شاہ فیصل اور شہلا رشید نے سپریم کورٹ سے درخواستیں واپس لے لیں
نئی دہلی : سپریم کورٹ 2 اگست سے تمام کام کے دنوں میں پیر اور جمعہ کے علاوہ ان درخواستوں پر سماعت کرے گی جس میں سابقہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے مرکز کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے ۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس سنجے کشن کول، سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی اور جسٹس سوریہ کانت پر مشتمل ایک آئینی بنچ نے منگل کو یہ حکم سنایا۔آئینی بنچ 2 اگست کو صبح 10:30 بجے سے سماعت شروع کرے گا۔ بنچ نے قبل ازیں تمام فریقین کو27جولائی تک متعلقہ دستاویزات داخل کرنے کی ہدایت بھی دی ہے ۔تقریباً چار سال قبل 05 اگست 2019 کو مرکزی حکومت نے آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے بعد ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں لداخ اور جموں و کشمیر میں تقسیم کردیا گیا تھا۔سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت عظمیٰ میں مرکزی حکومت کا فریق پیش کیا۔ عدالت نے ان کے اس عرضی کا بھی نوٹس لیا کہ وزارت داخلہ نے نوٹیفکیشن کے بعد جموں و کشمیر کی بدلی ہوئی صورتحال پر 10 جولائی کو ایک اضافی حلف نامہ کے ذریعے عدالت کے سامنے اپنا موقف پیش کیا ہے ۔ مسٹر مہتا نے یہ بھی کہا کہ حلف نامہ کا آئینی سوال پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔سالیسٹر جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ریاست میں موجودہ صورتحال پر کسی بھی طرف سے پیچھے ہٹنے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی ہے ۔آئینی بنچ کے سامنے ایک پارٹی کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عرض کیا کہ حلف نامہ کو میڈیا نے بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا ہے ۔ اس پر بنچ نے کہا کہ مرکز کے حلف نامہ کا آئینی سوالات سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔سپریم کورٹ کے سامنے دوسری طرف کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل مینکا گروسوامی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے کچھ لیڈروں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ لہذا انہیں دستاویزات پر دستخط کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس پر آئینی بنچ نے کہا کہ جہاں تک پارٹیاں بنانے کا تعلق ہے ، براہ کرم یہ سمجھ لیں کہ ہم کسی کو خاموش نہیں کریں گے لیکن وقت کو متوازن کرنا ہوگا۔سماعت کے دوران سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے آئینی بنچ کو بتایا کہ آئی اے ایس افسر شاہ فیصل اور سماجی کارکن شہلا رشید نے اپنی درخواستیں واپس لے لی ہیں۔
