( سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم)
مسلمانوں کی غریبی برقرار، قیادتوں کے اثاثہ جات میں اضافہ،الیکشن سے عین قبل امدادی اسکیمات کا اچانک خیال، مستقل خوشحالی کے وعدے نظرانداز، بجٹ کی منظوری اور خرچ میں نمایاں فرق، 12 فیصد مسلم تحفظات کا کیا ہوا؟
حیدرآباد۔یکم ؍ اکٹوبر، ( سیاست نیوز) تلنگانہ میں مسلم اقلیت کی ترقی کے بارے میں حکومت اور اس کی حلیف جماعت کی جانب سے بلند بانگ دعوے کئے جارہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دعوے محض انتخابی حربے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اقلیتوں کی ترقی کیلئے اگر حقیقی معنوں میں حکومت نے بجٹ خرچ کیا ہے تو پھر اس کا اظہار اقلیتوں کی زندگی سے ہونا چاہیئے۔ اقلیتوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی جوں کی توں برقرار ہے اور ان کے معیارِ زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ایسے میں اقلیتوں کیلئے حکومت کے دعوے ناقابل یقین تصور ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمبلی انتخابات سے عین قبل حکومت اور اس کی حلیف نے اقلیتوں کی پسماندگی پر مگر مچھ کے آنسو بہانے شروع کردیئے ہیں۔ مختلف اسکیمات کا حوالہ دیا جارہا ہے لیکن یہ اسکیمات محض مسلم اقلیت کیلئے نہیں بلکہ دیگر طبقات کیلئے بھی عمل کی جارہی ہیں۔ اسکالر شپ ، فیس بازادائیگی، شادی مبارک، اوورسیز اسکالر شپ جیسی اسکیمات صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ دیگر طبقات کیلئے بھی ان پر عمل کیا جارہا ہے بھلے ہی بعض اسکیمات کے نام علحدہ کیوں نہ ہوں۔ اقلیتوں سے ہمدردی کا دعویٰ کرنے والے اس سوال کا جواب دیں کہ دلتوں کو 10 لاکھ روپئے اور مسلمانوں کو محض محدود تعداد میں ایک لاکھ روپئے کی امداد کہاں کا انصاف ہے۔ مندر کے پجاریوں کو گورنمنٹ اسکیل سرکاری ملازمین کی طرح دیا جارہا ہے جبکہ ائمہ اور موذنین کو ماہانہ 5 ہزار روپئے کا اعزازیہ وہ بھی پانچ ماہ سے ادا نہیں کیا گیا۔ گذشتہ پانچ برسوں میں بینکوں سے مربوط سبسیڈی اسکیم کے تحت قرض جاری نہیں کیا گیا جبکہ ڈھائی لاکھ سے زیادہ درخواستیں داخل کی گئیں۔ الیکشن کی تاریخ سے عین قبل محدود تعداد میں مسلمانوں کو ایک لاکھ روپئے کی امداد اور خواتین کیلئے سلائی مشینوں کی تقسیم کا خیال آیا۔ گذشتہ 9 برسوں سے بی آر ایس حکومت برسراقتدار ہے لیکن مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کے وعدہ پر عمل آوری کا خیال نہیں آیا۔ ڈبل بیڈ روم مکانات اور دیگر اسکیمات میں مسلمانوں کو 12 فیصد حصہ داری اور ایس سی، ایس ٹی طبقات کی طرح مسلمانوں کو بھی تمام مراعات فراہم کرنے جیسے اعلانات کاغذی ثابت ہوئے حالانکہ یہ وہ اعلانات ہیں جن پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو غریب اور متوسط طبقات کا معیارِ زندگی بلند ہوگا۔ وقتی طور پر معمولی امداد کی فراہمی سے مسلم خاندانوں کا بھلا نہیں ہوگا۔ حکومت گذشتہ 9 برسوں میں اقلیتی بہبود پر 12 ہزار کروڑ خرچ کرنے کا دعویٰ کررہی ہے لیکن مسلمانوں کے حالات میں کوئی سدھار دکھائی نہیں دیتا۔ مطلب صاف ہے کہ اگر حکومت کے 12 ہزار کروڑ خرچ کے دعویٰ کو قبول بھی کرلیا جائے تو یہ رقم ان اسکیمات پر خرچ کی گئی جن سے مسلمانوں کی معیشت اور خوشحالی کا راست تعلق نہیں ہے۔ غریب لڑکیوں کی شادی کیلئے امداد کی فراہمی کی اسکیم کانگریس دور حکومت میں الگ انداز میں موجود تھی۔ کے سی آر حکومت نے ابتداء میں 51 ہزار اور پھر بعد میں ایک لاکھ روپئے کی امداد کا اعلان کیا ہے لیکن یہ امداد شادی کی حد تک موقتی ثابت ہوگی خاندان کو مستقل کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اسکالر شپ، فیس باز ادائیگی اور اوورسیز اسکالر شپ کے ہزاروں کروڑ کے بقایا جات کی اجرائی باقی ہے۔ 9 برسوں میں 12 ہزار کروڑ کا خرچ وہ بھی 50 لاکھ کی آبادی پر تو یہ’’ سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم‘‘ کے مصداق ثابت ہوگا۔ گذشتہ 9 برسوں میں 12 ہزار کروڑ خرچ کے باوجود تلنگانہ میں مسلمان غریب کیوں ہیں؟۔ تمام ایسے پیشہ جات جو عام طور پر سماج میں غریب اور پسماندہ طبقات سے منسوب ہیں ان تمام سے مسلمان وابستہ ہیں۔ مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کرنے والے کئی دہوں سے اس بات پر فخر کررہے ہیں کہ ان کی پارٹی ’’ رکشہ والوں اور غریبوں کی ‘‘ نمائندہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت سے مسلمانوں کے حق میں کامیاب نمائندگی کی جارہی ہے تو پھر مسلمانوں کے ہاتھ میں آج بھی رکشہ، آٹو اور پنکچر کی دکان کیوں ہے؟۔ عوام کا کہنا ہے کہ مسلمان تو غریب ہی رہے لیکن قیادتوں کے اثاثہ جات ہزاروں کروڑ کے ہوگئے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ قیادتوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں کی بھی ترقی ہوتی لیکن ملک کی سیاست میں اُلٹی گنگا بہتی ہے جہاں غریبوں کے نام پر قیادتوں کی زندگی میں خوشحالی آتی ہے۔ غریب کا نعرہ لگاکر آخر کب تک قیادتیں اپنے آرام و آسائش اور اثاثہ جات میں اضافہ کرتی رہیں گی۔ گذشتہ تین انتخابات میں مسلم قائدین کی جانب سے اثاثہ جات کے بارے میں الیکشن کمیشن میں جو تفصیلات داخل کی گئیں وہ خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ قیادتوں نے غریبوں کے نام پر اپنے محل تیار کئے اور اثاثہ جات میں اضافہ ہوا۔