احمد آباد میں طیارہ حادثہ دردناک مناظر

   

محمد نعیم وجاہت
لندن لے جانے والی اایر انڈیا کی پرواز 171 احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل انٹرنیشنل ایرپورٹ سے اڑان بھرنے کے چند منٹوں میں ہی گرکر تباہ ہوگئی ۔ اس بدقسمت طیارہ میں 230 مسافرین 10 ارکان عملہ اور 2 پائلٹس سوار تھے ۔ اس طیارہ میں سوار 242 میں سے جہاں 241 افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے وہیں طیارہ جس میڈیکل کالج کے ہاسٹل پر گر پڑا نتیجہ میں اس وقت وہاں موجود مڈیکوز اور ڈاکٹرس بھی اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ بتایا جاتا ہے کہ 50 سے زائد زخمیوں کا محتلف اسپتالوں میں علاج ہورہا ہے ۔ اس حادثہمیں قدرت کا ایک کرشمہ بھی دیکھنے میں آیا اور وہ یہ کہ 242 میں سے صرف ایک مسافر کی زندگی بچ گئی ، فی وقت وہ اسپتال میں زیر علاج ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ اور ان دونوں سے پہلے وزیر شہری ہوابازی رام موہن نائیڈو نے مقام حادثہ کا دورہ کیا اور ایکس پر اپنے دورہ کی تصاویر اور ویڈیو بھی پوسٹ کی۔ حادثہ کے فوری بعد فیض احمد قدوائی ہیڈ آف دی ڈائرکٹوریٹ جنرل آف سیول ایویئشن نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ایر انڈیا فلائیٹ 171 جو کہ ایک بوئنگ 787 طیارہ ہے، جمعرات کو دوپہر ایک بجکر اڑتیس منٹ پر لندن کے گیٹوک ایر پورٹ کیلئے اڑان بھرا اور صرف 5 منٹ سے بھی کم وقت میں 825 فٹ بلندی پر پرواز کرتے ہوئے میڈیکل اسٹوڈنٹ ہاسٹل پر جا گرا۔ طیارہ میں گجرات کے سابق چیف منسٹر وجئے بھائی رومن کلالا بھائی روپانی بھی سفر کر رہے تھے ۔ ان کی بھی موت ہوگئی ۔ مرنے والوں میں 168 ہندوستانی ، 53 برطانوی ، 7 پرتگالی اور ایک کینیڈین شہری شامل ہے۔ بلاگر بھارتی مشرا ناتھ نے مقام حادثہ کے دورہ کے بعد وہاں کی ایک المناک منظر کشی کی ہے ، وہ کہتی ہیں ’’میں مقام واقعہ پر صرف 20 منٹ میں پہنچ گئی ، اس وقت تک وہاں لوگوں ، پولیس والوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی ۔ فائر بریگیڈے اور ایمبولینس بھی پہنچ چکے تھے ۔ یہ طیارہ احمد آباد کے میگھانی نگر میں واقع بی جے میڈیکل کالج ہاسٹل پر گرپڑا ، وہ فضاء میں ہی شعلہ پوش ہوچکا تھا ۔ طیارہ کے ہاسٹل پر گر پڑنے کے نتیجہ میں نہ صرف مسافرین ، ارکان عملہ اور پائلٹس بلکہ ہاسٹل میں مقیم مڈیکوز اور ان کے ارکان خاندان بھی ہلاک ہوگئے ۔ زخمیوں کو اسرو سیول ہاسپٹل منتقل کیا گیا ۔ طیارہ کا ملبہ 200 تا 300 میٹر علاقہ تک پھیل گیا ۔ میں نے دیکھا کہ ہاسٹل بلاک کی کم از کم4 عمارتیں مکمل طور پر تباہ و برباد ہوگئیں، پوری طرح جل گئیں، ان میں سے ایک عمارت سے جھلسی ہوئی نعشوں کو اسپتال منتقل کرتے ہوئے بھی دیکھا ۔ ان میں ایک بچہ کی نعش بھی شامل تھی ۔ تباہ شدہ طیارہ کا ایک حصہ ہاسٹل کے Mess پر گرا جس میں میس کی عمارت تباہ ہوگئی ۔
طیارہ کے جلتے ہوئے ملبہ جلتی عمارتوں اور نعشوں سے اطراف و اکناف کے ماحول میں اس قدر گرمی پیدا ہوگئی ، باالفاظ دیگر ماحول اس قدر گرم ہوگیا کہ وہاں موبائل فونس نے کام کرنا بند کر دیا ۔ ایک ایمبولنس ڈرائیور نے بتایا کہ صرف اس نے 100 تا 120 نعشیں منتقل کی۔ بی جے ہاسٹل کے احاطہ میں طیارہ کے جلتے ملبہ کے اطراف جہاں انسانی نعشیں پڑی ہوئی تھیں، ان نعشوں کے چھتڑے بکھرے پڑے تھے ، وہیں جانوروں کی باقیات یا ڈھانچے پڑے دکھائی دیئے ۔ کئی کھلے سوٹ کیس ، ادھ جلے کپڑے اور طیارہ کا ایک تباہ شدہ ونگ بھی تباہی کی شدت کا احساس دلارہے تھے ۔ سرکاری عہدیدار اور سیاستدانوں کا مقام واقعہ پر تانتا بندھ گیا تھا ۔ حادثہ کے ا یک گھنٹہ تک یہی حال رہا لیکن NDRF کی آمد کے ساتھ ہی حادثہ کے مقام کو محاصرہ میں لے لیا گیا ۔ اس حادثہ میں جیسا کہ ہم نے آپ کو بتایا کہ ایک مسافر کرشماتی طور پر محفوظ رہا، اس کے بارے میں جو تفصیلات منظر عام پر آئی ۔ ان کے مطابق 40 سالہ وشواس کمار رمیش ایک برطانوی شہری ہے اور برطانیہ میں وہ کاروبار سے وابستہ ہیں۔ وشواس کمار رمیش سیٹ نمبر 11A پر بیٹھا ہوا تھا ۔ طیارہ حادثہ کا شکار ہوتے ہی پہلے تو وہ ہوش میں نہیں رہا جب ہوش آیا تب اس نے خود کو خون میں لت پت اور جھلسی ہوئی نعشوں کے درمیان پایا ۔ اسی حالت میں رمیش ایمرجنسی دروازہ سے طیارہ کے باہر چھلانگ لگانے میں کامیاب ہوا لیکن اس کا بھائی نہیں بچ سکا جو سیٹ نمبر 11J پر بیٹھا ہوا تھا ۔ رمیش اس سانحہ کے بارے میں کچھ یوں بتاتا ہے ’’ہر چیز میری نظروں کے سامنے ہوئی، میں سمجھا کہ میں مرجاؤں گا‘‘ ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ اس طیارہ کے پائلٹ کیپٹن سمیت سبھروال تھے جو ایک ایسے لائن ٹریننگ کیپٹن تھے جسے 8200 گھنٹے پرواز کا تجربہ حاصل تھا جبکہ ان کے ہمراہ ایک اور پائلٹ (فرسٹ آفیسر) Clive Kundar جو 1100 گھنٹوں کی پرواز کا تجربہ رکھتے تھے ۔ طیارہ میں موجود تھے۔ میڈیا رپورٹس میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بھومی چوہان نامی ایک خاتون مذکورہ بدنصیب طیارہ میں سوار ہونے میں 10 منٹ کی تاخیر کے باعث ہلاک ہونے سے بال بال بچ گئی ۔ اس خاتون کا تعلق بھروچ سے ہے ۔ اگرچہ بھومی کو طیارہ چھوٹ جانے کا ملال تھا لیکن اب وہ یہ سوچ کر راحت کی سانس لے رہی ہے کہ 10 منٹ کی تاخیر سے اس کی زندگی تو بچ گئی ۔ اس نے میڈیا کو بتایا کہ وہ مایوسی کے عالم میں ایرپورٹ سے باہر نکلنے کیلئے تیار ہی تھی کہ اسے طیارہ 171 کے گرکر تباہ ہونے کی اطلاع موصول ہوئی جس کے ساتھ ہی ان پر کپکپی طاری ہوگئی ، وہ کانپنے لگی ، ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے پیر جام ہوگئے ہیں اور زبان گنگ ہوگئی ۔ وہ کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی ۔ بھومی چوہان لندن میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں، دو سال بعد وہ ہندوستان آئی تھیں اور یہاں چھٹیاں گزار رہی تھیں۔ لندن جانے کیلئے وہ ایرپورٹ کیلئے روانہ ہوئی تھی لیکن ٹریفک میں خلل کے نتیجہ میں وہ 10 منٹ کی تاخیر سے ایرپورٹ پہنچی اور وہی تاخیر اس کی زندگی کے بچ جانے کا باعث بنی ۔ ویسے بھی 1988 میں بھی احمد آباد میں بوئنگ 737-200 طیارہ حادثہ کا شکار ہوا تھا جس میں 135 افراد سوار تھے ۔ ان میں سے 133 مسافرین اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے تھے ۔ آپ کو بتادیں کہ اگست 2020 میں کیرالا کے کوزیکوڈ میں لینڈنگ کے دوران پیش آئے حادثہ میں 190 میں سے 121 افراد ہلاک ہوئے ، اس طرح 22 مئی 2010 کو ایر انڈیا اکسپریس فلائیٹ 812 منگلورو انٹرنیشنل ایرپورٹ پر حادثہ کا شکار ہوا ، وہ طیارہ دوبئی سے آرہا تھا ۔ اس حادثہ میں 156 مسافرین ہلاک ہوئے ۔ سال 2000 میں بھی الائنس ایر کی پرواز بہار میں گرپڑی۔ اُس وقت 60 ہلاکتیں درج کی گئیں ۔ 12 نومبر 1996 کو چارمنی دادری میں سعودی ایرلائنس اور قازقستان ایرلائینس کا طیارہ دوران پرواز آپس میں ٹکراگئے ۔ 349 مسافرین و ارکان عملہ ہلاک ہوگئے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 14 فروری 1990 کو انڈین ایرلائینس کی پرواز بنگلورو کے MA2 ایرپورٹ پر حادثہ کا شکار ہوگئی ۔ 146 میں سے 92 مسافرین کو اپنی زندگیوں سے محروم ہونا پڑا۔ بہرحال اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان مسافرین کی اموات پر شدید رنج و غم کا اظہار کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت مہلوکین کے ورثا کو کم از کم دو دو کروڑ روپئے معاوضہ ادا کرے گی؟