…غضنفر علی خان…
داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کی خبر نے امریکہ کے حوصلوں کو بہت بلند کردیا ہے۔ البغدادی کا شمار مغربی ممالک کے نقطہ نظر سے عالمی دہشت گردوں میں ہوتا ہے حالانکہ شام کے اُس علاقہ میں جہاں یہ ہلاکت ہوئی ہے اپنی خود ساختہ خلافت کا البغدادی نے ہمیشہ دعویٰ کیا۔ یہ اور بحث ہے کہ خلافت انھیں کیسے مل گئی، کیا واقعی آج کی دنیا میں دورِ خلافت لوٹ کر آسکتا ہے۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلیفہ کو عوام منتخب کرتی ہے۔ چاروں خلفاء راشدین بیعت عامہ کے ذریعہ اس جلیل القدر منصب پر فائز ہوئے تھے۔ البغدادی ایسے نام نہاد خلیفہ تھے جن کے وجود نے عالم اسلام کو سر بازار رسوا کیا۔ دولت مشترکہ شام نہ تو کوئی تسلیم شدہ مملکت ہے اور نہ یہاں کوئی اسلامی نظام نافذ ہے۔ بے شک عرب دنیا کے بڑے ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے، لیکن پچھلے کئی صدیوں سے وہاں کے حکمرانوں نے جو بڑی حد تک خاندانی حکمرانی کیا کرتے تھے اپنے خلیفہ ہونے کا اُنھوں نے دعویٰ نہیں کیا۔ دراصل ابوبکر بغدادی ہزاروں انسانوں کا خون بہاکر کئی آبادیوں کو اُجاڑ کر اپنے اقتدار کو مضبوط بنایا لیکن اُن کے اقتدار اور خلافت کی نہ تو کوئی مستند شکل تھی اور نہ پورے ملک شام پر اُن کا اقتدار تھا۔ اس دور میں ایسے کئی گروپس بن گئے ہیں جو اسلام کی توسیع و بقاء کے نام پر منظم دہشت گردی کرتے ہیں حالانکہ دہشت گردی کی کوئی گنجائش دین اسلام میں نہیں ہے۔ یہ دین امن، شانتی اور صلح کُل کی اساس پر ہے۔ اس میں کسی بھی معاملہ میں جبر و تشدد کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ وہ دراصل مسلمان ہی نہیں کہلانے کے قابل ہے جو زبردستی اور دہشت گردی کے ذریعہ خدمت انجام دینا چاہتے ہیں۔ ایسے گروپ ایشیائی، افریقی و دیگر ممالک میں سرگرداں ہے۔ اب ایک بات غور طلب ہے کہ آیا ان کی نفرت رساں سرگرمیاں کیا عالم اسلام اور غیر مسلم ممالک کے لئے منافع بخش ہیں۔ القاعدہ سے لے کر جس کی بنیاد افغانستان میں تھی کسی وجہ بھی ان دہشت گردوں نے اسلام کا کبھی نام روشن نہیں کیا۔ البتہ ان کے وجود نے مذہب اسلام کو سرِ عام بدنام کیا۔ وہ عناصر جو دین حق کی نعوذباللہ من ذالک رسوائی کا ذریعہ بنے ہیں اُن کی ساری دنیا اور بالخصوص مسلمان سخت مخالفت کرتے ہیں آج تک کسی مسلم مملکت میں ان کی کوئی تائید تک نہیں کی۔ آج سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیسے اِن گروہوں اور ان کے سربراہوں کو ختم کیا جاسکے گا۔ امریکہ کی یہ ٹھیکہ داری بھی عالم اسلام اور دنیا کے دیگر ممالک کے لئے قابل قبول نہیں ہے کہ وہ یک و تنہا دہشت گردی کو ختم کرسکتا ہے۔ دہشت گردی کا یقینا کوئی مذہب نہیں ہوسکتا۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے اپنی ناپاک کوششوں سے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑ دیا ہے اور ہر جنونی کیفیت کو ’’اسلام فوبیا‘‘ کا نام دے دیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام کوئی فوبیا یا جنون کا نام نہیں ہے یہ انتہائی معتدل مذہب ہے۔ حضور اکرمؐ کی حیات طیبہ میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی بے گناہ انسان کو قتل کیا ہو۔ آپ ؐہر کسی کے لئے باعث رحمت رہے۔ آپ ؐکی حیات طیبہ میں صلہ رحمی، عفور و درگذر، اُخوت و بھائی چارہ ہمیشہ رہا۔ کسی فرد کا قرض تو دور کی بات آپ ؐ نے بلالحاظ مذہب ہمیشہ احترام آدم کے جذبہ کو اپنے اُسوۂ حسنہ سے جاری و ساری رکھا۔ آپ ؐ نے اپنی حیات طیبہ میں اپنے روز مرہ کے عمل میں انسانیت کا یہ درس دیا کہ خون خرابہ اور انسانیت سوزی کو اللہ تبارک و تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔ اگر دہشت پسندی کسی بھی صورت میں قابل قبول ہوتی تو حضور اکرم ؐ کا عمل اور اُسوہ اپنے سامنے رکھ کر دہشت پسند گروہ اپنے کرتوتوں کا جائزہ لیں۔ خود اُنھیں شرم آئے گی کہ رحمۃ اللعالمینؐ کی حیات طیبہ کتنی پاکباز اور دوسروں کے لئے باعث رحمت تھی۔ انسانوں کی بات تو چھوڑیئے، حضور ﷺ جانوروں کے ساتھ بھی رحم و کرم کا سلوک فرماتے۔ عربوں میں یہ رواج تھا کہ وہ اپنے اونٹوں کی شناخت کے لئے اُن کے جسم پر گرم سلاخوں سے نشان بناتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بہیمانہ عمل سے لوگوں کو منع کیا۔ ایک بار صحابہ کرامؓ ایک بلّی کو اذیت پہنچانے والے تھے کہ جب حضور ﷺ کو یہ معلوم ہوا کہ بِلّی کے بچے بھی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرامؓ سے کہاکہ اس کو کوئی اذیت نہ دی جائے چونکہ یہ ماں بن گئی ہے۔ اب وہ لوگ معصوم اور بے گناہ بچوں کو بم کے ذریعہ آنِ واحد میں ختم کردیتے ہیں یا اُن کے سروں سے ماں باپ کے سایہ عاطفت ختم کردیا جاتا ہے۔ کئی انسانی آبادیوں کو ان نام نہادوں نے تباہ و تاراج کیا۔ وہ بھلا کیسے اسلام دوست ہوسکتے ہیں۔ ان کی تو اسلام سے کوئی دور کی بھی وابستگی نہیں ہے۔ یہ سب سے بڑے اسلام دشمن ہیں۔ خواہ اُن کا تعلق کسی ملک سے بھی کیوں نہ ہو۔ عرب ممالک میں جیسا کہ داعش کا معاملہ ہے اگر اپنے ڈھکوسلوں کو ’’دین مبین‘‘ قرار دے کر تباہی و بربادی کا بازار گرم کرتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں ماؤں کی گود اُجاڑ دیتے ہیں اور اپنی حرص و طمع کی خاطر لڑکیوں کو زبردستی اپنی تحویل میں رکھ کر عیاشی پر اُتر آتے ہیں، وہ ہرگز کسی بھی زاویہ نظر سے مسلمان کہلانے کے قابل نہیں ہیں۔ لیکن فی زمانہ ان ہی کی حرکتوں کو اسلام سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ اس میں مغربی ممالک کے ذرائع ابلاغ کا بہت بڑا دخل ہے۔ اسلام کے تعلق سے ان گمراہ کن گروہوں کی اِن حرکتوں سے اسلام رسوا ہورہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی جہاں تک بات ہے اس کا مسلم ممالک ہی مقابلہ کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اس کے لئے بعض باشعور اسلامی ممالک نے پیش رفت نہیں کی۔ امریکہ یا اور کوئی ملک جب اسلام کے بارے میں ایسی جھوٹی اطلاعات فراہم کرتا ہو تو مسلم ممالک کا فریضہ ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعہ اسلام کی صحیح شکل کو پیش کرے۔ سب ہی تو نہیں لیکن چند مسلم ممالک اور بالخصوص تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک اپنا ایسا میڈیا قائم کرسکتے ہیں اور اپنا ایسا چیانل بناسکتے ہیں جو اسلام کے خلاف ہر اُٹھنے والی تحریک کا مدلل طور پر جواب دے سکتے ہیں ہے۔ یہ بڑی قسمتی کی بات ہے کہ دولت مند مسلم ممالک کے ذہنوں میں صرف یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ مادی ترقی ہی اُن کی منزل ہے۔ بیشتر ممالک یہ بھول گئے ہیں کہ اور میدانوں میں بھی ترقی لازمی ہے۔ بارہویں صدی عیسوی تک مسلمانوں نے کئی علوم و فنون کو ایجاد کیا۔ مغربی ممالک نے عربوں کی اِن ہی تحقیقات کی بنیاد پر اِن فنون کو جِلا دے کر کہیں سے کہیں پہنچادیا۔ دنیا کی ایک بیدار مغز قوم آج محض اس لئے ذلت و رسوائی کے غار میں گری جارہی ہے کہ اس نے دنیاوی علوم کو فراموش کردیا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے دینی علوم کو نظرانداز کردیں۔ یہ تو ہماری شناخت ہمارے ایمان کا جزلاینفک ہے اس کے بغیر ہم مسلمان ہی نہیں رہ سکتے۔ علامہ اقبالؔ نے اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ جن ممالک نے ہمارے آبا و اجداد کی نقل کرکے ترقی کرتے ہوئے تمام منزلیں طے کرلی۔ اتنی عظیم الشان قوم آج اس قدر کمزور و چوٹ کھائی ہوئی ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں سب سے مکرم و معظم سمجھے جانے والی قوم آج ہر معاملہ میں پچھڑ گئی ہے۔ عربوں کی کتابوں سے فیض حاصل کرکے یورپ ترقی کرگیا ہے۔ آج دنیا بھر کی 500 یونیورسٹیوں میں ایک بھی مسلم ملک کی یونیورسٹی شمار نہیں کی گئی۔ اسی درد کو علامہ اقبال نے یوں ظاہر کیا :
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جنھیں یورپ میں دیکھ کر دل ہوتا ہے سہ پارہ
