اردو ہندوستانی زبان ہےکسی ایک مذہب کی نہیں

   

ڈاکٹر پی ونئے کمار
ہم نصف درجن یعنی 6 دوستوں کا ایک گروپ ہے جو کنڈرگارٹن دوریا بچپن کے ساتھی ہیں اور باقاعدہ طور پر عشائیہ پر ملاقات کرتے ہیں۔ کبھی ایک دوست میزبان ہوتا ہے تو کبھی دوسرا دوست اس طرح ہر ہفتہ ایک ملاقات تو ضروری ہوتی ہے۔ گزشتہ ہفتہ ایسی ہی ایک ملاقات کے دوران ہنسی مذاق اور گفتگو کے درمیان ہمارے ایک دوست نے زبان اردو کے بارے میں ایسی بات کی جس سے میں نے اتفاق نہیں کیا۔ اس دوست نے دوٹوک انداز میں کہا کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے جس پر میں نے اسے غلط ثابت کرنے کی کوشش شروع کی۔ میں اپنے دوست کو یہ بتانا چاہتا تھا یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے بلکہ ہندوستانی زبان ہے جس کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی اور ہندوستان کے دامن میں ہی اس کی پرورش ہوئی اور اسی سرزمین پر وہ پلی بڑھی۔ تاہم میں نے ایک طرح سے خود کو روک لیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اردو سے متعلق وہ اپنے خیالات پر اڑا رہا اس کے علاوہ وہ اس شام کی محفل کا میزبان بھی تھا۔ اسی لئے میں نے اس معاملہ میں اس کے گھر میں بحث کرنے سے احتراز کیا اور خود کو روکنے میں کامیاب رہا۔ خوشی اس بات کی رہی کہ میرے دوست کے اردو سے متعلق حقیقت سے بعید بیان بلکہ دعویٰ کئے جانے کے دوسرے ہی دن سپریم کورٹ نے پرزور انداز میں واضح کیا کہ اردو کسی ایک برادری کی زبان نہیں ہے اور اس زبان کو کسی مخصوص مذہب سے جوڑنا غلط ہے۔ یہ ایسی زبان ہے جسے کسی مذہب سے وابستہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت (عدالت عظمیٰ) نے اردو کو ہند۔ آربائی زبان قرار دیا۔ عدالت نے یہاں تک کہا کہ یہ زبان ہندی کی طرح سنسکرت سے بھی جڑی ہوئی ہے اور نیز اس پر فارسی اور عربی کا رنگ بھی چڑھا ہے۔ باالفاظ دیگر اردو ایسی زبان ہے جس پر ہندی، فارسی اور عربی کا گہرا اثر ہے۔ اگرچہ کسی بھی زبان کو کسی ایک مخصوص برادری اور کسی ایک مذہب کے ماننے والوں سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک اردو کا سوال ہے ہندوستانی اردو کا سوال ہے یہ دراصل ہمارے ملک میں بولی جانے والی اور استعمال کی جانے والی زبانوں کا ایک حسین امتزاج ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ آزادی سے قبل ہندوستان میں اردو کو ایک لشکری زبان کے طور پر جانا جاتا تھا یعنی فوج کی زبان اور فوجی بھی ہندوستانی اردو کو رابطہ کی زبان کہا کرتے تھے۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہیکہ جس طرح فوجی لشکر میں مختلف مذاہب، مختلف علاقوں اور مختلف زبانوں کے فوجی خدمات انجام دیتے ہیں اسی طرح اردو بھی کئی ایک زبانوں کا حسین امتزاج ہے۔ مثال کے طور پر سپاہی جب ہندوستان میں ایک ریاست سے دوسری ریاست ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ منتقل ہوتے تب انہیں ان ریاستوں اور علاقوں کی زبان سمجھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ اُن حالات میں اردو ان سپاہیوں کیلئے رابطہ کی زبان بن گئی اور اکثر ایسا ہوتا ہیکہ فوجی جس ریاست میں تعینات ہوتے اس ریاست میں بولی جانے والی زبان کے الفاظ لے لیتے اور انہیں اپنی زبان میں شامل کرلیتے۔ اردو ایسی زبان ہے جس میں ہندی، مراٹھی، تلگو کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں بولی جانے والی زبانوں کے الفاط بھی ہوتے ہیں۔ اردو میں سوائے شمال مشرقی ریاستوں میں بولی جانے والی زبانوں کے ملک کی دوسری ریاستوں میں بولی جانے والی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ خود اردو نے ہر ریاست کیلئے اپنے لب و لہجہ اور بول چال کو فروغ دیا۔ مثال کے طور پر حیدرآباد میں دکنی اردو اور ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں لکھنوی اردو بولی جاتی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہماری ریاست تلنگانہ میں عام آدمی کی زبان اور بول چال میں جو جملے ہوتے ہیں وہ نہ فصیح تلگو کے ہوتے ہیں اور نہ ہی فصیح و بلیغ اردو کے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ضلع میں تلنگانہ کا کوئی شخص سرکاری محکمہ میں کوئی رپورٹ پیش کرنا چاہتا ہے تو وہ کچھ یوں کہتا ہے ’’تحصیل کی پوئی عرضی اچی پیمائش ستیش کنٹہ‘‘ یہاں تک کہ عدالتوں میں بھی باقاعدگی سے اردو زبان کے بے شمار الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر عدالت (کورٹ)، وکیل (لائر)، قانون (لا)، مقدمہ (کیس)، ملزم، الزام اور اطلاع (انفارمیشن) فیصلہ، وکالت نامہ (قانونی دستاویز) اور پیشی یا سماعت (hearing) وغیرہ وغیرہ۔ اردو زبان کی یہ خوبی ہیکہ جو لوگ اردو سے نابلد ہیں اردو سے واقف نہیں یا جو اردو کو پسند نہیں کرتے جانے انجانے میں یا پھر غیرارادی طور پر اچھا، ہاں، نائی، نئی، سکون، پریشانی اور فکر جسے اردو الفاظ اپنے دوست احباب سے گفتگو میں استعمال کرتے ہیں۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہیکہ ہندوستان میں پیدا ہوئی اور اسی سرزمین پر پلی بڑھی اردو زبان جو خالص ایک ہندوستانی زبان ہے، اس کے ساتھ سب کچھ غلط کب سے ہونے لگا؟ اس کا جواب یہ ہیکہ جب پاکستان نے اردو زبان کو اپنی قومی زبان قرار دیا تب ہندوستان میں اردو کے ساتھ اجنبی جیسا سلوک کیا جانے لگا اور مابعد آزادی ملک کی تقسیم کے ساتھ ہی پاکستان سے نفرت کے نتیجہ میں اردو کو بھی ناپسند کیا جانے لگا کیونکہ اردو کو پاکستان سے جوڑا جانے لگا جبکہ آزادی کے وقت اور آزادی کے بعد اردو کی مقبولیت انتہائی عروج پر تھی جبکہ ہندوستانیوں کی اکثریت نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کرلیا کہ اردو صرف ایک برادری کی زبان ہے قومی زبان نہیں۔ 60 کے دہے کے اواخر میں جب مرزا غالب کی سالگرہ تقریب سرکاری طور پر منائی گئی اور وہ بھی اس وقت کی وزیراعظم شریمتی اندرا گاندھی کی موجودگی میں اس تقریب کا انعقاد عمل میں لایا گیا تب ایک غیر سرکاری حکم جاری کیا گیا جس میں شرکاء سے کہا گیا کہ وہ صرف غالب پر اظہارخیال کریں۔ اردو کے بارے میں کچھ نہ بولیں۔ اس پر طنز کرتے ہوئے اردو کے مشہور و معروف شاعر ساحر لدھیانوی کو یہ کہنا پڑا تھا
