سونیا سرکار
رواں ہفتے شمال مشرقی دہلی کے فسادات کی سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز جس میں خاکستر کاریں ، شرپسندوں کی جانب سے پھینکے جانے والے پیٹرول کے بمس اور اس سے دہلی کے آسمان پر اٹھتا دھواں سنتوق سنگھ کے ذہن میں 1984 کے سکھ مخالف فسادات کی دردناک یادوںکو پھر تازہ کردیا ہے۔ اس وقت اس سنتوق سنگھ کی عمر بمشکل5 سال تھی لیکن اس کے ذہن میں اب بھی تشدد کے وہ مناظرتازہ ہیں۔سنگھ ، جو مغربی دہلی کے تلک وہار میں رہائش پذیر ہیں اورکام کرتے ہیں اور انہوں نے کہا ہیکہ دہلی کا فساد سکھوں کے خلاف 1984 کے تشدد کے ری پلے کی طرح لگتا ہے۔31 اکتوبر 1984 کو سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے دو سکھ سکیورٹی گارڈوں کے ہاتھوں مارے جانے کے فورا بعد ہی دہلی میں تقریبا 3 ہزار سکھ تشدد میں مارے گئے تھے۔1984 اور 2020 کے تشدد کے درمیان دو فرق یہ ہیں کہ اس وقت سکھوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ، اب مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سنگھ نے کہا کہ اس وقت ملک کا اقتدارکانگریس کے ہاتھوں میں تھا اور اب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے۔ سنگھ کے بموجب عام آدمی پارٹی کی زیرقیادت دہلی حکومت نے بھی ابتدائی طور پر کچھ نہیں کیا تھا۔ کسی کی موت ہوجانا زندگی کا وہ بڑا نقصان ہے کچھ بھی کرلو اس نقصان کی تلافی نہیں ہوسکتی۔بالکل اسی طرح جیسے 1984 میں سکھ مخالف تشدد ، جب 20-50 سال کی عمر کے مردوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ، اس بار بھی زیادہ تر مرنے والے ایک ہی عمر کے مرد ہیں۔سنگھ اپنے والد ، ایک رکشہ چلانے والے کو یاد کرتا ہے ، جسے سلطان پوری میں ایک بند مکان میں تین دیگر افراد کے ساتھ زندہ جلادیا گیا تھا ، جہاں وہ فسادیوں سے چھپا ہوا تھا۔ اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ ہماری کچی آبادی جلادی گئی تھی لیکن ہم فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ میرے والد گھر پہنچنے کے لئے کام کے مقام سے بھاگ گئے تھے لیکن وہ کبھی نہیں پہنچ سکے۔ پولیس یا انتظامیہ کی طرف سے اسے ڈھونڈنے میں کوئی مدد نہیں ملی۔
مبینہ طور پر شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں جاری تشدد کے دوران متاثرین نے مدد کے لئے پکارا لیکن ان کی آواز کسی نے نہیں سنی ۔ 23 فروری کو پرتشدد واقعات کے بعد سے اب تک 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور فسادات میںدہلی پولیس اپنے کردار کی وجہ سے تنقید کی زد میں آگئی ہے۔
مغربی دہلی کے جنک پوری سے تعلق رکھنے والے 54 سالہ سپریم کورٹ کے وکیل تاجندر پال سنگھ نلوہ جو 1984 میں اپنے رشتے کے بھائی اورایک دوست کو کھو چکے تھے، جاری تشددکو فساد سے تعبیر کرتے ہیں ، جیسا کہ انہوں نے کبھی بھی 1984 کے تشدد کو فساد نہیں قرار دیا تھا۔ نالوا نے کہا ہے کہ ، جب ہجوم نے لوگوں پر حملہ کیا تھا ، تب یہ ریاست ایک خاموش تماشائی تھی۔ انسانی حقوق کے کارکن گوتم نولاکھا نے کہا ہے کہ در حقیقت 1984 کے تشدد سے مماثلتیں ہیں۔ 1984 میں حملہ آور جن میں زیادہ تر نوجوان تھے تلواروں ، خنجروں ، نیزوں ، آہنی تریشول اور لوہے کی سلاخوں سے لیس سڑکوں پرگھوم رہے تھے۔ فیکٹ فائنٹڈینگ کی ایک رپورٹ جوکہ سول سوسائٹی کی تنظیم پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) اور پیپلز یونین برائے جمہوری حقوق (پی یو ڈی آر) نے مشترکہ طور تیار کی تھی اس میں سکھ مخالف فسادات کی تفصیلات فراہم کی گئی تھی۔ رپورٹ میں مزید کہاگیا کہ ان افراد نے اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے۔ اس بار نعرے بازی کرنے والے حملہ آوروں کو ہتھوڑے اورکلہاڑی حتی کہ بندوقوں سے بھی لیس کیا گیا ہے اور فساد میں دونوں طرف ہلاکتیں ہو ئی ہیں۔نولاکھا جو1984 میں پی یو سی ایل پی یو ڈی آر کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا حصہ تھے انہوںنے مزید کہا ہے کہ یہاں تک کہ 1984 میں پولیس یا تو غیر حاضر تھی یا صرف کچھ تعداد میں موجود تھے یا انہوں نے ہجوم کی مدد کرنے میں متعصبانہ کردار ادا کیا ، جیسے وہ اب اس فساد میں بھی کیا ہے۔
