احساس ہی ایذا کا نہ ہوا فریاد و فغاں میں کیا کرتا:
مولانا عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ
ڈاکٹر جب مریض کو آپریشن کی میز پرلٹاتاہے توپہلے آپریشن والے عضو کو دوا لگا کرسن کردیتاہے، یامریض کو کلوروفام سنگھا کر بے ہوش ۔مسلمان بھی جب جانور کوذبح کے لیے قبلہ رخ لِٹا گلے پر چھری چلاتاہے توروح کو ایک مختصر دولفظی نغمہ سنا مست ومدہوش کردیتا ہے۔ بسم اللہ اللہ اکبر ! اے خاک کی مورت میں تجھے مردہ اپنی طرف سے نہیں کررہاہوں، میں توخود تیری ہی طرح مخلوق، تیری ہی طرح بے بس، تیری ہی طرح خاکی، تیری ہی طرح فانی، میں چھری چلارہاہوں اپنے اورتیرے پیداکرنے والے کانام لے کر اپنے اور تیرے مالک کے قانون کے ماتحت۔ زندگی کا عطیہ بخشنے والا بھی وہی، اسے واپس لینے والا بھی وہی ۔ جان ایک روزڈالی بھی اسی نے اورآج نکالی بھی اسی نے۔ بڑائی کاحق دارحکم چلانے والا صرف وہی! سنتے ہیں کہ فوج کے سپاہی جنگ کے میدان میں فوجی بینڈ اوروطنی ترانہ کی آواز سن کر ایسے مست ہوجاتے ہیں کہ جان کی پروانہیں رہ جاتی، اوربندوق کی گولیوں، توپ کے گولوں، سنگینوں کے وار کے لیے بے تکلف اپنے سروسینہ کوپیش کردیتے ہیں۔ اللہ کے نام کی کشش کیا روح کے لیے اتنی بھی نہیں، جاننے والے تویہاں تک کہہ گئے کہ روح اس اسم پاک سے ایسی مست وبے خود ہوجاتی ہے کہ خود حالت طرب میں ہنسی خوشی باہرآجاتی ہے، گوجسم دیکھنے والوں کی نظر میں تڑپتا لوٹتا رہے۔ آخرکلوروفام کا کام آپریشن میں بھی تویہی ہوتاہے کہ رگوں پررگیں جسم کی کٹتی رہیں خون پرخون بہتارہے لیکن مریض کااحساس اذیت وکرب مردہ ہوجاتاہے۔ اللہ ٹھنڈی رکھے حضرت اکبر کی تربت کو کیاخوب فرماگئے:
احساس ہی ایذا کا نہ ہوا فریاد و فغاں میں کیا کرتا
🎁 پیشکش: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