وینکٹ پارسا
سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی مردم شناس اور صلاحیتوں کو پرکھنے والی شخصیت تھیں۔ انہوں نے جن لوگوں پر بھی نظر ڈالی اور پارٹی کے لئے خدمات کی انجام دہی کے لئے ان کا انتخاب کیا وہ سارے کے سارے اندرا گاندھی کی امیدوں اور توقعات پر پورے اترے۔ ایسا ہی ایک واقعہ سال 1977 میں پیش آیا جب اندرا گاندھی کی نظر گجرات کے ایک نوجوان پر پڑی اور انہوں نے فوراً اس نوجوان کو عام انتخابات میں بھروچ سے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ کرلیا وہ نوجوان احمد پٹیل تھے۔ اس طرح احمد پٹیل اندرا گاندھی کی نظر میں آئے اور پھر پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہوئے۔ انہیں گجرات سے پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہونے والے دوسرے مسلم لیڈر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اس سے پہلے احسن جعفری پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہوچکے تھے۔ کووڈ ۔ 19 سے متاثر اور تقریباً ایک ماہ تک اس کی پیچیدگیوں میں مبتلا رہنے کے بعد چہارشنبہ کی علیٰ الصبح احمد پٹیل کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا جس کے ساتھ ہی ایک اہم ترین سیاسی باب اپنے اختتام کو پہنچا۔ انہیں اس بات کا اعزاز حاصل تھا کہ 1977 میں اندرا گاندھی نے پارلیمانی انتخابات کے لئے کانگریس کا امیدوار بنایا اور پھر 1985 میں آنجہانی اندرا گاندھی کے فرزند اور اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے پارلیمانی سکریٹری کی حیثیت سے مقرر کیا۔ 1997 سے احمد پٹیل سونیا گاندھی کے ساتھ رہے اور اس رفاقت نے احمد پٹیل کو سیاسی آسماں کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ وہ تقریباً دو دہوں تک اہم لیڈر کی حیثیت سے خود کو تسلیم کروانے میں کامیاب رہے اور سونیا گاندھی کی زیر قیادت کانگریس میں ان کی پارٹی کے اہم قائد کی حیثیت سے ایک منفرد شناخت بن گئی تھی۔
جہاں تک آنجہانی اندرا گاندھی کا سوال ہے انہیں اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے غیر معمولی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 1967 میں ڈاکٹر ذاکر حسین کی شکل میں پہلے مسلم صدر کو منتخب کروایا۔ اسی طرح آنجہانی اندرا گاندھی کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے ہی 1968 میں ہندوستان کو پہلا مسلم چیف جسٹس آف انڈیا دیا۔ ویسے بھی احمد پٹیل کافی برسوں سے یوتھ کانگریس سے وابستہ تھے اور 1976 میں وہ اہم قائدین بشمول اندرا گاندھی کی نظروں میں آگئے اور پھر ایک سال بعد اندرا گاندھی نے بھروچ پارلیمانی نشست سے مقابلہ کے لئے احمد پٹیل کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان انتخابات میں احمد پٹیل نے کامیابی حاصل کی حالانکہ اُس وقت کانگریس کے خلاف لہر چل رہی تھی اور 1947 میں ملک کی آزادی کے بعد پہلی مرتبہ کانگریس کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا تھا۔ پارلیمانی انتخابات میں احمد پٹیل کی کامیابی کا سلسلہ 1989 میں اس وقت تک جاری رہا جب مہاتما گاندھی کی آبائی ریاست گجرات میں بی جے پی نے بالآخر اقتدار پر قبضہ کیا۔ احمد پٹیل 1977 ، 1980 اور 1984 کے عام انتخابات میں کامیاب ہوتے رہے۔ تاہم 1989 میں وہ شکست کھا گئے، لیکن اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راو نے راجیہ سبھا کے ذریعہ انہیں پارلیمنٹ پہنچایا۔ لوک سبھا میں تین میعادوں کے بعد احمد پٹیل نے راجیہ سبھا میں پانچ میعادوں کی تکمیل کی۔ 