بفحوائے حدیث شریف اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے علم کی تعلیم لازمی ہے ، علم کی طلب عبادت ہے ، علم کی تلاش جہاد ہے ، بے علموں کو علم سکھانا صدقہ ہے ، مستحق لوگوں کو علم سکھانا اﷲ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہے ، علم حلال و حرام کے مابین امتیاز ہے ، جنت کے راستوں پر روشنی کا ستون ہے ، تنہائی میں مونس ہے ، پردیس میں رفیق ہے ، خلوت میں ندیم ہے ، دشمن کے مقابلے میں ہتھیار ہے ، دوستوں کے لئے زینت ہے ، علم کے ذریعہ بلندی اور امانت ملتی ہے ، علم اہل علم کی سیرت کو نمونہ بناتا ہے اور ان کے لئے بر و بحر کی مخلوقات دعاء کرتی ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا : ہرچیز کا کوئی نہ کوئی ستون ہوتا ہے اور اس دین کا ستون علم ہے ۔
سفیان ثوریؒ فرمایا کرتے تھے کہ نیت نیک ہو تو طلب علم سے افضل کوئی عمل نہیں ۔ ایک حدیث میں طلب علم کے دوران میں موت کو شہید پر فضیلت دی گئی ۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے نزدیک مسجد میں بیٹھ کر فرائض و سنت کی اور علم کی دین کی تعلیم دینا جہاد سے افضل عمل ہے ۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو طلب علم اور عبادت میں نشوونما پاتا ہے اور بڑا ہوجاتا ہے اور اپنی اس حالت میں استوار رہتا ہے ، اسے ستر صدیقوں کا ثواب ملتا ہے ۔ ایک حدیث شریف میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : علم سے مومن کو کبھی سیری نہیں ہوتی ، وہ علم حاصل کرتا رہی رہتا ہے یہاں تک کہ جنت میں پہنچ جاتا ہے۔
یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ دنیا کی سب سے بڑی علمی تحریک دور اسلامی میں پیدا ہوئی ۔ یہ قدرتی امر تھا کہ قرآن و حدیث کی اس رہنمائی میں محدثین ، صحابہ و تابعین نے تحصیل علم پر خاص زور دیا ۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لڑکوں کو پڑھتے دیکھتے تو فرماتے : ’’شاباش ! تم حکمت کے سرچشمے ہو تاریکی میں روشنی ہو ، تمہارے کپڑے پھٹے پرانے ہوں تو کیا مگر دل تروتازہ ہیں ، تم علم کے لئے گھروں میں مقید ہو مگر تم ہی قوم کے مہکنے والے پھول ہو‘‘۔
حضرت عبداﷲ بن مبارک سے پوچھا گیا : آپ کب تک علم حاصل کرتے رہیں گے ؟ جواب دیا : ’’موت تک ‘‘۔
سفبیان بن عیینہ ؒ سے پوچھا گیا : ’’طلب علم کی ضرورت سب سے زیادہ کسے ہے ؟‘‘۔
جواب دیا : ’’جو سب سے زیادہ صاحب علم ہے ‘‘ ۔
فراء کا قول ہے : ’’مجھے دو آدمیوں پر بڑا رحم آتا ہے ، ایک اُس پر جو علم حاصل کرنا چاہتا ہے ، مگر سمجھ نہیں رکھتا اور پھر اس پر جو سمجھ رکھتا ہے مگر علم حاصل کرنا نہیں چاہتا ۔ پھر فرمایا : ’’ان لوگوں پر بڑا تعجب ہے جو علم حاصل کرنے کی قدرت اور طاقت رکھتے ہیں مگر علم حاصل نہیں کرتے ۔
محدثین کے نزدیک علم کی دو قسمیں ہیں : (۱) فرض عین (۲)فرض کفایہ ۔ دین کے فرائض کا اجمالی علم فرض عین ہے ۔ اس کی تحصیل ہر آدمی کے لئے لازمی ہے ۔ اس علم میں کلمۂ شہادت یعنی زبان و قلب کا اقرار شامل ہے کہ اﷲ واحد ہے ، اس کا کوئی شریک اور نظیر نہیں گویا خدائے تعالیٰ کی ذات اور جملہ صفات پر ایمان کامل و یقین محکم اور اس بات کا اقرار و اعلان کہ حضرت محمد ﷺ اﷲ تعالیٰ کے خاص بندے، رسول اور خاتم النبیین ہیں ۔ موت کے بعد حشر ، جزاء و سزا ، جنت اور دوزخ کا اقرار اور اس بات کا اقرار کہ قرآن مجید اﷲ تعالیٰ کا کلام برحق ہے جو حضرت محمد ﷺ پر بذریعہ وحی نازل ہوا ۔ اس پر ایمان لانا اور اس کی آیات محکمات پر عمل کرنا فرض ہے ۔ یہ جاننا بھی لازمی ہے کہ رات دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں اور ان باتوں کا علم بھی لازمی ہے جن کے بغیر نماز پوری نہیں ہوتی ۔ مثلاً طہارت ، نماز کے ارکان و احکام اور یہ کہ رمضان کے روزے فرض ہیں اور روزے کے احکام کا علم بھی فرض ہے ۔ مالدار آدمی کے لئے یہ جاننا بھی فرض ہے کہ زکوٰۃ کن چیزوں پر فرض ہے اور کب اور کتنے پر فرض ہے ؟ بشرطِ استطاعت عمر بھر میں ایک مرتبہ حج فرض ہے ۔ اسی طرح انفرادی اور اجتماعی زندگی میں حلال و حرام چیزوں کا علم بھی لازمی ہے ۔
دوسرے علوم کی تحصیل و ترویج اور اُن میں سے ہر کمال و تبحر محدثین کے نزدیک فرض کفایہ ہے ۔ حسن بصری ؒ کا قول ہے کہ محض اﷲ تعالیٰ کی خاطر علم حدیث کا حصول دنیا کی تمام نعمتوں سے بہتر ہے ۔ امام زھری فرماتے ہیں کہ علم سے بہتر کوئی طریقہ نہیں جس سے عبادت الٰہی ممکن ہو ۔ اسحق ابن ابراھیم کے نزدیک علم ضرور حاصل کرنا چاہئے کیونکہ علم ہدایت کی راہ دکھاتا ہے اور ہلاکت سے بچاتا ہے۔ حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ علم کا ایک باب سیکھنا اور اس پر عمل کرنا دنیا اور دنیا کی تمام نعمتوں سے بہتر ہے ۔
حضرت ابوالدرداء سے مروی ہے : علم کی دولت خوش نصیب آدمی کو ملتی ہے اور بدنصیب اس سے محروم رہتا ہے ۔ داناؤں کا کہنا ہے کہ اہل علم کی برتری کا ثبوت یہ ہے کہ لوگ ان کی اقتداء کرتے ہیں ۔ تعلیم نیکیوں کا راستہ دکھاتی ہے ۔ بھلائی کرنے والا اور بھلائی کی راہ دکھانے والا ثواب میں دونوں برابر ہیں۔ اسلام میں علم کو کلیت کا درجہ حاصل ہے ۔ علم کو انسان کے ظاہر و باطن اور دنیا و عقبیٰ کے لئے مفید اور سودمند قرار دیا گیا ۔ اسلام کلی حقیقتوں میں یقین رکھتا ہے اور زندگی کو جزوی طورپر دیکھنے کا قائل نہیں۔
علم کامقصود معرفت نفس اور معرفت الٰہی ہے جس سے لذت یقین اور سعادت دنیا و آخرت حاصل ہوتی ہے ۔ اسلام کا نظریۂ علم یونانی فکر کے خلاف کہ کوئی علم یقینی یا صحیح نہیں اسی طرح Dogmatism (جزیت ) کے بھی خلاف ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہرعلم صحیح ہے۔
علم مسلمانوں کے لئے عین دین ہے ۔ دین انسان کی کلی زندگی پر حاوی ہے اور دنیا اور آخرت سب اس میں شامل ہیں۔
غرض جہاں تک قرآن مجید کا تعلق علم انسانی سے مراد محض تصور ہی نہیں ، اس کی تصدیق بھی اس میں شامل ہے ۔ جو اس سے محسوس کرنے کے بعد اسے پرکھنا ، تجزیہ کرنا ، حقیقت تک رسائی حاصل کرنا اور اس پر عمل کرکے اسے سعادت دارین کا ذریعہ بنانا غایت اصلی ہے۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ایک قول کے مطابق تقویٰ اور علم تک رسائی اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت اور تقدیر کے خیر و شر پر ایمان کے بغیر ممکن نہیں ۔ (الطبری : تاریخ ۱:۳۲) اسی بنیاد پر امام غزالی نے حکمت اور ایمان باﷲ کو ایک ہی چیز کے دو نام قرار دیا ہے۔ ابن فورک کے نزدیک علم اور ایمان جزوی طورپر ہم پلہ ہیں ۔ امام ابو منصور ماتریدی کے نزدیک اسلام ، ایمان ، معرفت اور توحید دراصل باری تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ہمارے علم کے مختلف مظاھر ہیں۔ (قوت القلوب : ابوطالب المکی ) ابوطالب مکی کے نزدیک علم ایمان کی روح ہے ۔ قلب انسانی میں العلم باﷲ کو جس قدر وسعت و قوت حاصل ہوتی ہے اسی قدر ایمان بھی قوی اور مضبوط ہوتا جاتا ہے۔
(اقتباس از اردو دائرۃ المعارف اسلامیہ مادہ علم)