دہلی میں فضائی آلودگی

   

کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ

روش کمار

آلودگیاور وہ بھی فضائی آلودگی کے لحاظ سے دہلی دنیا کے چند ایک خطرناک شہروں میں شامل ہے اور جب دیوالی جیسا تہوار آتا ہے تو دہلی دنیا کا سب سے خطرناک آلودہ شہر بن جاتا ہے۔ اس قدر آلودہ کہ لوگوں کو دن میں بھی شام کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو فضائی آلودگی نے دہلی کے مکینوں کو پھیپھڑوں کی کئی ایک بیماریوں میں مبتلا کردیا ہے اور فی الوقت دارالحکومت دہلی میں بھیجہ اور پھیپھڑے کی لڑائی چل رہی ہے۔ دس سال سے پھیپھڑے اپنا حال دماغ کو بتارہے ہیں پھر بھی دماغ اس بات کو ماننے سے انکار کررہا ہے کہ پھیپھڑے کی حالت خراب ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر بھیجہ یہ کیوں ماننے کو تیار نہیں کہ پٹاخوں سے آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتا کہ گرین پٹاخوں کی اجازت تھی لیکن اس کی آڑ میں جو پٹاخے جلائے گئے گرین نہیں تھے دماغ اپنی سیاسی سوچ کی وجہ سے بہت مجبور ہے اور پھیپھڑا کی طرح دائیں بازو کے لوگ طبی سوچ بتا بتاکر پٹاخے کی مخالفت کو دیوالی کی مخالفت روایات اور مذہب کی مخالفت بتانے لگے ہیں۔ اچانک اس طرح کی باتیں کرنے والوں کو ہیرو کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ کوئی رام گوپال ورما آجاتا ہے جو لکھتا ہے کہ دہلی میں جتنے پٹاخے نہیں پھوٹے اس سے زیادہ تو ایک دن غزہ میں پھوٹ گئے۔ آپ کو کیسے پتہ کہ غزہ میں آلودگی نہیں؟ ایسی دلیلوں بھرے بھیجہ نے پھیپھڑے کو جس طرح بے بہرہ کردیا لگتا ہے ایک دن سارا شہر پھیپھڑے کے کینسر کے خیرمقدم میں نکل پڑے گا اور اسے بیماری کی جگہ امرت کال امرت قرار دے گا۔ آخر بھیجہ کو سمجھ کیوں نہیں آرہا ہے کہ یہ معاملہ صرف پھیپڑہ کا نہیں ہے۔ پھیپڑہ کا کینسر ہوگا تو پورا جسم متاثر ہوگا اور خاندان بھی۔ یقین نہیں آتا کہ اسی دلی کی ہوا جب پٹرول اور ڈیزل سے زہریلی ہوگئی تب بھلے ہی کچھ لوگ تھے جو لڑرہے تھے، سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے تھے اور اخبارات میں لکھ رہے تھے لیکن تب عوام ان کی مخالفت میں اس طرح سے کھڑی نہیں تھی۔ جس طرح سے آج پٹاخوں کی مخالفت میں بات کرنے والوں کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ دہلی کے ہی سر گنگا رام ہاسپٹل میں 30 سال تک پھیپھڑے کے کینسر پر تحقیق ہوئی جس میں یہ انکشاف ہوا کہ 1988ء میں پھیپھڑے کے کینسر والے جن مریضوں کی سرجری کی گئی ان میں 90 فیصد سگریٹ پیتے تھے لیکن 2018ء آتے آتے ایسے مریضوں کی تعداد 50 فیصد ہی رہ گئی یعنی Smoking نہ کرنے والے مریضوں کی تعداد 40 فیصد بڑھ گئی۔ 70 فیصد لوگ ایسے تھے جن کی عمر 50 سے بھی کم تھی اور وہ سگریٹ نہیں پیتے تھے۔ 30 سے بھی کم عمر کے پھیپھڑے کے کینسر کے مریضوں میں ایک بھی سگریٹ پیتے ہوئے نہیں پایا گیا۔ Passive Smoking گاڑیوں کا دھواں، صنعتی آلودگی، خوردنی تیل کا متعدد مرتبہ استعمال اور گھروں میں استعمال کیا جانے والا کوئلہ کئی وجوہات ہیں لیکن ہوا میں گھلتا زہر سب سے بڑی وجہ بنتا جارہا ہے۔ ایسے مریضوں کو بھی Lung Cancer ہورہا ہے جن کے خاندانوں میں اس طرح کی بیماری کی کوئی ہسٹری نہیں۔ یہ مریض نوجوان ہیں خواتین ہیں۔ انھوں نے سگریٹ نوشی تو دور کبھی سگریٹ کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ ان سب میں ایک چیز مشترک ہے۔ دہلی کی زہریلی ہوا پر کتنے ہی اعداد و شمار منظر عام پر آتے ہیں، اخبارات میں شائع ہوتے ہیں کہ دہلی میں سانس لینا دن میں دس بیس یا 50 سگریٹ پینے کے برابر ہے۔ دہلی میں مکینوں کی زندگی کے 12 سال کم ہوسکتے ہیں مگر زمین اور ہوا میں کہیں بھی تبدیلی نہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آپ دہلی میں Lung Cancer کم کرنا چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو فضائی آلودگی کم کرنے کی بات کرنی ہی ہوگی۔ اس کے بغیر ساری بحث بیکار ہے لیکن اس کی بات کرتے ہی آپ کو ٹرال کیا جاتا ہے، مذہب مخالف ہونے کا لیبل چسپاں کیا جاتا ہے۔ گرین پٹاخہ اور کورٹ کے فیصلہ کے نام پر اس بحث کو جیت لینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ دیوالی کے اگلے دن لوگ اپنے اپنے فون سے AQI کے اعداد و شمار نکال کر ٹوئٹ کرنے لگے، چیخ و پکار کرنے لگے کہ ان کے فون میں AQI کے اعداد 500 ، 991 ، 1991 ، 1761 اور 2000 بھی ہوگیا یعنی خطرہ کی حد کو پار کرگیا ہے۔ دہلی کے 38 زونس میں سے 36 زونس میں AQI سرخ رنگ کے نشان دکھا رہا تھا۔ سنٹرل پولیوشن بورڈ کے اعداد و شمار بھی آگئے۔ اس کے مطابق دہلی کی اگلی صبح دہلی کا اوسط AQI ، 350 رہا۔ اس حساب سے 350 بہت خطرناک ہے۔ دہلی کی ہوا بہت خراب حالت میں آگئی لیکن جیسے ہی آپ بوانا، وزیرپور، علی پور، جہانگیر پوری، براری کراسنگ، شادی پور، اشوک وہار، پنجابی باغ، سونیا وہار اور وویک وہار کے اعداد و شمار دیکھتے ہیں 400 کے پار نظر آتا ہے۔ ہوا خطرناک زمرہ میں آجاتی ہے۔ ویسے بھی دہلی میں کچرا کو دور کرنے بحث ہوئی لیکن بحث ہی کچرا بن گئی اس لئے ہم نے کہاکہ دہلی میں بھیجہ نے پھیپھڑے کو ہرادیا کیوں کہ پھیپھڑے نے بھیجہ میں کچرا بھر دیا ہے۔ جسے دیکھو آلودگی پر اسٹڈی کررہا ہے۔ اسٹڈی پر بات کرو تو اس پر مذہب مخالف ہونے کا لیبل چسپاں کردیا جارہا ہے۔ 2018ء میں دہلی یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے ایک تقابلی جائزہ لیا گیا کہ اتراکھنڈ کے گڑھوال میں رہنے والے کسی فرد کے مقابل دہلی میں رہنے والے کو پھیپھڑے کی بیماری ہونے کا خطرہ 107 گنا زیادہ ہے۔ اس جائزہ کے مطابق دہلی کے مکینوں میں 40 فیصد سے زیادہ لوگوں کے پھیپھڑوں کی صلاحیت متاثر ہوچکی ہے۔ ان کے پھیپھڑے کافی کمزور ہیں۔ الگ الگ جائزہ میں سامنے آیا ہے کہ دہلی میں 22 لاکھ بچوں کے پھیپھڑوں میں خرابی دیکھی جاتی ہے۔ ہر تیسرا بچہ کسی نہ کسی سانس کی تکلیف سے گزر رہا ہے۔ جن برسوں میں دہلی کی ہوا بد سے بدتر ہوگئی ان ہی برسوں کے دوران بچوں میں کینسر دگنا ہوگیا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دہلی سن رہی ہے کچھ سمجھنا بھی چاہتی ہے۔ دہلی میں بھی کئی طرح کی دہلی ہے۔ دہلی ایک ایسا شہر ہے جہاں پچھلے دس برسوں سے فضائی آلودگی سب سے زیادہ موضوع بحث بنا ی ہوئی ہے۔ فضائی آلودگی اور صحت کو لے کر اس پر کتنی کتابیں آگئیں لیکن تب بھی یہ باتیں لوگوں تک نہیں پہنچ پارہی ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ دس سال میں بھی نہیں پہنچ پائی۔ جہاں پہنچی وہاں گھروں میں بچے اب پٹاخہ نہیں جلاتے ہیں لیکن اب تو پٹاخوں پر سوال کرنا بھی مذہب اور روایات کی مخالفت ہوگئی ہے۔

