40 اسمبلی حلقوں میں مسلمان بادشاہ گر، تائید حاصل کرنے بی آر ایس اور کانگریس میں دوڑ

,

   

مسلم ووٹ کیلئے کے سی آر کا مجلس پر انحصار، کانگریس کو مخالف حکومت لہر پر بھروسہ، مجلس کے مخالف تیور سیاسی حلقوں میں موضوع بحث

رشید الدین
حیدرآباد۔/5 جولائی : کرناٹک اسمبلی چناؤ نتائج کے بعد تلنگانہ میں مسلم ووٹ کی اہمیت میں اضافہ ہوچکا ہے۔ برسراقتدار بی آر ایس اور اہم اپوزیشن کانگریس دونوں کرناٹک کے تجربہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کی تائید حاصل کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہوچکے ہیں۔ کانگریس اور بی آر ایس کو اقتدار کیلئے مسلمانوں کی تائید ضروری ہے تو دوسری طرف تلنگانہ میں بہتر مظاہرے کے ذریعہ بادشاہ گر کا موقف حاصل کرنے کا خواب دیکھنے والی بی جے پی مسلم ووٹ سے خوفزدہ ہے۔ کرناٹک میں مسلمانوں کی کانگریس کے حق میں متحدہ رائے دہی نے بی جے پی کو بدترین شکست سے دوچار کردیا۔ جنتا دل سیکولر کی موجودگی کے باوجود مسلمانوں نے کانگریس کی تائید کرتے ہوئے ووٹ کی تقسیم کی بی جے پی کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔ اب جبکہ تلنگانہ اسمبلی انتخابات آئندہ چار ماہ میں منعقد ہوں گے، بی آر ایس اور کانگریس کی نظر ایسے 40 اسمبلی حلقہ جات پر ہے جہاں مسلم رائے دہندے فیصلہ کن موقف رکھتے ہیں۔ ان 40 اسمبلی حلقہ جات میں مسلمان متحدہ طور پر جس پارٹی کی تائید کریں اس کی کامیابی یقینی ہوگی۔ کانگریس کو کرناٹک کی طرح مخالف حکومت لہر کے نتیجہ میں مسلمانوں کی تائید کا بھروسہ ہے جبکہ بی آر ایس نے مسلمانوںکے ووٹ حاصل کرنے کیلئے اپنی حلیف جماعت مجلس سے مدد طلب کی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق مجلسی قیادت کی جانب سے زائد نشستوں پر مقابلہ کا اشارہ دیئے جانے کے بعد چیف منسٹر کے سی آر نے مجلسی قیادت سے قربت رکھنے والے پارٹی قائدین اور عوامی نمائندوں کو متحرک کردیا ہے۔ مجلس کو گذشتہ اسمبلی انتخابات کی طرح اپنی مخصوص نشستوں پر مقابلہ کرنے اور باقی حلقہ جات میں بی آر ایس کی تائید کیلئے آمادہ کرنے کی مساعی جاری ہے۔ چیف منسٹر کی جانب سے پیشکش کی گئی کہ مجلسی حلقہ جات میں کمزور امیدواروں کو میدان میں اُتارا جائے گا تاکہ مجلس کے امیدواروں کی کامیابی یقینی ہوجائے۔ سابق میں بھی درپردہ مفاہمت کے تحت پرانے شہر کے 7 اسمبلی حلقہ جات میں بی آر ایس نے کمزور امیدوار کھڑا کئے تھے۔ گذشتہ انتخابات میں مجلس نے 8 نشستوں پر مقابلہ کیا تھا۔ مجوزہ چناؤ میں مجلسی قیادت نے اگرچہ نشستوں کی تعداد ظاہر نہیں کی ہے لیکن سیاسی حلقوں میں پیش قیاسی کی جارہی ہے کہ مجلس تقریباً 20 نشستوں پر امیدوار کھڑے کرے گی۔ نشستوں کی تعداد کے بارے میں فیصلہ انتخابی اعلامیہ کی اجرائی کے بعد کیا جائے گا لیکن مسلمانوں کے ووٹ کی اہمیت کے پیش نظر کے سی آر نے ابھی سے مصالحت کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر نے اپنے بااعتماد قائدین اور سیاسی مشیروں سے مسلم ووٹ کی اہمیت پر بات چیت کی ہے۔ مشاورت کے دوران چیف منسٹر کو مشیروں نے بتایا کہ کانگریس سے مقابلہ اس مرتبہ کانٹے کا رہے گا اور اگر گذشتہ دو انتخابات کی طرح مسلمانوں کی اکثریت بی آر ایس کا ساتھ دے گی تو اقتدار کی ہیٹ ٹرک کی جاسکتی ہے۔ چیف منسٹر کو مسلمانوں میں پائی جانے والی ناراضگی سے آگاہ کیا گیا اور 12 فیصد تحفظات کے وعدے کی عدم تکمیل کی نشاندہی کی گئی۔ اقلیتی بہبود کی اسکیمات پر عمل آوری میں سُست روی اور بجٹ کی عدم اجرائی سے مسلمانوں میں حکومت کے تئیں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے جذبات سے خود کو ہم آہنگ کرنے کیلئے مجلس کی قیادت نے ابھی سے مخالف تیور اختیار کئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چیف منسٹر نے کسی بھی صورت میں مجلس کو بی آر ایس کے حق میں ہموار کرنے پر زور دیا ہے تاکہ کم از کم 30 اسمبلی حلقہ جات میں مسلمانوں کی تائید سے کامیابی حاصل کی جاسکے۔ اگر 30 حلقہ جات میں مسلمان تائید کریں گے تو باقی 30 تا 35 حلقہ جات میں دلتوں اور پسماندہ طبقات کی تائید سے کامیابی کا یقین ہے۔ کے سی آر کو دلت، خواتین اور کسانوں پر زیادہ بھروسہ ہے اور ان گروپس کے حق میں اسکیمات کا آغاز کیا گیا ہے۔ حکومت نے 40 اسمبلی حلقہ جات میں مسلم رائے دہندوں کی تعداد اور گذشتہ دو انتخابات میں رائے دہی کے فیصد اور رجحان کے بارے میں رپورٹ طلب کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر نے یکساں سیول کوڈ کے مسئلہ پر قائدین کو بیان بازی سے گریز کی ہدایت دی ہے۔ بی آر ایس کی جانب سے یکساں سیول کوڈ کے بارے میں حکومت کی جانب سے مسودہ کی پیشکشی کے بعد ہی موقف کا اظہار کیا جائے گا تاکہ مسلمانوں کی ناراضگی سے بچ سکیں۔ دوسری طرف کانگریس پارٹی انتخابی منشور میں مسلمانوں کیلئے اہم اعلانات کا منصوبہ رکھتی ہے تاکہ مسلم ووٹ بینک کو بی آر ایس سے منتقل کیا جائے۔ کانگریس کو یقین ہے کہ حکومت کے خلاف مسلمانوں کی ناراضگی سے فائدہ ہوگا اور نہ صرف اسمبلی بلکہ لوک سبھا انتخابات میں بھی مسلمان کانگریس کی تائید کریں گے۔ مسلمانوں کو کانگریس سے قریب لانے کیلئے کانگریس ہائی کمان نے حکمت عملی تیار کی ہے اور صدر پردیش کانگریس ریونت ریڈی کو انتخابی منشور کے امور طئے کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