رویش کمار
فلم ایکٹر عامر خان نے نومبر 2015ء میں ’انڈین اکسپریس‘ کے زیراہتمام ایونٹ میں بس اتنا کہا تھا : ’’مجھے خوف ہونے لگا ہے۔ میری شریک حیات کا احساس ہے کہ ان کو اس ملک سے چلے جانا چاہئے۔‘‘ اس بیان پر بہت ہنگامہ ہوا۔ عامر کو اپنے بیان کے اثرات بھگتنے پڑے۔ چند روز قبل جسٹس ارون مشرا نے ٹیلی کام کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ دیش میں کوئی قانون نہیں رہا ہے۔ ’’بہتر ہے اِس ملک میں قیام نہ کریں، بلکہ دیش چھوڑ دیں۔ مجھے مایوسی ہے کیونکہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ میں اِس عدالت کیلئے کام نہیں کررہا ہوں۔‘‘ عدالت کی ناراضگی اس حقیقت کے تعلق سے ہے کہ ٹیلی کام منسٹری کے ڈیسک آفیسر نے سپریم کورٹ کے آرڈر پر روک لگا دی ہے! یہ موضوع معاملہ ہوا کہ وزیراعظم ٹیلی کام منسٹری سے دریافت کریں کہ ڈیسک آفیسر نے کس کی ہدایات پر عمل کیا ہے۔ مگر ایسا ہوا نہیں۔ وزیر مواصلات سے استعفا کا مطالبہ کرنے کا رسمی ردعمل بھی سامنے آیا۔ لہٰذا ، عامر خان کا وہ بیان یاد آگیا۔ آپ سوچیں کہ سپریم کورٹ کے جسٹس کہہ رہے ہیں کہ اب ملک میں کوئی قانون نہیں رہا ہے۔ بہتر ہے کہ اِس دیش میں نہ رہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں گزشتہ 15 ڈسمبر کی شام پیش آئے تشدد کی ویڈیو منظرعام پر آئی ہے، بلکہ اسی واقعہ کی چند دیگر ویڈیوز بھی اسٹوڈنٹس کے ساتھ ساتھ دہلی پولیس نے جاری کئے ہیں۔ پولیس کو لائبریری میں مطالعہ میں مصروف اسٹوڈنٹس پر لاٹھیاں برساتے واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ کیمپس میں بھی طلبہ کے خلاف ایسا ہی کیا گیا، بلکہ آنسو گیاس کے شل بھی فائر کئے گئے۔
اگر آپ جامعہ میں پولیس ظلم کے ویڈیو کو جسٹس ارون مشرا کے ریمارک کے ساتھ جوڑ کر دیکھیں تو آپ کو دو باتیں سمجھ آئیں گی۔ ایک، اب ملک میں کوئی قانون باقی نہیں ہے۔ دو، قانون کے وقار کو سمجھنے والے لوگ بھی شاید اِس ملک میں حیات نہیں ہیں۔ لیکن یہی بات عوام کے تعلق سے نہیں کہی جاسکتی کیونکہ وہ تو ابھی باقی ہیں۔ ضرور کسی نے اس ویڈیو کا افشاء کردیا، ورنہ سچائی کا انکشاف نہیں ہوتا۔ دہلی پولیس نے جھوٹ بولا تھا کہ وہ لائبریری میں نہیں گھسے۔ ترجمان دہلی پولیس ایم ایس رندھاوا کا بیان 17 ڈسمبر کے ’ہندوستان ٹائمز‘ میں شائع ہوا تھا۔ ’’ہمارے جوان سنگباری کرنے والے پُرتشدد احتجاجیوں کا تعاقب کرتے ہوئے کیمپس میں داخل ہوئے۔ اسٹوڈنٹس کے ہاتھوں میں روشنی کے بلب، بوتلیں اور ٹیوب لائٹس تھے۔ پولیس نے بس انھیں کنٹرول کرنا چاہا۔ کوئی پولیس جوان لائبریری میں نہیں گھسا، نہ اسے سبوتاج کیا گیا۔ آنسو گیس ہوسکتا ہے لائبریری میں داخل ہوئی کیونکہ لائبریری وہاں سے قریب واقع ہے جہاں سے شل فائر کئے گئے۔‘‘ بہرحال ویڈیو سے معلوم ہوا کہ پولیس نے لائبریری میں لاٹھی چارج کیا اور اسٹوڈنٹس شروع سے یہی کہتے رہے۔