2017 میں آخری مرتبہ راجیہ سبھا کے لئے ان کا انتخاب عمل میں آیا حالانکہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے اس وقت کے صدر و موجودہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے انہیں ہر حال میں شکست سے دوچار کرنے کا عہد کررکھا تھا۔ کانٹے کا مقابلہ ہوا اور پھر کامیابی احمد پٹیل کو حاصل ہوئی اور اس طرح احمد پٹیل نے مودی ۔ امیت شاہ دونوں کو خاک چٹا دی۔ اس کامیابی کے ذریعہ انہوں نے ایک تاریخ رقم کی۔ اگر ہم احمد پٹیل کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اندرا گاندھی نے انہیں مقبولیت کی سیڑھیوں پر چڑھایا اور ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب وہ راجیو گاندھی کے بہت قریب ہوگئے۔ نتیجہ میں ساری پارٹی میں ان کی طوطی بولنے لگی۔ راجیو گاندھی کے بحیثیت وزیر اعظم میعاد کے دوران 1985 میں وہ مختصر سے عرصہ کے لئے پارلیمانی سکریٹری بنائے گئے۔ جب سونیا گاندھی 29 دسمبر 1997 کو کانگریس کے لئے مہم چلانے کا فیصلہ کرتے ہوئے سیاست میں داخل ہوئی تب احمد پٹیل ان کے قریب ہوگئے اور سیاسی داؤ پیچ سمجھنے میں سونیا گاندھی کی مدد کی۔ احمد پٹیل نے تقریباً 16 برسوں تک کانگریس صدر سونیا گاندھی کے معتمد سیاسی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس دوران انہوں نے اپنا موقف اور سیاسی مقام و مرتبہ بھی بڑھایا۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین سے احمد پٹیل کے خوشگوار تعلقات تھے۔ نتیجہ میں انہوں نے جب بھی ضرورت پڑے سیاسی اتحاد یا مفاہمت کروانے میں سونیا گاندھی کی بہتر انداز میں مدد کی۔ شرد پوار، پی اے سنگما اور طارق انور جیسے قائدین نے 1999 میں کانگریس صدر سونیا گاندھی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، تب تینوں کو پارٹی سے خارج کردیا گیا۔ ان تینوں نے سونیا گاندھی کے بیرونی نژاد ہونے کی بنیاد پر پارٹی سے بغاوت کی تھی۔ 1999 میں جب مہاراشٹرا جیسی ریاست میں کانگریس اپنے بل بوتے پر اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تب کانگریس نے مہاراشٹرا میں تشکیل حکومت کے لئے شرد پوار کی زیر قیادت نیشنلسٹ کانگریس پارٹی سے اتحاد کیا۔ اس طرح ریاست میں بی جے پی ۔ شیوسینا کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ اس خاتمہ میں احمد پٹیل نے اہم کردار ادا کیا۔
جس وقت شرد پوار نے سونیا گاندھی کے خلاف بغاوت کی کانگریس کو بہت پریشانی کا سامنا کڑا۔ سونیا گاندھی کے لئے یہ ایک بہت بڑا جھٹکا تھا۔ لیکن 1998 وہ سال تھا جب سونیا گاندھی نے لوک سبھا میں شرد پوار کو قائد اپوزیشن بنایا۔ اس نازک اور اہم ترین مرحلہ پر بھی احمد پٹیل نے وفاداری نبھائی۔ 1999 اور 2004 کے دوران کانگریس نے اپنی سرگرمیوں کو ہندوستان بھر میں وسعت دی۔ اس طرح سونیا گاندھی نے خود کو کانگریس کے قومی لیڈر کی حیثیت سے منوایا۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ احمد پٹیل، ارون سنگھ اور آسکر فرنانڈیز کو کانگریس میں امر، اکبر، انتھونی کہا جاتا تھا۔ ان تینوں کو راجیو گاندھی نے پارلیمانی سکریٹریز کے عہدوں پر فائز کیا تھا۔ احمد پٹیل نے گجرات اور مرکزی سطح پر کانگریس کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ وہ کبھی وزیر نہیں بنے لیکن بادشاہ گر کا رول ادا کیا۔ یو پی اے کے حکومت کے دوران وہ فیصلہ سازی کے ہر عمل میں شامل رہے۔ اپنے مضبوط موقف اور مقام و مرتبہ کے باوجود ہمیشہ انہوں نے خود کو مقبولیت سے دور رکھا۔ احمد پٹیل کی موت کانگریس سونیا گاندھی کا شخصی نقصان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے احمد پٹیل کی موت کو اپنے ایک بااعتماد رفیق، اچھے دوست سے محرومی کا سبب بتایا۔ سونیا گاندھی کا کہنا تھاکہ وہ آج ایک ایسے رفیق سے محروم ہوگئی ہیں جن کی ساری زندگی کانگریس کے لئے وقف تھی۔