آکسیجن کی قلت سے مرنے والوں کے ورثاء کو اسپتال فیس کی واپسی ضروری

   

برکھا دت
پہلے ہم نے محسوس کیا کہ ہم صرف نمبرات ہیں، اب ہمارا احساس ہے کہ ہم نمبرات بھی نہیں ہیں یعنی ہم جیسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ روچیکا گپتا نے مجھ سے بات کرتے ہوئے بار بار اسی طرح کے خیالات ظاہر کئے۔ وہ نیدرلینڈ میں رہتی ہیں۔ وہاں سے انہوں نے ان خاندانوں کی مدد کے ایک گروپ کو متحرک کیا ہے جن کے ارکان یا رشتہ دار دہلی کے جئے پور گولڈن اسپتال میں اپریل میں آکسیجن نہ ملنے سے موت کا شکار ہوئے۔ گپتا کے والد ان 21 مریضوں میں شامل تھے جن کی مذکورہ اسپتال میں آکسیجن کی قلت پیدا ہونے کے چند گھنٹوں میں ہی موت ہوگئی تھی۔ دراصل اس اسپتال کے آئی سی یو میں آکسیجن کی سربراہی روک دی گئی تھی۔ وجہ آکسیجن کی قلت بتائی گئی چنانچہ جن لوگوں کے والد، والدہ، بیوی، بھائی یا بہن بیٹا یا بیٹی آکسیجن نہ ملنے کے باعث اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ ان ہی کی طرح روچیکا گپتا بھی اس ضمن میں پارلیمنٹ میں بے چاری مودی حکومت کی جانب سے انتہائی تنگدلی کے ساتھ کئے گئے ردعمل پر حیران و پریشان بلکہ خوف زدہ ہوگئی۔ مرکزی حکومت نے اپنی تمام تر ناکامیوں اور ناقص کارکردگی کا ٹوکرا ریاستی حکومتوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں کے سَر پر ڈال دیا۔ مرکزی وزیر صحت نے راجیہ سبھا میں بحث کے دوران بڑی ڈھٹائی سے یہ کہا کہ آکسیجن کی کمی یا قلت سے کوئی موت ہوئی ہو۔ سرکاری ریکارڈ میں ایسا کوئی واقعہ یا موت موجود نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت نے پارلیمنٹ میں لاکھوں ہندوستان کے رنج و الم ان کے درد کو بے دلی سے بھی تسلیم نہیں کیا حالانکہ کووڈ۔ 19 بحران کے دوران ہندوستانیوں کو کربناک حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک کے چپہ چپہ میں دردناک مناظر دیکھتے میں آئے۔ حکومت احساس شرمندگی کا اظہار کرنے کی بجائے اپنی ناکامیوں کیلئے فنی یا ٹیکنیکی وجوہات کو ذمہ دار قرار دیا اور مختلف بہانے گھڑ لئے جبکہ اپوزیشن نے عوام کے تئیں بے حسی کیلئے اور ہمدردی کے فقدان کیلئے حکومت کو تنقیدی نشانہ بنایا۔
غیربی جے پی ریاستوں کی حالت بھی کچھ ٹھیک نہیں ہیں۔ ان ریاستوں کے اسپتالوں میں بھی آکسیجن کی قلت کی شکایات منظر عام پر آئیں۔ حکومت اپنی غلطیوں کو تسلیم نہ بھی کرتی تو کم از کم اتنا ضرور کرسکتی تھی کہ پارلیمنٹ میں دیئے گئے بیان میں قیمتی زندگیوں کے اتلاف پر مہلوکین کے ورثاء سے اظہار تعزیت و اظہار ہمدردی کرتی۔ انہیں یہ کہہ کر دلاسہ دیتی کہ حکومت بھی آپ کے غم میں شریک ہے۔ وباء کے دوران ہر کوئی یہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ جو اموات ہوئیں،وہ طبعی اموات نہیں تھیں بلکہ وباء کی زد میں آنے سے وہ اموات واقع ہوئی تھیں۔ یہ ایک دو یا 100، 200 یا 1,000 اموات نہیں ہوئیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے اور یہ سب کچھ سرکاری اداروں کی ناکامی کے نتیجہ میں ہوا۔ حکومت تو دور سڑکوں پر زندگی گزارنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ ہندوستان بھر کے اسپتالوں میں آکسیجن کی قلت رہی، دہلی کے نندا اسپتال کے ڈاکٹر ایس سی گپتا نے مجھے بتایا کہ ان کے اسپتالوں کے آئی سی یو میں 12 افراد کی موت ہوئی جن میں ایک ڈاکٹر ساتھی بھی شامل تھے۔ ایسے میں کس طرح تمام سرکاری ریکارڈس سے آکسیجن اموات کو کیسے حذف کیا جاسکتا ہے۔