آپ جسٹس ارون مشرا کے ریمارک کو یاد رکھیں۔ جامعہ لائبریری میں پولیس پرمیشن کے بغیر گھس گئی اور آپ دیکھ سکتے ہو کہ کس طرح لاٹھیوں سے بے رحمانہ پٹائی کی گئی۔ سی آر پی ایف پرسونل بھی ویڈیو میں دیکھے جاسکتے ہیں، جسے جامعہ کے اسٹوڈنٹس نے فرسٹ فلور کا ویڈیو بتایا ہے۔ پولیس ذرائع نے جوابی ویڈیو پیش کیا۔ اس ویڈیو میں آپ اسٹوڈنٹس کو باہر سے دوڑتے ہوئے اندر داخل ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔ بعض اسٹوڈنٹس ایک بڑے ٹیبل کو ڈھکیل کر دروازے تک لے آتے ہیں تاکہ پولیس اندر داخل نہ ہوسکے۔ اسٹوڈنٹس نے اس ویڈیو کو سکنڈ فلور کا بتایا ہے۔ پہلا ویڈیو فرسٹ فلور کا ہے۔ لائبریری میں داخل ہونے والے اسٹوڈنٹس کو احتجاجی قرار دیا گیا۔ 15 ڈسمبر کو پیش آئے واقعہ کے بعد بی بی سی جرنلسٹ بشریٰ شیخ نے بھی ہمیں بتایا تھا کہ بعض اسٹوڈنٹس نے پولیس پر پتھر پھینکے۔ بشریٰ کا موبائل پولیس نے چھین لیا۔
پولیس نے سرکاری طور پر جو کچھ بیان دیا، وہ معمول کی بات ہے۔ میڈیا کے کئی گوشوں میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں ہوا کہ اسٹوڈنٹس نے فساد مچانے کا کام کیا۔ پراوین رنجن اسپیشل کمشنر، کرائم برانچ ہیں۔ اُن کا لب و لہجہ میڈیا کے انداز سے کافی مختلف ہے۔ وہ تمام اسٹوڈنٹس کو نہ فسادی یا مظاہرین قرار دے رہے ہیں، نہ ہی پولیس کے موقف کی حمایت کررہے ہیں۔ پولیس ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ویڈیو کے ذریعے ایک مخصوص اسٹوڈنٹ کو فسادی ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔ ’گودی میڈیا‘ نے معمولی تحقیق نہیں کی کہ پولیس کے ویڈیو اور وہ اسٹوڈنٹ سے مشابہ ایک دیگر نوجوان سے متعلق اسٹوڈنٹس کے ویڈیو میں کئی نمایاں فرق ہیں۔ پولیس کی حرکتوں پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا کہ وہ اس طرح جھوٹ سے کام کیوں لے رہے ہیں؟
بڑا سوال ہے کہ پولیس نے لائبریری میں لاٹھی کیوں برسائے؟ کیا انھیں ایسا کرنا چاہئے تھا؟ وہ پرمیشن کے بغیر لائبریری میں کیوں گئے؟ سشیل مہاپاترا نے طالب علم مصطفیٰ سے بات کی، جو تب لائبریری میں موجود تھا۔ اُس نے کہا کہ اسٹوڈنٹس کے ساتھ لائبریری میں جو کچھ پیش آیا وہ اتوار کو جاری کردہ فرسٹ ویڈیو سے صاف ظاہر ہے۔ پولیس کارروائی پر مصطفیٰ کا دعویٰ ہے کہ اُس نے اپنے ہاتھ اُٹھا لئے لیکن پولیس اسے پیٹتی رہی۔ مصطفیٰ اور منہاج الدین کو شدید زخم آئے۔ مصطفیٰ کے دونوں ہاتھ متاثر ہوئے۔ منہاج کی ایک آنکھ مکمل ضائع ہوچکی ہے۔ مصطفیٰ اور منہاج نے ایک کروڑ روپئے ہرجانہ کا مطالبہ کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے۔ ان کے ساتھ مجیب نے بھی ہائی کورٹ میں اپیل کی ہے کہ اسے بھی ہرجانہ ملنا چاہئے۔ مجیب کا کہنا ہے کہ پولیس کی بربریت سے اُس کے دونوں پیر مفلوج ہوگئے۔
