سوتانو گرو
عصر حاضر میں ایک شخصیت نے ممکنہ طور پر گاندھی جی کی جگہ ایک انتہائی پسندیدہ ہستی کے طور پر لے لی ہے جو شائد کبھی کوئی غلطی نہیں کرسکتے ۔ جس طرح گاندھی جی کو بابائے قوم سمجھا جاتا ہے اسی طرح انہیں بھی ہندوستانی آئین کا معمار کہا جاتا ہے ۔ اس شخصیت یا اس کے کاموں ‘ تخیلات اور تقاریر پر تنقید کرنا آج کے دور میں متنازعہ ہوسکتا ہے ۔ میں بات کر رہا ہوں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی ۔ ڈاکٹر امبیڈکر آزادی سے قبل اور بعد کے ہندوستان کے سب سے زیادہ پسندیدہ کرداروں میں سے ایک ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ زیادہ تر لوگ اس بات کو نہ جانتے ہوں اور نہ ہی اس کا انہیں کوئی ادراک ہو لیکن وہ حالیہ دنوں میں سب سے زیادہ دلچسپ مباحث میں سے ایک سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔
انفوسیس کے بانیوں میں سے ایک نارائن مورتی نے ایک سے زائد بار وکالت کی ہے کہ نوجوان ہندوستانیوں کو ہفتے میں 72 گھنٹے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ صرف اس لئے نہیں کہ انہیں پیشہ ورانہ کیرئیر بنانا ہے بلکہ ہندوستان کو مزید کامیاب عصری معیشت کے طور پر ترقی دینا ہے ۔ اسی موضوع پر امبیڈکر کے خیالات ملائے جائیں ۔ کیوں ؟ ۔ ایسا اس لئے کیونکہ بابائے دستور اور ذات پات کی بہتری کے چمپئن بننے سے قبل امبیڈکر ہندوستان میں عصری لیبر قوانین کے معمار تھے ۔
امبیڈکر 1942 سے 1946 تک ہندوستانی کابینہ میں وزیر لیبر تھے ۔ یہ انگریزی سامراج کا دور تھا اور کابینہ وائسرائے ہند کو رپورٹ کرتی تھی ۔ ان برسوں کے دوران امبیڈکر نے ایسے قوانین اور اصلاحات تیار کئے تھے جو اب بھی ہماری لیبر قوانین کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اگر کوئی اقل ترین اجرتوں کی بات کرے یا پراویڈنٹ فنڈ کی بات کرے یا پھر ملازمتوں سے محرومی پر مباحث ہوں ان کا نام از خود ہی جڑ جاتا ہے ۔ کسی ورکر کو زیادہ سے زیادہ کتنے گھنٹے کام کرنا چاہئے اس پر بھی امبیڈکر کی چھاپ ہے ۔
نارائن مورتی یومیہ 12 گھنٹے کی بات کرتے ہیں۔ امبیڈکر نے قوانین منظور کرتے ہوئے یومیہ کام کے گھنٹوں کو 14 سے گھٹا کر 8 کردیا تھا ۔ یہ اصلاحات جیسا کہ پلے بھی تذکرہ کیا جاچکا ہے تیار کی جاچکی تھیں تاہم انہیں منظور نہیں کیا گیا تھا جب ہندوستان پرا نگریزوں کی حکومت تھی ۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں بہت کچھ صنعتی تنازعات قانون 1947 میں شامل ہوں جسے انگریزوں کے ہندوستان سے جاتے ہی منظور کیا گیا تھا ۔ ایسے میں لیبر قوانین اور اصلاحات ہندوستانی دستور سے بھی پہلے کے ہیں۔ جب دستور میں آگے بڑھنے اور ترقی کو یقینی بنانے والے قوانین اور پالیسیوں کو شامل کیا گیا تو یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آیا اس کے مطلوبہ اثرات برآمد بھی ہوئے یا نہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے ۔ ایک بڑی سطح پر ہمیں پروگریسیو لیبر قوانین کے ورکرس کے حالات پر مرتب ہونے والے اثرات پر نظر ڈالنی چاہئے ۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہائر ۔ اینڈ ۔ فائر کی پالیسی ندارد ہے ۔ کوئی بھی کمپنی یا فیکٹری جو 100 سے زائد ملازمین رکھتی ہے اسے بند کرنے کیلئے رسمی منظوریوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ درخواست کم از کم چھ ماہ قبل دی جانی چاہئے ۔ فطری بات ہے کہ ان قوانین کا مقصد ورکرس کی مدد کرنا تھا ۔ یہ تاثر عام تھا کہ سرمایہ دار تاجر عادتا دنیا بھر میں مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں اور انہیں نامعقول بہانوں کے ساتھ ملازمت سے نکال دیتے ہیں۔
تاہم مطلوبہ اثر اس کے برعکس تھا ۔ دو باتیں ہوئیں۔ تاجروں نے مستقلا لیبر پر مبنی طریقہ کار اختیار کرنے کی بجائے سرمایہ پر مبنی رجحان اختیار کیا ۔ ایسا جزوی طور پر ٹکنالوجی کے ذریعہ خاص طور پر مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں کیا گیا ۔ ہندوستان اور بیشتر مشرقی ایشیاء کیلئے جن میں ترقی کا سفر 1960 کی دہائی میں شروع ہوا لیبر ایک اہم ذریعہ تھا اور پیداوار کا اضافی عنصر بھی تھا ۔ جاپان اور جنوبی کوریا سے ملیشیا اور چین جیسی اقوام نے لیبر کو مینوفیکچرنگ کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال کیا ۔
ہندوستان نے ایسا نہیں کیا کیونکہ تاجر بڑی اور وسیع فیکٹریاں قائم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے جہاں ہزاروں افراد ملازم ہوں ۔ یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے مشرقی ایشیائی معیشتوں کے برخلاف ہندوستان مینوفیکچرنگ میں پیچھے رہ گیا ۔ اس منظر کو دیکھنے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہندوستانی تاجروں نے زیادہ مزدور نہیں رکھے ۔ چاہے ٹکنالوجی کے ساتھ ہو یا اس کے بغیر ہو ۔ ایسا امکانی طور پر لیبر مسائل کی وجہ سے ہوا ۔ یہ حقیقت ہے کہ دوسرے قوانین جو توسیع اور ترقی کو روکتے ہوں ان کی وجہ سے بڑی فیکٹریاں لگانے کے منصوبے متاثر ہوئے ۔
اس کا لازمی اثر زیادہ عجیب تھا ۔ ہم ٹوتھ پیسٹ سے صابن اور شیمپو تک برانڈیڈ خریدتے ہیں۔ دوسری اشیاء کیلئے بھی یہی رجحان ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں اور یہ واجبی بھی ہے کہ چونکہ یہ بڑے تاجر گھرانوں نے بنائے ہیں تو انہوں نے شائد بڑی فیکٹریوں میں انہیں تیار کیا ہو ۔ یہ درست نہیں ہے ۔ آج بھی ان اشیاء کی تیاری ایم ایس ایم ایز تک محدود ہے جہاں عمدا 100 سے زائد ورکرس کو ملازم رکھنے سے گریز کیا جاتا ہے تاکہ قانونی لیبر راڈار سے بچاجاسکے ۔ ظاہر ہے کہ ایسا اصلاحات سے قبل کے قوانین کی وجہ سے ہوتا ہے اور چھوٹی یونٹوں سے حصول نے اس عمل کو فروغ دیا ہے ۔ اس سے جزوی طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں بڑے پلانٹس میں کم تعداد میں ورکرس ہوتے ہیں۔ ایم ایس ایم ایز کیلئے زیادہ تر کام یہیں ہوتا ہے اور یہیں سے مینوفیکچرنگ کا بڑا حصہ آتا ہے ۔ یہ بات ٹیکسٹائیل شعبہ میں واضح ہے ۔ یہ شعبہ دعوی کرتا ہے کہ وہ زراعت کے بعد سب سے زیادہ افراد کو روزگار دیتا ہے ۔ پانچ دہوں تک ماڈرن فیکٹریز میں بڑے پیمانے پر ملازمتیں دستیاب نہیں رہیں اور اب بھی ایسا ہی ہے ۔ بیشتر ہندوستانی غیر رسمی اور غیرمنظم شعبہ میں کام کرتے ہیں ۔
