برلن ۔ 4 نومبر (ایجنسیز) انسانیت کیلئے چونکا دینے والے انکشاف میں عالمی تنظیم ’’ سیو دی چلڈرن‘‘نے بتایا ہے کہ گذشتہ سال دنیا بھر میں تقریباً 52 کروڑ بچے مسلح تنازعات کے علاقوں میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔تنظیم کی برلن میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق یہ تعداد 2023ء کے مقابلے میں 4 کروڑ 70 لاکھ زیادہ ہے، جو کہ 2005ء سے اس نوعیت کے تجزیوں کے آغاز کے بعد اب تک کی بلند ترین سطح ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا کا ہر پانچواں بچہ کسی نہ کسی مسلح تنازعہ سے متاثر ہے۔تجزیے میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ سال بچوں کے خلاف 41 ہزار 763 جرائم ریکارڈ کیے گئے، جو 2023ء کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہیں۔ یہ بھی ایک افسوسناک عالمی ریکارڈ ہے۔رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ان جرائم میں سے نصف سے زائد صرف چار تنازعات والے خطوں میں ہوئے؛ جن میں سرفہرست مقبوضہ فلسطینی علاقے، جمہوریہ کانگو، نائجیریا اور صومالیہ شامل ہیں۔ مجموعی طور پر گذشتہ سال دنیا بھر میں 61 مسلح تنازعات ریکارڈ کیے گئے۔جرمنی میں تنظیم ’’ سیو دی چلڈرن‘‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر فلورین ویسٹفال نے کہا کہ یہ صورتحال عالمی برادری کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ان کے مطابق “دنیا میں بڑھتی ہوئی عسکری دوڑ کے درمیان فوری سیاسی اقدام کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ بچوں کا تحفظ عالمی سکیورٹی پالیسی کا بنیادی مرکز ہونا چاہیے۔انہوں نے اس بات کو شرمناک قرار دیا کہ کئی ممالک اسلحے پر بچوں کے تحفظ سے کہیں زیادہ رقم خرچ کر رہے ہیں۔تنظیم نے بتایا کہ اس تحقیق میں ناروے کے اوسلو میں قائم انسٹیٹیوٹ برائے امن تحقیق (برو) اور اقوام متحدہ کے اعدادوشمار سے مدد لی گئی۔ تنازعہ زدہ علاقہ اْس مقام کو کہا گیا ہے جو کسی جنگی واقعے سے کم از کم پچاس کلومیٹر کے دائرے میں واقع ہو۔