غالب جسے کہتے ہیں اردو ہی کا شاعر تھا
اردو پہ ستم ڈھا کر غالب پہ کرم کیوں ہے
گاندھی ہوکہ غالب ہو انصاف کی نظروں میں
ہم دونوں کے قاتل ہیں دونوں کے پجاری ہیں
اپنے ہی ملک میں اور سابق ریاست حیدرآباد میں سلطنت آصفجاہی کی حکمرانی بالخصوص نواب میر عثمان علی خاں کی حکمرانی میں اردو کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔ نہ صرف اسکولوں اور کالجوں کا ذریعہ تعلیم اردو تھا بلکہ میڈیکل کالجس میں بھی اردو میں ہی پڑھایا جاتا ہے جس کیلئے اس وقت انگریزی میں دستیاب طب کی کتابوں کے ترجمہ کیلئے باضابطہ دارالترجمہ قائم کیا گیا۔ نواب میر عثمان علی خاں کی حکمرانی میں ہی دنیا کی پہلی اردو یونیورسٹی، عثمانیہ یونیورسٹی، قائم کی گئی اور حیدرآباد دکن میں اسی پر فخر کیا جاتا تھا۔ بدقسمتی سے اردو کے ساتھ غیرمعمولی وابستگی شاید ریاستی عوام کیلئے نقصاندہ ثابت ہونا شروع ہوئی۔ اس تعلیمی نظام اور تعلیمی پالیسی کے باعث خود نظام دکن کے پاس اپنی عدالت میں اہم عہدوں پر فائز ہونے کیلئے اہل اور تربیت یافتہ افراد دستیاب نہیں تھے اور پھر آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں کو حکومتی انتظامات چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور پر عہدہ دار مرکز میںحکمراں انگریزوں، انگریزی انتظامیہ کے ساتھ مراسلت کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے تھے کیونکہ وہ انگریزی پر عبور نہیں رکھتے تھے اور انگریز حکام اردو زبان سمجھنے سے قاصر تھے۔ اگرچہ نظام ملکی حکمرانی کے حامی تھے تاہم وہ خود بھی ایڈمنسٹریشن کی دیکھ بھال کیلئے ریاست کے باہر سے قابل و اہل شخصیتوں کو درآمد کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ان کے وزیراعظم راجہ کشن پرشاد اگرچہ حیدرآباد کے رہنے والے تھے لیکن ان کا خاندانی پس منظر شمالی ہند سے تعلق رکھتا تھا۔ اردو سے وابستگی نے آزادی کے بعد بھی ریاستی عوام پر اپنے اثرات کا سلسلہ جاری رکھا اور یہ ریاست کے لوگوں کیلئے ایک بڑا نقصان ثابت ہوا۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ انگریزوں کے زیرتسلط ہندوستان میں انگریزی، انگریز انتظامیہ کی زبان تھی اور آزاد ہند میں بھی انگریزی رابطے کی زبان بنی رہی۔ ریاست حیدرآباد دکن کے لوگ انگریزی سے ناواقف تھے۔ ان حالات میں ملازمتوں پر بیرون ریاست کے ان افراد کا قبضہ ہونے لگا جو انگریزی جانتے تھے۔ خاص طور پر پڑوسی ریاست آندھراپردیش سے تعلق رکھنے والے تلگو افراد جنہیں سابق مدراس پریسیڈنسی میں رہنے اور انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے کا بہت فائدہ ہوا۔ اس طرح بیروزگار ہونے کے نتیجہ میں حیدرآباد کے لوگوں میں یہ احساس زور پکڑنے لگا کہ ان کی ملازمتیں علاقہ آندھرا سے تعلق رکھنے والے ہڑپ رہے ہیں اور شاید اسی احساس نے تلنگانہ کے لوگوں میں خود کی اپنی علحدہ ریاست کے مطالبہ کی بنیاد ڈالی جبکہ لسانی بنیاد پر ریاست۔ آندھراپردیش کی تشکیل عمل میں آئی تھی اور اس کے بعد اس علاقہ کے عوام میں اپنے لئے علحدہ ریاست تلنگانہ کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