سابقہ کالمس میں میں نے ذکر کیا کہ کس طرح سے ڈی ایم کے کی حکومت نے ٹاملناڈو میں ورکرس کو یہ آزادی اور موقع دیا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو ایک دن میں 12 گھنٹے کام کرسکتے ہیں۔ ہزاروں خواتین اور خاص طور پر وہ جو آئی فون فیکٹریز میں کام کرتی ہیں انہوں نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے ۔ بالآخر اس کا مطلب بہت زیادہ ماہانہ آمدنی تھا جو انہیں اوور ٹائم سے حاصل ہوتی ہے ۔ تاہم ناقدین اور لیبر فورس کے نام نہاد محافظین نے اس کی شدت سے مخالفت کی ۔ اس قانون سے دستبرداری اختیار کرلی گئی ۔ اصل بات یہ ہے کہ نارائن مورتی کے لازمی متعین وقت کے برخلاف ورکرس کو بسا اوقات یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ آیا وہ 8 گھنٹے کام کرنا چاہتے ہیں یا 12 گھنٹے ۔
یہیں اصل بات اور اصل نکتہ ہے ۔ جب لیبر اصلاحات کی تاریخ دیکھی جائے تو ورکرس کی حفاظت کیلئے قابل ستائش اقدامات کئے گئے تاہم یہ سب کچھ کاغذ پر ہی رہے ۔ میں آپ کو ایک اور مثال دیتا ہوں جس سے پتہ چلے کہ ان قوانین کو کس طرح توڑا مروڑا جاتا ہے اور ان کا مذاق بنایا جاتا ہے ۔ خانگی اسکولس میں اساتذہ کا تقرر ان تنخواہوں پر کیا جاتا ہے جو ان کے کنٹراکٹس میں درج ہوتی ہیں۔ تنخواہ کے دن تاہم انہیں رقم دی جاتی ہے اور رسید پر دستخط کرنے کو کہا جاتا ہے ۔ رقم میں اور رسید پر درج رقم میں تقریبا 50 تک کا بھی فرق ہوتا ہے ۔ در اصل ٹیچرس کو نصف تنخواہیں دی جاتی ہیں۔
ٹیچر کے پاس کوئی اور راستہ نہیں رہتا ۔ اگر وہ رسید پر دستخط سے انکار کریں تو ان کی نوکری چلی جائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ چار نئے لیبر ضابطے جو عمل میں آئے ہیں ان پر موثر ڈھنگ سے عمل کیا جائے ۔ اس بات کو لازمی کیا جائے کہ ہر کسی کو کنٹراکٹ حاصل ہو یا پھر ایمپلائمنٹ لیٹر دیا جائے یا کچھ کمپنیوں کو ضروری ہے کہ وہ دو فیصد خرچ کرتے ہوئے غیرمنظم ورکرس کو تحفظ فراہم کرے وہ کافی نہیں ہے ۔ ایسا اس لئے کیونکہ بیشتر لیبر قوانین گذشتہ 100 یا زائد برسوں سے صرف کاغذ پر ہیں اور ان پر مناسب انداز میں عمل آوری نہیں ہوئی ۔
غیرمنظم شعبہ میں 600 ملین سے زائد ورکرس کام کرتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی مدد کی جانی چاہئے اور ضابطوں کے تحت ان کا تحفظ کیا جانا چاہئے ۔ انہیں حکومتوں کی مدد کی ضرورت ہے نئے قوانین یا ضابطوں کی ضرورت نہیں ہے ۔ تاہم ان پر بہتر ڈھنگ سے عمل آوری ہوسکے ۔