شہریت بل کی منظوری سے حکمراں جماعت کا مستقبل غیریقینی۔ اے ایم سی آر اجلاس سے ڈاکٹر عامر اللہ خان کا خطاب
حیدرآباد ۔ 2 فبروری (پریس نوٹ) ممتاز ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر عامراللہ خان نے کہا کہ آسام میں مشتبہ شہریت کا مسئلہ ہندو مسلم کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ آسامی اور بنگالیوں کے درمیان تنازعہ ہے۔ اسے فرقہ وارانہ خطوط پر نہیں بلکہ قومی دھارے میں رہتے ہوئے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عامراللہ خان آج سلامہ ایجوکیشن ہیلتھ اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کے زیراہتمام آسام کی شہریت اور ذمہ داریوں کے عنوان پر ایک اہم اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ جناب ناظم الدین فاروقی چیرمین سلامہ نے صدارت کی۔ جناب حامد محمد خان امیرجماعت اسلامی تلنگانہ، جناب رحیم الدین انصاری چیرمین اردو اکیڈیمی، ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد اور جناب مشتاق ملک صدر تحریک مسلم شبان نے بھی اس اجلاس سے خطاب کیا۔ ڈاکٹر عامراللہ خان نے کہا کہ آسام میں مشتبہ شہریت کا جو تنازعہ چل رہا ہے وہ کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ مقامی افراد کی اپنی شناخت کے تحفظ کی جدوجہد ہے۔ جاپان نے 200 سال پہلے ایسا ہی کیا تھا جب ماجیس خاندان کے بادشاہ نے اپنی شناخت کے تحفظ کیلئے 100 سال تک جاپان کے دروازے غیرملکیوں کے لئے بند کردیئے تھے اور کسی جاپانی کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک سو سال تک جاپان ساری دنیا سے کٹ کر رہ گیا تھا اور اس نے اس کے باوجود کافی ترقی کی مگر اس کے نقصانات چند برس بعد ظاہر ہوئے۔ جب جاپان نے یوروپ میں تباہی مچائی اور یہ ملک دو عالمی جنگوں کا سبب بنا۔ ایسا ہی بھوٹان نے بھی اپنے دروازے آمدورفت کیلئے بند کردیئے تھے۔ قبائلی علاقوں کا اپنی شناخت کی برقراری کیلئے یہ ایک قدیم نفسیاتی مسئلہ ہے۔ آسام میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ یہاں شہریت کا مسئلہ 1826ء کے بعد سے پیدا ہوا کیونکہ ایک معاہدہ کے تحت یہاں بنگالی کافی تعداد میں آ گئے۔ امیر بنگالیوں نے یہاں کی زمینات خرید لی جس کے بعد آسامیوں کو اپنے ہی وطن میں اجنبیت کا احساس ہونے لگا۔ 1947ء کے بعد سے شہریت کا سوال پیدا ہوا کہ آخر شہری کون؟ وہ جو 1948ء کے بعد اس سرزمین پر پیدا ہوا یا 1955ء یا 1971ء کے بعد کی پیدائش والے۔ ڈاکٹر عامراللہ خان نے کہاکہ شہریت بل حکومت نے متعارف کروایا۔ اگر یہ منظور ہوجاتا ہے تو بی جے پی حکومت کیلئے بہت زیادہ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں کیونکہ اس بل سے سب سے زیادہ متاثر غیرمسلم ہوں گے۔ انہوں نے صبروتحمل کے ساتھ کام لینے کی تلقین کی۔ جناب حامد محمد خان نے کہا کہ مسلم دشمن طاقتوں نے شہریت کے مسئلہ پر سمجھا تھا کہ مسلمانوں کا نقصان ہوگا مگر قدرت جو چاہتی ہے وہی ہوتا ہے۔ آسام میں 40لاکھ افراد اگر حق شہریت سے محروم ہوں گے تو ان میں سے 25 لاکھ غیرمسلم ہوں گے۔ ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد جنہوں نے 25 برس پہلے آسام معاہدات پر پی ایچ ڈی کی تھی۔ تاریخی حوالوں سے بتایا کہ آسام کی صورتحال اتفاقی نہیں ہے بلکہ یہ ایک منظم طریقہ سے تحریک ہے۔ جناب ناظم الدین فاروقی داعی اجلاس نے پاور پوائنٹ کے ذریعہ آسام اور مسلمانوں کے رشتہ کو بیان کیا۔ جناب ضیاء الدین احمد صدر این آر آئیز فورم حال مقیم کینیڈا نے مسلمانوں میں سب سے پہلے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ہم خود آپس میں متفرق ہیں، دوسروں کو موردالزام کیسے ٹھہرا سکتے ہیں۔ جناب سید ساجد علی عباسی نے کہاکہ افسوس اس بات کا ہیکہ سابق صدرجمہوریہ ڈاکٹر فخرالدین علی احمد کے ارکان خاندان کو تک شہریت سے محروم کیا گیا۔ آسام کی سابق چیف منسٹر انورہ تیمور کی شہریت پر بھی سوال کیا گیا۔ یہ دراصل صیہونی ذہنیت ہے۔