پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
آمریت کا آخر کیا معنی و مطلب ہے؟ قانون کے لحاظ سے دیکھا جائے یا قانون کے مطابق آمریت دراصل حکومت کا متضاد حکومت کا مخالف ہے۔ آمریت اور آمرانہ طرز حکمرانی میں قانون کی حکمرانی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو بہت کم ہوتی ہے۔ آمریت تکثریت (کثرت میں وحدت جیسے نظریہ) کا رد کرتی ہے۔ اقتدار کی مرکزیت کی پرزور تائید و حمایت کرتی ہے یعنی آمریت اقتدار کو آمر حکمراں تک ہی مرکوز کرکے رکھ دیتی ہے اسے ہی مرکزیت حاصل ہوتی ہے اور اکثریت یا پھر بعض اوقات ایک شخص کی مرضی نافذ کی جاتی ہے (باالفاظ دیگر مسلط کی جاتی ہے) آمریت کا تعلق اکثر ربر اسٹامپ پارلیمنٹس سے ہوتا ہے جہاں پارلیمنٹ کی اکثر نشستوں پر حکمراں جماعت یا گروہ کا قبضہ ہوتا ہے اور اس طرح کی پارلیمنٹس میں قوانین بھی پیش اور منظور کئے جاتے ہیں۔
بڑی بدبختی کی بات یہ ہیکہ آج کل جمہوری طور پر متحد پارلیمنٹس نے بھی آمرانہ حکومتوں کے تحت اور ان کے اشاروں پر کام کرنے والی پارلیمنٹس کی نقل شروع کرچکی ہیں اور متعدد قوانین پیش اور منظور کررہی ہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ یہ قوانین قانونی جواز و حیثیت کے امتحان میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں۔ ایسے قوانین میری نظر میں یقینا قانونی حیثیت کے امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکتے جس کی تازہ ترین مثال اسرائیلی پارلیمنٹ Knesset میں منظورہ بل ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اس میں قانونی جواز کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس بل میں پارلیمنٹ کی جانب سے بتائے گئے قوانین کی درستگی کا جائزہ لینے کے اختیارات کو محدود کردیا گیا۔
دستور کیا ہے؟ بھارت بھی اس معاملہ میں پیچھے نہیں ہے ایمرجنسی کے دوران جو دستوری ترامیم کئے گئے اور قوانین منظور کئے گئے ان پر انگلیاں اٹھائی جائیں گی (ایمرجنسی 25 جون تا 21 مارچ 1972) نافذ کی گئی تھی مجھے راست طور پر یہ کہنے دیجئے کہ ایمرجنسی کے دوران جو کئی ایک ترمیمات کی گئیں اور قوانین منظور کئے گئے وہ قانونی یا قانونی جواز سے متعلق آزمائش پر پورے نہیں اتریں اس ضمن میں حالیہ عرصہ کے دوران بھارتی پارلیمنٹ میں کی گئی قانون سازی کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں اور ان کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ حکومت دستوریت کے بارے میں ایک تنگ نظریہ رکھتی ہے کہ قانون کو دستور کی کسی واضح مشق کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہئے، لیکن جیسا کہ سپریم کورٹ نے نشاندہی کی ہے کہ ایسی مضمر حدود ہیں جنہیں دور نہیں کیا جائے گا۔ جیسے آئنی اخلاقیات اور تناسب۔ ایک اور حد کی نشاندہی مسٹر ’سہرت پارتھا سارتھی نے موقر انگریزی روزنامہ دی ہندو کی اشاعت مورحہ یکم اگست 2023 میں کی ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے یہ رائے دی ہے کہ ہندوستانی دستور اخلاقی اقدار سے بھرا ہوا ہے اور مرکزی حکومت اور ریاستوں کے مابین تعلقات میں مختلف باریکیوں یا نزاکتوں سے منسلک تقدس کے طور پر حد مقرر کی ہے۔ جاریہ مانسون اجلاس میں کم از کم تین بل ایسے ہیں جو دستوری حدود سے تجاوز کرگئے۔ جنگلات (تحفظ) ترمیمی بل، سال 2001 اور 2021 کے درمیان کل جنگلاتی علاقہ کا احاطہ 675538 مربع کیلو میٹر سے بڑھ کر 713,789 مربع کیلو میٹر ہوگیا۔ زیادہ تر TREE CANOPY کی کشافت گھنا پن 10-40 فیصد ہے (چالیس فیصد سے زیادہ کینوپی کشافت کے ساتھ جنگلات کے احاطہ میں کمی صرف 37251 مربع کیلو میٹر تھی) لیکن ترمیمی بل 40 سال کے فوائد کو پلٹ دیتا ہے۔ جنگل کے طور پر ریکارڈ شدہ لیکن 25 اکتوبر 1980 سے پہلے عدم نوٹیفائیڈزمین اور 12 ڈسمبر 1996 سے پہلے غیر جنگلاتی استعمال کی جانب موڑدی گئی زمین کو خارج کردیا جائے گا۔ یہ استثنیٰ T N Godavaraman کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے، جنگلات کے حقوق ایکٹ 2006 اور NIYAMGIRI HILLS کیس کے فیصلے کے خلاف ہے۔ اراضی 100 کیلو میٹر کے اندر واقع ہے، قومی سلامتی کے لئے خطی منصوبوں کے لئے عالمی سرحدوں سے باہر رکھا جائے گا۔ قانون تحفظات جنگلات 1980 کو کمزور کرنے سے کہیں زیادہ جس انداز میں اس میں ترامیم کی گئیں اس سے آمریت کا پتہ چلتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہیکہ پارلیمنٹس نے اس سل کو غور و خوض کے لئے متعلقہ اسٹینڈنگ کمیٹی سے رجوع نہیں کیا بلکہ پارلیمنٹ کی ایک مشترکہ کمیٹی سے رجوع کیا ہے اور پھر پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے اکثر ارکان نے مذکورہ قانون میں زمین کی کئی ترمیمات کو برقرار رکھنے کی سفارش کی لیکن 6 اپوزیشن ارکان نے شدید اختلاف درج کمزور یا پھر سب نے دیکھا کہ مزید مشاورت کے بغیر اور جنگلاتی علاقوں میں رہنے والوں ماہرین، ماہرین ماحولیات اور مہذب سماج کی تنظیموں کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے بامعنی مباحث کے بغیر بل کو منظور کرلیا گیا) اسی طرح ہم آپ کے سامنے ملٹی اسٹیٹ کوآپریٹیو سوسائٹیز (ترمیمی بل) GNCTD (ترمیمی بل) جیسے متنازعہ بلز کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں۔ ملٹی اسٹیٹ کوآپریٹیو سوسائٹیز (ترمیمی بل) کا جہاں تک سوال ہے مرکزی حکومت کی مقرر کردہ ایک الیکشن اتھاریٹی کئی ریاستوں میں امداد باہمی انجمنوں کے انتخابات کا انعقاد عمل میں لائے گی۔ اس میں ریاستوں کے کردار کو پوری طرح گھٹا دیا گیا ہے۔ حد تو یہ ہیکہ امداد باہمی کی ان انجمنوں اور ان کے ارکان کی شکایات و اعتراضات کا فیصلہ بھی مرکزی حکومت کا مقرر کردہ نگران عہدہ دار کرے گا۔ حکومت ایسے بورڈس کو ختم بھی کرسکتی ہے جسے اس نے قرض دیا ہے یا جس میں حکومت کی حصہ داری ہے۔ یہ بل بھی بغیر کسی معنی خیز بحث کے منظور کرلیا گیا۔ اس طرح ہم نے جمہوریت، خود مختاری، اپنی مدد آپ نامی باہمی اشتراک کے اصولوں کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ اب بات کرتے ہیں GNCTD ترمیمی بل 2023 کی یہ بل لوک سبھا میں منظور کیا گیا۔ اس بل کی مدافعت کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ مودی حکومت کا آرڈیننس سپریم کورٹ کے اس حکم کے عین مطابق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دہلی کے معاملہ میں مرکزی حکومت کو قانون سازی کا حق ہے۔ جہاں تک دہلی کا معاملہ ہے آرٹیکل 239 اے اے دہلی سے متعلق قومی دفعات پیش کرتا ہے۔ اس کے سب آرٹیکل (4) میں مرکزی حکومت (لفٹننٹ گورنر) اور ریاستی حکومت (چیف منسٹر و کابینہ) کے اختیارات سے متعلق تاریخی الفاظ درج ہیں لیکن موجودہ مرکزی حکومت نے GNCTD کے ذریعہ حکومت دہلی کے اختیارات کو بلدیاتی اختیارات یا اس سے بھی کم کردیا ہے۔ اس بل کے ذریعہ مرکز نے سارے اختیارات لیفٹننٹ گورنر کے تفویض کردیئے۔ اب دہلی کے وزراء اور ان کے دفاتر لفٹننٹ گورنر کے رحم و کرم پر رہیں گے جبکہ سپریم کورٹ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا اس ضمن میں حکومت کا جاری کردہ آرڈیننس ؍ بل قانونی طور پر جائز ہے یا نہیں لیکن میرا موقف واضح ہے کہ یہ ناجائز اور غیر قانونی ہے۔ اس بل نے مرکزی حکومت کے مقرر کردہ لفٹننٹ گورنر کو ایک وائسرائے بنا دیتا ہے۔ وائسرائے کا عہدہ اُس وقت برخواست کردیا گیا جب انگریز ہندوستان چھوڑ کر جارہے تھے۔ بہرحال مذکورہ تینوں بلز آمرانہ طرز حکمرانی یا آمرانہ حکومت کے پارلیمانی قانون سازی کو استعمال کرتے ہوئے نافذ کرنے کی مثالیں ہیں۔