مثال کے طور پر جئے پور گولڈن اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے میڈیا کو دیئے گئے ایک مختصر بیان میں آکسیجن کی قلت کی تصدیق کی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کورونا کے باعث مرنے والوں کی نعشوں کو آخری رسومات کیلئے ان کے رشتہ داروں یا ورثاء کے حوالے کرنے کے ضمن میں جو دستاویزات فراہم کئے گئے، ان میں صرف تنفسی نظام کی ناکامی یا فیل ہونے کا حوالہ دیا گیاجس کے نتیجہ میں مذکورہ اسپتال عدالت میں یہ دعویٰ کرنے کے قابل نہیں رہا کہ اسپتال میں آکسیجن کی قلت نہیں تھی۔
اس سلسلے میں ہم پراچی اوستھی کا بیان آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں جن کی ماں سپما ان لوگوں میں شامل ہیں جو اسپتال میں آکسیجن ختم ہونے کے نتیجہ میں فوت ہوئیں وہ کہتی ہیں کہ ان اموات کو کس زمرے میں رکھیں یا اس کی درجہ بندی کیسے کریں۔ اس پر اپنی خاموشی کے ساتھ ڈاکٹرس اپنے اس عہد کو توڑ رہے تھے جو انہوں نے پیشہ طب اختیار کرتے ہوئے اور اس کی تکمیل کرتے ہوئے کیا تھا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ انہیں لوٹا گیا پہلی مرتبہ اپنی ماں کی زندگی بچانے کے موقع پر لوٹا گیا اور اب ان کے وقار و حرمت اور موت کی حقیقی وجہ تسلیم کرنے سے محروم کرکے لوٹا گیا۔
اوستھی یہ بھی کہتی ہیں کہ وہ ان بے شمار ڈاکٹروں کی قربانی کا احترام کرتی ہیں جنہوں نے کووڈ۔19 کے خلاف ہراول دستہ میں شامل ہوکر کام کیا متاثرین کی بہت مدد کی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ڈاکٹرس بھی سرکار کی غلطیوں، خامیوں اور آکسیجن کی عدم سربراہی کے باعث ہوئی اموات کے بارے میں اپنی زبانیں کھولیں۔ آکسیجن دستیاب نہ ہونے کے باعث دو بچوں کی ماں شالوکٹاریہ بیوہ ہوئیں۔ ان کے شوہر بھی مذکورہ اسپتال میں شریک کئے گئے تھے۔ شالو نے مجھے یاد دلایا کہ لاکھوں ہندوستانیوں نے اپنے عزیزوں کی جان بچانے کیلئے خانگی اسپتالوں کے بھاری چارجس یا فیس کی ادائیگی کیلئے زیورات رہن رکھ دیئے، اراضیات فروخت کئے اور یہاں تک قرض بھی حاصل کیا۔ اس طرح کے متاثرین میں شالو ہی واحد نہیں ہے۔ اپنی زندگی کی ساری بچتیں استعمال کرنے کے باوجود وہ اپنے شوہر کی زندگی نہیں بچا پائی۔ ان کے شوہر ہی کمانے والے واحد شخص تھے۔ اب شالو کو اپنے بچوں کی اسکولی فیس ادا کرنے کے لئے بھی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ اس کا ایقان ہے کہ ان اسپتالوں میں جہاں آکسیجن کی قلت پائی گئی۔ کم از کم مہلوکین کے ورثاء کو رقم واپس کردینی چاہئے۔ عدلیہ سے انصاف کرنے کیلئے عرضیاں داخل کرنے والوں میں درخواست گزار مس کٹاریہ کے بچے بھی شامل ہیں۔ یہ صرف ایک اسپتال یا ایک مریض کا معاملہ نہیں ہے بلکہ نگہداشت صحت کے وسیع تر نہ بنانے سہولتوں، دوسری لہر کے دوران نظم اور مرنے والوں کی اموات کو اس لحاظ سے تسلیم کرنا کہ کورونا سے ان کی اموات ہوئی ہیں جیسے کلیدی نکات کا معاملہ ہے۔
اوستھی کے مطابق بی جے پی اور اپوزیشن کے درمیان انہیںایسا لگتا ہے کہ ایک خوفناک جنگ جارہی ہے۔ اس طرح شہریوں کو ناانصافی حق تلفی اور حکومت کی ناقص کارکردگی کے خلاف آواز اٹھانے کے حق سے بھی محروم کردیا گیا۔