محمد ریحان
عالم اسلام میں اکثر علماء و مشائخین اور مذہبی اسکالرس عوام کو مشورے دیتے ہیں کہ وہ کفایت شعاری سے کام لیں کیونکہ دین اسلام میں بیجا اسراف کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو خاندان دینی سوچ و فکر رکھتے ہیں ان میں شادی بیاہ شرعی طور پر کی جاتی ہیں۔ ہاں تقریب ولیمہ میں دولہے والے زیادہ سے زیادہ مہمانوں کی ضیافت یا میزبانی کے خواہاں رہتے ہیں اور میزبانی کرتے بھی ہیں۔ بہرحال آج کل ساری دنیا میں ایک شادی کے چرچے ہیں اور وہ اردن کے ولیعہد شہزادہ حسین کی شادی ہے وہ ایک سعودی آرکٹکٹ رجوہ أل سیف سے طئے پائی ہے اور پروگرام وشیڈول کے مطابق یکم جون کو شادی انجام پائے گی لیکن شادی کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں اور سارے اردن اور فوج سے لیکر دوسرے سرکاری شعبوں میں ولیعہد شہزادہ حسین بن عبداللہ ثانی کی شادی کی خوشی میں کئی ایک تقاریب بڑے پیمانے پر منائی جارہی ہیں یعنی قدیم زمانے کی شاہی شادیوں کی یادیں تازہ کی جارہی ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ساری دنیا میں اردنی شہزادہ اور سعودی آرکٹکٹ کی شادی کو بڑی دلچسپی سے دیکھا جارہا ہے۔ شاہی خاندان کی روایتی تقاریب میں عالمی سطح پر لوگ کافی دلچسپی لے رہے ہیں اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ شادی کے دن یعننی یکم جون کو اردن میں سرکاری تعطیل ہوگی۔ اس شادی میں شرکت کے لئے دنیا کے تمام شاہی خاندانوں، شاہی حکومتوں کے سربراہوں کے ساتھ ساتھ مختلف ملکوں کی مشہور و معروف شخصیتوں کو مدعو کیا گیا ہے۔ شادی کے دن ملک کے دارالحکومت عمان میں عرب گلوکاروں کا ایک موسیقی ریز پروگرام ہوگا جس میں عوام کو داخلہ کی مفت اجازت رہے گی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مشترکہ دوست کے ذریعہ اس جوڑے کی ملاقات ہوئی اور پھر وہ ملاقات محبت میں بدل گئی۔ خود ولی عہد شہزادہ حسین نے ان سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ رجوہ سے ان کی شناسائی کی کہانی محبت کی دوسری کہانیوں سے مختلف نہیں۔ اردن کی ملکہ رانیہ نے مہندی پارٹی کی میزبانی کی جس میں روایتی اردنی اور سعودی نغمے گائے گئے اور روایتی رقص کیا گیا۔ ملکہ رانیہ کے مطابق انہوں نے کسی بھی دوسری ماں کی طرح اپنے بڑے بیٹے حسین کی شادی کا خواب دیکھا تھا۔ بی بی سی کے مطابق انہوں نے اپنی ہونے والی بہو رجوہ ان کی بیٹیوں ایمان اور سلمیٰ کی طرح قرار دیا۔ انہوں نے اپنی بہنو کے حق میں بارگاہ راب العزت میں دعا بھی کی۔ واضح رہے کہ ولیعہد شہزادہ حسین کی پیدائش 28 جون 1994 کو عمان میں ہوئی۔ وہ شاہ عبداللہ دوم اور ملکہ رانیہ کے بڑے بیٹے ہیں ان کے ایک بھائی شہزادہ ہاشم اور دو بہنیں ایمان اور سلمیٰ ہیں۔ شہزادہ حسین کو 2 جولائی 2009 میں ولیعہد نامزد کیاگیا تھا اور شاہ عبداللہ نے انہیں چند برسوں سے سرکاری دوروں میں اپنے ساتھ رکھنا شروع کیا تھا۔ دنیا بھر میں رجوہ أل سیف کے بارے میں لوگ جاننے میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ یہ جاننے کے خواہاں ہیں کہ آخر رجوہ أل سیف کون ہے۔ مشہور و معروف لائف اسٹائل میگزین ووگ کے عربی ایڈیشن کے مطابق رجوہ کی عمر 28 سال ہے اور ان کے والد خالد أل سیف سعودی عرب کی ایک مشہور و معروف کاروباری شخصیت ہیں اور أل سیف گروپ کے سربراہ ہیں۔ ان کی کمپنی یعنی أل سیف شعبہ صحت شعبہ تعمیرات اور شعبہ سیکورٹی میں ایک مشہور و معروف شناخت رکھتی ہے۔ رجوہ کی پیدائش 28 اپریل 1994 کو ہوئی جس سے انداز ہوتا ہے کہ وہ شہزادہ حسین سے دو ماہ بڑی ہیں۔ وہ چار بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں اور امریکہ کے نیویارک کی سیراکیوز یونیورسٹی کے کالج آف آرکٹکچر سے گریجویشن کی تکمیل کی۔ رجوہ نے لاس اینجلس کے فیشن انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن اینڈ مرچنٹ اکسنگ سے ویژول کمیونکیشن کی ڈگری بھی حاصل کی۔ انہوں نے ابتداء میں لاس اینجلس میں ایک آرکٹکچر کمپنی کے ساتھ کام کیا اور پھر ریاض کے ایک ڈیزائن اسٹوڈیو سے وابستہ ہوئیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یکم جون کو یہ شادی عمان کے ظہران پیالس میں ہوگی۔ اس محل کی تعمیر 1950 کے دہائی کے وسط میں ہوئی اور شاہی شادیوں کا اسی محل میں اہتمام کیا جاتا رہا۔ شادی تو ظہران پیالس میں انجام پائے گی لیکن استقبالیہ اور عشائیہ کا اہتمام الحسنیہ پیالس میں کیا جائے گا۔ شادی کے دن اردن کے تمام صوبوں میں جشن منایا جائے گا اور مختلف تقاریب کا انعقاد عمل میں آئے گا۔