آئمہ و موذنین کو درپیش معاشی مسائل

   

مدد کیلئے منظم اقدامات کی ضرورت ، قلیل تنخواہوں سے گذر بسر مشکل
حیدرآباد۔7اپریل۔(سیاست نیوز) دو برس ماہ رمضان المبارک کے دوران لاک ڈاؤن اور معاشی مسائل کے بعد اب حالات معمول کی سمت آتے نظرا ٓرہے ہیں لیکن ان حالات میں آئمہ و موذنین کو درپیش معاشی مسائل کا بھی جائزہ لیتے ہوئے ان کی مدد کے لئے منظم اقدامات کی ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے۔ آئمہ و موذنین کی تنخواہوں کے مسئلہ پر عام طور پرماہ رمضان میں مختلف مقامات ‘ نشستوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر طویل بحث جاری ہے اور آئمہ و موذنین اور خطیب حضرات کو ادا کیئے جانے والے مشاہرہ کے سلسلہ میں یہ کہا جا رہاہے انہیں سالانہ 2 فیصد بھی مشاہرہ میں اضافہ نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس تنخواہ میں بہتر زندگی گذارتے ہوئے امامت بھی کریں اور مسجد کی خدمت بھی کریں ۔مساجد کی انتظامی کمیٹیوں کی جانب سے آئمہ کی قلیل تنخواہوں کا مسئلہ سوشل میڈیا پر مختلف تنظیموں کی جانب سے پورے شد و مد کے ساتھ اٹھا یا جا رہا ہے اور یہ مسئلہ کافی سنگین ہے کیونکہ آئمہ و موذنین کی خدمات کی اجرت کے نام پردیا جانے والا مشاہرہ اور مساجد کے دیگر اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو سب سے کم خرچ ان دو اہم ذمہ داروں کی تنخواہوں پر ہوتا ہے ۔ مساجد میں خدمات انجام دینے والے آئمہ و مؤذنین کی طرز زندگی کو بہتر بنانے کے معاملہ میں نہ ہی محکمہ اقلیتی بہبود سنجیدہ ہے اور نہ ہی شہر و ریاست کی مساجد کمیٹیوں اور متولیوں کی جانب سے اس مسئلہ کے مستقل حل کے سلسلہ میں اقدامات کئے جاتے ہیںاور لاکھوں بلکہ کروڑوں روپئے کے اخراجات سے تعمیر کی جانے والی مساجد میں خدمات انجام دینے والے آئمہ ‘ خطیب اور موذنین کی تنخواہیں انتہائی معمولی ہیں اور بعض مقامات پر تو یہ تنخواہیں 5000تا6000 تک محدود ہیں اور زیادہ سے زیادہ آئمہ و موذنین کو ادا کی جانے والی تنخواہیں22 ہزار روپئے تک ہیں جو بہت ہی کم مساجد میں ہے۔آئمہ مساجد کا کہناہے کہ وہ پیشہ امامت سے وابستہ ہیں اور یہ وصف پیغمبری ہے لیکن ان کی ضروریات بھی ہوتی ہیں اس کا خیال کیا جانا چاہئے لیکن اکثر ایسا نہیں ہوتا جبکہ شہر حیدرآباد و سکندرآباد میں پیشہ امامت و موذن سے وابستہ محترم شخصیات کو کوئی تعطیل نہیں ہے اور نہ ہی انہیں کوئی بااجرت تعطیل حاصل ہوتی ہے اس کے باوجود بھی ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔پیشہ امامت سے وابستہ اکثریت متوسط اور غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے حفاظ اور علماء کی ہوتی ہے لیکن ان کا مقام و مرتبہ ان کی اقتداء میں کھڑے ہونے والوں سے کافی بلند ہے اس بات کا احساس کرنا امت کی ذمہ داری ہے صرف کمیٹی پر انحصار کرتے ہوئے مسئلہ کو نظر انداز کیا جانا درست نہیں ہے اسی لئے آئمہ و موذنین کے مقام و مرتبہ کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ان کی ضروریات کی تکمیل اور انہیں آرام دہ زندگی کی فراہمی پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے ۔م