نئی دہلی: سپریم کورٹ نے مغربی بنگال میں 25000 اساتذہ اور دیگر عملے کی تقرریوں کو منسوخ کرنے کے کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے کوجمعرات کے روز برقرار رکھا۔چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو برقرار رکھا جس میں سلیکشن کے پورے عمل کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔اپنے فیصلے میں، بنچ نے مغربی بنگال کے اسکولوں میں اساتذہ اور دیگر عملے کے عہدوں پر بھرتی کے پورے عمل کو “آلودہ” اور “اصلاحات سے باہر داغدار” قرار دیا۔عدالت نے کہا کہ انتخاب کا پورا عمل ہیرا پھیری اور دھوکہ دہی سے داغدار تھا اور اس میں اصلاحات ممکن نہیں ہے ۔عدالت نے کہا کہ اس عمل کے تقدس اور ساکھ کو تباہ کردیاگیا ہے ایسی صورت حال میں داغدار امیدواروں کی خدمات ختم کرنے کے حکم میں مداخلت کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے ۔بنچ نے کہاکہ چونکہ تقرریاں دھوکہ دہی اور جعلسازی کے ذریعہ کی گئی ہیں، اس لئے ہمیں مداخلت کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ملتی ہے ۔تاہم سپریم کورٹ نے کچھ ہدایات میں ترمیم کی ہے ۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ جو امیدوار پہلے کہیں اور ملازمت کر رہے تھے انہیں اپنے سابقہ عہدوں پر واپس آنے کی اجازت ہوگی۔ عدالت نے ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ تین ماہ کے اندر نئے انتخاب کا عمل شروع کرے ۔ہائی کورٹ کی ہدایت پر سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کی طرف سے کی گئی تحقیقات میں مغربی بنگال کے اس وقت کے وزیر تعلیم پارتھا چٹرجی اور دیگر کو گرفتار کیا گیا تھا اور بھاری مقدار میں نقدی برآمد کی گئی۔
سپریم کورٹ نے 7 [؟][؟]مئی 2024 کو 22 اپریل 2024 کے کلکتہ ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگادی تھی، جس میں مغربی بنگال کے سرکاری اور سرکاری امداد یافتہ اسکولوں میں 25,000 سے زیادہ اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی تقرریوں کو منسوخ کردیاگیاتھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ریاست کی ممتا بنرجی حکومت کے لیے بڑا جھٹکا مانا جا رہا ہے ۔