ناولھا نے مزید کہا کہ تشدد کی ابتداء مختلف ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف مظاہرین ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں حملہ ، اور گارگی سے بدسلوکی کے خلاف مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن اس تشدد سے پہلے پیش آنے والے واقعات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ ، اس مہینے کے شروع میں دہلی اسمبلی انتخابات سے قبل دہلی کے سابق ایم ایل اے اور بی جے پی رہنما کپل مشرا کی نفرت انگیز تقاریر اور پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست بھی اس کی ابتدا ہے۔1984 کے تشدد سے متعلق پی یو سی ایل پی یو ڈی آر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکام کی تجویز کے مطابق ، یہ اندرا گاندھی کے قتل پر پاگل پن اور عوامی غم و غصہ کا رد عمل تھا۔ سب سے زیادہ کانگریس کے اہم سیاستدانوں اور انتظامیہ کے حکام کے ذریعہ جان بوجھ اہم نکات سے پردہ پوشی کا نتیجہ ہے ۔کانگریس کے سیاست دانوں پر ہجوم کو بھڑکانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ برسوں بعد صرف دسمبر 2018 میں ہی ان میں سے ایک سجن کمار کو دہلی ہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق موجودہ تشدد سے متاثرہ افراد کے اہل خانہ نے اس تشدد کے لئے مشرا کی آگ لگانے والی تقریر کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں، مشرا نے دہلی پولیس کو سڑکیں صاف کرنے کے لئے تین دن کا الٹی میٹم دیا تھا۔ شمال مشرقی دہلی کے جعفرآباد اور چاند باغ کے علاقے جہاں سی اے اے کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں، انہوں نے کہا تھا اگر سڑکیں خالی نہیں ہوتی ہیں تو ہم آپ کی بات بھی نہیں مانیں گے۔23 فروری کو شروع ہونے والے تین دن کے دوران ، فسادیوں نے سڑکیں سنبھال لیں ، معصوم اور بے قصورافراد کو ہلاک کیا، گھر بار لوٹے اور املاک کو نقصان پہنچایا۔ 1984 میں حملہ آوروں نے سکھوںکے گھروں،دکانوں اورگوردواروںکو نذرآتش کردیا تھا۔ جب یہ تصاویر شمال مغربی دہلی کے منگولپوری کی 57 سالہ ہربنس کور کے موبائل فون پر کھیلی گئیں تو انہیں 1984 کے حملہ آوروں کی بھی یاد آ گئی۔ میٹروریل اورفلائی اوور کے ساتھ دہلی کا منظر تین دہائیوں میں بدل گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دہلی بہت تبدیل ہوچکی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں تک اقلیتوں کا تعلق ہے ، کچھ بھی نہیں بدلا۔وہ اب بھی خوف زدہ رہتے ہیں ۔سنگھ نے کہا کہ تشدد کے خاتمے کے بعد اہل خانہ کوکھو دینے سے زیادہ وہ اپنی بکھری ہوئی زندگی کے ٹکڑوں کو سمٹنے میں مصروف رہتا ہے۔ کئی سوالات ایسے ہوتے ہیںجو ہمیشہ جواب نہیں ہوتے ۔میں اب بھی نہیں جانتا کہ میرے والد کے جسم کا کیا ہوا یہ ایسا سوال ہے جس کا شاید کوئی جواب ہی نہیں ہے۔ نلوہ نے مزید کہا کہ ہر بار امید کی واحد کرن یہ ہوتی ہے کہ ہر برادری کے لوگ اپنے پڑوسیوں کی مدد کے لئے بھی آگے بڑھتے ہیں اور لوگوںکا یہی رویہ ہوتا ہے جو ہمیں ایک نئی امید کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنے کی ہمت فراہم کرتا ہے۔