لوک پال ارکان کیلئے 70 لاکھ کی BMW کاریں
اگر لوک پال کے عہدہ داروں کو 70 لاکھ کی کار دی جارہی ہے تو ان کے رہنے کے لئے 5 اسٹار ہوٹلیں بھی بُک کردی جانی چاہئے۔ اداروں کی آزادی کو اس طرح سے ختم کر ہی دینا چاہئے کہ کچھ سال بعد ہمارے ملک کے ادارے کھٹارا کاروں کی گیرج کی طرح نظر آئیں۔ آپ ہی بتایئے لوک پال کے ارکان ایسا کیا کام کرتے ہیں کہ ان کی سرگرمیاں بڑھانے کے لئے BMW کی لیٹسٹ سیریز کی کاروں کا ٹنڈر نکالا گیا ہے۔ ملک کو بتانا چاہئے کہ یہ فیصلہ کس طرح لیا گیا، کن کن ارکان کی اس میں مرضی شامل تھی کہ BMW کار ہی چاہئے۔ ان سے پوچھنا چاہئے کہ 70 لاکھ کی جرمن کار کیوں چاہئے۔ 26 اگست کو وزیراعظم نریندر مودی بڑودہ جاتے ہیں، ماروتی کی فیاکٹری میں Evitara کار کو سبز جھنڈی دکھاتے ہیں۔ آتما نربھر بھارت پر خطاب کرتے ہیں اور دو ماہ بعد 16 اکٹوبر کو لوک پال کے 7 ارکان کے لئے جرمن کار کا ٹنڈر نکالا جاتا ہے۔ ایک کار کی قیمت 70 لاکھ روپئے ہے۔ عوام کو بھاشن آتما نربھر بھارت کا اور جنتا (عوام) کے پیسوں سے جرمن کار کا شوق۔ دس سال ہوگئے لوک پال کے۔ دس سال میں اس ادارہ کی چرچا اس کے کام کو لے کر جتنی نہیں ہوئی اس سے کہیں زیادہ کار کو لے کر ہورہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ آخر لوک پال ارکان کو اب BMW کار ہی کیوں دی جارہی ہے۔ اس کے پیچھے حکومت کے کیا ارادے ہیں؟