حیدرآباد ۔ 5 جولائی (سیاست نیوز) تلنگانہ ہائیکورٹ نے جائیداد کے ایک مقدمہ کے باعث جو 25 سال سے زیادہ عرصہ سے زیرالتواء ہے، ایک ایڈوکیٹ پر 50 ہزار روپئے کا سبق آموز جرمانہ عائد کیا۔ ہائیکورٹ نے ایواکیوی انٹرسٹ سپریشن ایکٹ کے عہدیداروں پر بھی مہاجر کی جائیدادوں کے سیل سرٹیفکیٹس جاری نہ کرنے پر جرمانہ عائد کیا جسے 1962 میں ایک خانگی شخص کی جانب سے خریدا گیا تھا۔ ایک عہدیدار کو سینک ویلفیر بورڈ، تلنگانہ یا آرمڈ فورسیس فلیگ ڈے فنڈ تلنگانہ کے حق میں چار ہفتوں کے اندر رقم ادا کرنے کی ہدایت دی گئی۔ عدالت نے خانگی اشخاص کی تین نسلوں کو ہونے والی تکلیف کو محسوس کیا۔ عدالت نے کہا کہ دو نسلوں کو ان کے حقوق کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے متاثر ہونا پڑا اور تیسری نسل بھی اس سیل سرٹیفکیٹ کے ثمرات سے مستفید ہونے کیلئے اس معاملہ میں ہے۔ یہ سیل سرٹیفکیٹ 17 ڈسمبر 1962ء کو بنایا گیا تھا۔ جسٹس سی وی بھاسکر ریڈی نے یو اے ای میں مقیم ابوالخیر نصیرالدین کامران کی جانب سے داخل کردہ درخواست کی سماعت کی جن کی دادی صالحہ فاطمہ بیگم نے ورنگل ڈسٹرکٹ کے تعلقہ جنگاؤں میں کوندارم، بیکل، سمدرالہ، جنگاؤں، میٹور اور مدور (چنا مدور)، سنگاراج پلی، باہری پلی، پاکھال، پالاکرتی، ایریونیو، متھارم، یپوگوڑہ اور رگھوناتھ پلی اور جنگاؤں تعلقہ کے دیگر مقامات پر مہاجر کی مختلف رقبوں کی اراضی رجسٹرڈ سیل سرٹیفکیٹ مورخہ 17 ڈسمبر 1962 کے تحت 38,415 روپئے ادا کرتے ہوئے حاصل کئے تھے۔ یہ جائیدادیں صالحہ کے بھائیوں کی ہیں جنہوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان کو ہجرت کی تھی جبکہ وہ (صالحہ) ہندوستان ہی میں رہیں۔ سیل سرٹیفکیٹس میں غلطی یا لاپرواہی سے تقریباً 43 ایکر اراضی کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد سے وہ اور ان کے قانونی ورثاء ہر دفتر سے رجوع ہوئے۔ ان کے خلاف اس میں تیسرے فریق کے شامل ہونے کے ساتھ یہ مسئلہ ہائیکورٹ میں پہنچا۔ 2000 میں ہائیکورٹ کی ایک ڈیویژن بنچ نے درخواست گذار کو عہدیدار مجاز سے رجوع ہونے کی ہدایت دی تھی جنہوں نے 2002ء میں مزید احکام تک اس اراضی سے متعلق جوں کا توں موقف کی ہدایت دی تھی۔ تاہم مزید احکام اب تک جاری نہیں کئے گئے۔