جب میڈیا پولیس کی حمایت شروع کرتا ہے اور جب پولیس کے تعلق سے خاموش ہوجاتا ہے، دونوں موقعوں پر فرق محسوس کیا جاسکتا ہے۔ آپ یاد کریں میڈیا تب کیا کررہا تھا جب ڈی سی پی مونیکا بھردواج کو تیس ہزاری کورٹ میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ کیا میڈیا نے تشدد پر خاموش اختیار کی؟ جواب ایسے معاملوں میں بالعموم ’’نہیں‘‘ ہوتا ہے۔ لیکن جب جامعہ کے اسٹوڈنٹس کا معاملہ پیش آیا، میڈیا والے فوری (نشاندہی کے) تیر لے آئے۔ وہ واقعہ کو فساد کہنے لگے۔ میڈیا کا وہ گوشہ پولیس کی مدافعت شروع کرتا ہے، جسے میں ’گودی میڈیا‘ کہتا ہوں۔ پولیس پر سوال اُٹھایا جاسکتا ہے کہ کیوں انھوں نے لائبریری کے اندرون لاٹھی چارج کیا؟ میڈیا آپ کو اسٹوڈنٹس کے کوائف (پروفائل) سے واقف کرا رہا ہے لیکن پولیس کے بارے میں کچھ نہیں۔ کیا آپ ایسی پولیس چاہتے ہو؟ وہ بے بھروسہ اور متعصب ہوگئے ہیں، اور اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ آپ کے ساتھ ایسا عمل نہیں کریں گے؟ کیا ہر کسی کو ایسے سسٹم کی بات نہیں کرنا چاہئے جس میں پولیس ہر ایک سے مساوات برتے۔ کیا آپ چاہتے ہو کہ پولیس قانون کی مطابقت میں کام نہ کرے؟ 15 ڈسمبر کے واقعہ کو زائد از دو ماہ ہوچکے۔ ہم ہنوز سی سی ٹی وی ویڈیوز سے حقیقت کو طے کرنے میں اُلجھے ہوئے ہیں!
اگر جامعہ کا معاملہ بڑا سوال نہیں تو ٹیلی کام منسٹری کے آفیسر کا سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل کو روکنا یقینا بڑا سوال ہے۔ یہ کس کی ایماء پر کیا گیا، معلوم نہیں۔ چنانچہ جسٹس ارون مشرا کہنے پر مجبور ہوئے کہ اس ملک میں کوئی قانون نہیں ہے۔ خود ملک رہنے کے لائق نہیں رہا۔ میڈیا نے اس سوال کو نظرانداز کردیا۔ اُدھر شاہین باغ معاملہ میں حکومت احتجاجیوں سے بات نہیں کررہی ہے مگر سپریم کورٹ نے بات چیت کی راہ اختیار کی ہے۔ عدالت نے سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڈے اور سادھنا رامچندرن کو ثالث مقرر کرتے ہوئے شاہین باغ کی احتجاجی خواتین سے بات چیت کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
جسٹس سنجے کشن اور جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ نے کہا ہے کہ احتجاج کرنا بنیادی حق ہے۔ لیکن اس کے سبب کہیں کوئی عوامی مشکلات پیدا نہ ہونے پائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ابتری پھیل جائے گی۔ لہٰذا، بات چیت کے ذریعے ایک ہفتے میں حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ شاہین باغ کی دادیوں نے بھی کہا ہے کہ وہ بات کرنا چاہتی ہیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ثالثی سے کام نہ بننے پر وہ اس معاملہ کو حکومت پر چھوڑ دیں گے۔
[email protected]