں۔ ہم نے انہیں روزنامہ سیاست کی ایک کاپی اور تاریخی چارمینار کا ماڈل پیش کیا۔ ادارہ سیاست کے ملی و قومی خدمات سے واقف کروایا اور بتایا کہ کس طرح ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں کی قیادت میں روزنامہ سیاست ہندوستان میں ملی و قومی خدمات انجام دے رہا ہے۔ فلاحی خدمات کے ذریعہ ضرورت مندوں کی مدد کررہا ہے جس پر جناب حسین شریعتمداری نے خوشی کا اظہار کیا اور بتایا کہ وہ حیدرآباد ضرور آئیں گے اور ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں سے ملاقات کریں گے۔ قارئین آپ کو بتادیں کہ صحافیوں کے اس وفد کی قیادت و نگرانی جناب اشرف علی زیدی نے کی جبکہ حیدرآباد کے معزز ایرانی خاندان کے چشم و چراغ محترم آقا رضا ضابط نے اپنی موجودگی کے ذریعہ دورہ میں ایک جان سی ڈال دی تھی۔ انہوں نے مترجم کے فرائض غیرمعمولی انداز میں انجام دیئے اور مختلف مقامات پر ایران کی ترقی کے بارے میں بہتر انداز میں معلومات فراہم کی۔ دورہ میں ہمیں فارس نیوز ایجنسی جانے اور وہاں کے ذمہ داروں سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔ ساتھ ہی فارس میڈیا اسٹڈیز یونیورسٹی کے دورہ میں طلبہ سے بات چیت بھی ہوئی۔ وہاں سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا۔ یونیورسٹی اور فارس نیوز ایجنسی میں ہم ہندوستانی صحافیوں کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ وہاں ہم نے مردوں سے زیادہ خواتین کو دیکھا جو فوٹو، ویڈیو جرنلسٹس سے لے کر عالمی خبروں کے شعبہ کے ایڈیٹرس اور ڈائریکٹرس کے عہدوں پر فائز ہیں۔ ہم یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ ایران میں خواتین زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ ایرانی قوم نے تعلیمی شعبہ میں بھی غیرمعمولی ترقی کی۔ آج وہاں خواندگی کی شرح 90% سے زائد ہے۔ اس دورہ میں ہماری یادگار ملاقات ایرانی مفکرین و دانشوروں کے اعلیٰ ترین ادارے Doctrinal Institute of Iran کے سربراہ پروفیسر حسین عباسی سے ہوئی۔ وہ تہران یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشن کے پروفیسر ہیں۔ عالمی سیاست خاص طور پر امریکہ، اسرائیل اور ان کے حلیف ملکوں کی داخلی، خارجی، دفاعی اور معاشی پالیسیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے جو تجزیے ہوتے ہیں، وہ درست ثابت ہوتے ہیں۔ انہوں نے یوروپ کے مختلف دفاعی تجزیہ نگاروں، دانشوروں، صحافیوں و مصنفین کے حوالے دیتے ہوئے بتایا کہ 2035ء تک دنیا میں ایران، ترکی اور میکسیکو بڑی طاقتوں کے طور پر ابھریں گے جبکہ امریکہ، چین، اسرائیل زوال کا شکار ہوجائیں گے۔ امریکہ کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ واضح رہے کہ دنیا میں امریکہ، ایران اور برطانیہ میں ہی Doctrinal Institute ہیں۔ دورہ میں ایرانی وزارت خارجہ کے حرکیاتی ترجمان محترم سعید خطیب زادہ سے یادگار ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے نمائندہ سیاست کے سوال پر ایک خوشخبری سنائی کہ انشاء اللہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بحال ہوجائیں گے۔ اس ضمن میں Backdoor Diplomacy کا آغاز ہوچکا ہے۔ ایران کے تین سفارت کار سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض بھی جاچکے ہیں۔ اس طرح ایرانی نائب وزیر اطلاعات و نشریات محترم فرشاد مہدی پور سے بھی یادگار ملاقات رہی۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ فی الوقت ایران اور ہندوستان کے تہذیبی و ثقافتی تعلقات انتہائی کمتر سطح پر آچکے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے اشارہ دیا کہ اسرائیل سے قربت کے باعث ایسا ہورہا ہوگا۔ انہوں نے راقم کے سوال پر کہا کہ آپ اخبار سیاست سے تعلق رکھتے ہیں، اور آپ کا سوال بھی سیاسی نوعیت ہی کا ہے۔ فرشاد مہدی پور نے ہندوستانی صحافیوں کو ایران میں خدمات انجام دینے کی پیشکش بھی کی ہے۔ دورۂ ایران میں سب سے یادگار لمحات حضرت امام رضا کے روضہ مبارک پر حاضری کئے ہیں۔ (بارگاہ حضرت امام رضا سے متعلق آئندہ مضمون میں انشاء اللہ تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی) ایران میں ہم نے بطور خاص یہ بات نوٹ کی کہ وہاں شہداء کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ امریکی ۔ اسرائیلی فضائی حملے میں جام شہادت نوش کرنے والے جنرل قاسم سلیمانی ایران کے National Icon بنے ہوئے ہیں۔ ملک کے چپہ چپہ میں شاہراہوں وغیرہ پر ان کے پورٹریٹس دکھائی دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امام خمینی کے جلوس جنازہ میں تقریباً ایک کروڑ افراد نے شرکت کی تھی لیکن جنرل قاسم سلیمانی کے جنازہ میں لگ بھگ 2 کروڑ ایرانیوں نے شرکت کی۔ ہماری ملاقات جنرل قاسم سلیمانی کی دختر زینب سلیمان سے بھی ہوئی۔ آپ کو بتادیں کہ ہر ایرانی کی خواہش ہے کہ اس کرۂ ارض سے اسرائیل کا خاتمہ ہوجائے۔ ایرانی رہنماؤں کے خیال میں ہندوستان اور ایران کو سامراجی طاقتوں کا متحدہ مقابلہ کرنا چاہئے کیونکہ سامراجی طاقتوں کی دوستی تباہی کے راستے پر لے جاتی ہے۔ ایران میں ہم نے ایک اور بات یہ دیکھی کہ ہر نماز کے بعد ’’مرگ اسرائیل، مرگ امریکہ‘‘ کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ اور تہران میں ایک ایسی گھڑی بھی ہے جس کے ذریعہ اسرائیل کی تباہی کی اُلٹی گنتی دکھائی گئی ہے۔ رہبر اعلیٰ علی خامنہ کے خیال میں اندرون 20 تا 25 سال میں اسرائیل کا وجود مٹ جائے گا، امریکہ بکھر جائے گا۔ بہرحال اگلے مضمون میں سائنس و ٹیکنالوجی نیوکلیئر پروگرام، یورینیم افزودگی، اسپیس پروگرام، ایران کے میزائل، ڈرونس، نینو ٹیکنالوجی پروگرامس، شعبہ طب کی ترقی وغیرہ سے متعلق انشاء اللہ تفصیلات پیش کی جائیں گی۔ بہرحال ایران کے بارے میں ہم ان ہی خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں جسے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اپنے اس شعر کے ذریعہ واضح کیا تھا:
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے