شنکر اَرنیمیش
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں سنگھ پریوار کی تنظیم آر ایس ایس، حکومتی معاملات میں کسی نہ کسی طرح مداخلت کررہی ہے اور اسی کی پالیسیوں اور ایجنڈوں پر عمل آوری کی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر آر ایس ایس سے ملحقہ سودیشی جاگرن منچ (ایس جے ایم) نے مودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کرپٹو کرنسی پر پابندی عائد کردے۔ ایس جے ایم نے ریزرو بینک آف انڈیا پر زور دیا کہ وہ نجی ڈیجیٹل کرنسی کے ناجائز استعمال کو روکنے کیلئے جلد سے جلد اپنی ڈیجیٹل کرنسی جاری کرے۔ ویسے بھی کرپٹو کرنسیاں کافی عرصہ سے آر بی آئی کے ریڈار پر ہیں اور آر بی آئی پر مختلف گوشوں کی جانب سے دباؤ ڈالا گیا، زور دیا گیاکہ کرپٹو کرنسیوں پر قابو پانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ کرپٹو کرنسی کے مسئلہ کا مرکزی حکومت نے بغور جائزہ لیا اور پھر اس ضمن میں ایک بل کا مسودہ تیار کیا جسے کرپٹو کرنسی اور ریگولیشن آف آفیشیل ڈیجیٹل کرنسی بل 2021ء (کرپٹو کرنسی اور سرکاری ڈیجیٹل کرنسی کو باقاعدہ بنانے سے متعلق بل 2021ء) کا نام دیا گیا، لیکن اس بل کو اب تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ گوالیار میں سودیشی جاگرن منچ کی دو روزہ راشٹریہ سبھا کا انعقاد عمل میں آیا جس میں یہ قرارداد منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں کرپٹو کرنسی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس طرح کی کرنسیوں سے ملک کی مالیاتی مارکٹ یا بازار کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے اور انہیں تسلیم کرنے کا نتیجہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کیلئے مالیہ کی فراہمی کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ ایس جے ایم نے یہ بھی کہا کہ کرپٹو کرنسیوں کے استعمال کی اجازت دینے کے نتیجہ میں چور دروازے سے بیرونی ممالک میں سرمایہ کاری کے مواقع مل سکتے ہیں اور منی لانڈرنگ اور غیرقانونی طور پر رقمی تبادلے عمل میں آسکتے ہیں، تاہم آر ایس ایس کی ملحقہ تنظیم نے یہ بھی کہا کہ بلاگ چین ٹیکنالوجی کو کرپٹو کرنسیوں سے مربوط نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس ضمن میں آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ آر بی آئی کرپٹو کرنسیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے حق میں ہے۔ آر بی آئی نے کرپٹو کرنسیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں لیکن مارچ 2020ء میں سپریم کورٹ نے ان پابندیوں کو ہٹا لیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ریزرو بینک آف انڈیا ، بینکوں کو یہ احکامات جاری نہیں کرسکتا کہ وہ ورچوئل کرنسی کی معاملت نہ کریں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے ساتھ ہی کرپٹو کرنسیوں میں معاملتیں شروع ہوگئیں اور وہ بڑے پیمانے پر شروع ہوئیں۔ اگرچہ کرپٹو کرنسی میں سرمایہ مشغول کرنے والوں کی تعداد سے متعلق کوئی سرکاری اعداد و شمار نہیں ہیں لیکن ایک اندازہ کے مطابق ہمارے ملک کے تقریباً 20 ملین لوگوں نے کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کی ہے۔ سودیشی جاگرن منچ کا اس سلسلہ میں کہنا ہے کہ نہ صرف شہروں بلکہ دیہاتوں میں رہنے والے بھی ورچوئل کرنسیوں کی جانب راغب ہوئے ہیں کیونکہ ان تمام کا احساس ہے کہ ان کرنسیوں میں سرمایہ کاری کرکے فوری طور پر منافع کی شکل میں پیسہ بنایا جاسکتا ہے۔ ایس جے ایم کی قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ کرپٹو کرنسی ایک کرنسی ہے۔ کرنسی کا مطلب ایک ایسا انسٹرومنٹ ہے جو آر بی آئی کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے اور جس کی ضمانت حکومت دیتی ہے جبکہ کرپٹو کرنسی خانگی طور پر جاری کردہ سکے ہوتے ہیں جنہیں قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ کرپٹو کرنسی مجرمین، دہشت گرد، اسمگلرس اور حوالہ چلانے والے لوگ استعمال کررہے ہیں۔ حال ہی میں جب سائبر مجرمین نے ایک کمپیوٹر وائرس کے ذریعہ دنیا بھر میں بے شمار کمپنیوں کے ڈیٹا کو اُڑایا تھا اور بٹ کوائن کی شکل میں جبری رقم دینے کی مانگ کی تھی، تب سے ہی دنیا یہ جان گئی کہ بٹ کوئن کا مجرمانہ استعمال ہورہا ہے۔ کیونکہ ان سائبر مجرمین نے کمپنیوں کے سامنے ڈیٹا کی واپسی کیلئے رقم کی شرط رکھی تھی۔ قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا کہ کرپٹو ایک ایسی کرنسی نہیں جسے قانونی طور پر جائز قرار دیا گیا ہے یا جاری کیا گیا ہے۔ جو لوگ یا ادارے بٹ کوائنس یا دیگر کرپٹو کرنسیاں اپنے پاس رکھتے ہیں، وہ کمپنی یا فرد کی بیالنس شیٹ نہیں بتا سکتے۔ کرپٹو کرنسی انکم ٹیکس ، جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں کی چوری کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ ایس جے ایم کے قومی شریک کنوینر اشونی مہاجن نے ’’دی پرنٹ‘‘ کو بتایا کہ حالیہ عرصہ کے دوران بٹ کوائن اور دیگر قسم کی کرنسیوں کی قدر اور طلب میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور اس طرح کی کرنسیوں میں ملک کا بہت پیسہ لگا دیا گیا ہے۔ یہ ایک تاریک جال ہے، پیسہ کہاں جارہا ہے، کس کے جیب میں جارہا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ قرارداد میں چین کی مثال پیش کی گئی جہاں کرپٹو کرنسیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ان کرنسیوں کے نتیجہ میں برقی قلت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