ارون جیٹلی : نرم گفتار، طنز میں ماہر، ذہین سیاستدان

   

کرن تھاپر

میں بی جے پی کے کئی سینئر قائدین سے اچھی طرح واقف ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا، لیکن ارون جیٹلی شاید واحد تھے جن کو میں دوست کہنے کی جسارت کرسکا۔ حتیٰ کہ جب میں اُن کی پارٹی کیلئے پسندیدہ نہیں رہا تھا، اور یہ واضح تھا کہ وزیراعظم کی ایماء پر میرا بائیکاٹ کیا گیا، تب بھی ارون نے رابطہ برقرار رکھا تھا۔ میں انھیں ’ایس ایم ایس‘ بھیجتا اور اس کے جواب میں وہ ہمیشہ فون کیا کرتے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ میں نے اُن سے صلاح مانگی، جو انھوں نے جلدی سے بلاتامل دی۔ ایسے موقعوں پر وہ بخوبی جانتے تھے کہ میری فطری تندخوئی (جلدبازی) سے کس طرح ہوشیاری سے نمٹا جائے۔ وہ نرمی سے کہتے، ’’اس بارے میں یکایک کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل رات بھر غور کیجئے۔‘‘ انھوں نے کبھی میری باتوں کو یکسر رد نہیں کیا لیکن بالعموم کوئی اشارہ کافی ہوتا۔ وہ یقینی طور پر درست ثابت ہوتے۔
چند لوگ ہی جانتے ہیں کہ ارون نے ہی نریندر مودی کے ساتھ میرا ناخوشگوار انٹرویو طے کرایا تھا، جب آخرالذکر 2007ء میں چیف منسٹر گجرات تھے۔ میں نے مودی سے کئی بار ربط قائم کیا تھا لیکن بات نہیں بنی۔ پھر میں نے ارون سے مدد کیلئے خواہش کی اور وہ فوری راضی ہوگئے۔ چند روز میں ہی انٹرویو طے ہوگیا۔ اگر ان کا رول نہ ہوتا تو شاید یہ کبھی نہیں ہوپاتا۔ تاہم، بدقسمتی سے وہ انٹرویو تلخی میں ختم ہوگیا۔ مودی بمشکل تین منٹ بعد واک آؤٹ کرگئے اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ مجھے معاف کرچکے ہیں۔ دوسری طرف، ارون نے کبھی اس کیلئے مجھے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔ درحقیقت، انھوں نے تو اس موضوع کا ذکر تک نہیں کیا۔ اس سے ہمارے رشتے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ برسوں بعد جب میں نے اس تعلق سے میری کتاب Devil’s Advocate: The Untold Story میں لکھا، ارون نے مجھے فون کرکے کہا کہ انھوں نے مودی کے بارے میں باب (چیاپٹر) پڑھا ہے۔ میں نے پوچھا، ’’اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ مجھے اندیشہ تھا کہ اُن کا جواب تائید میں نہیں ہوگا۔ آخر کو اب وہ فینانس منسٹر بن گئے تھے اور مودی وزیراعظم۔ 2007ء سے حالات نمایاں طور پر تبدیل ہوگئے تھے، جبکہ مودی انٹرویو کے بارے میں میرا تجزیہ اُس زیادہ بڑے باب کا حصہ تھا جس طرح بی جے پی نے میرا بائیکاٹ کیا ہے۔ اس میں شدید تنقیدی جائزہ لیا گیا۔ ارون نے نرم مگر ٹھوس انداز میں جواب دیا، ’’آپ کو جو کچھ آپ چاہو لکھنے کا پورا حق حاصل ہے‘‘۔ اور پھر ہلکے توقف کے بعد مزید کہا، ’’میں واقعی اس سے عدم اتفاق نہیں کروں گا جو کچھ آپ نے کہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہیں کہیں کچھ بات ٹھیک نہ ہو، لیکن مجموعی طور پر آپ نے منصفانہ تجزیہ کیا ہے۔‘‘
اپنے اُصولوں کی پاسداری

یہ واحد موقع نہیں رہا جب ارون نے سیاست میں پڑنے کے بجائے اپنے اصولوں کی پاسداری کی۔ 2009ء میں انتخابات سے قبل کے ماحول میں اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر ایل کے اڈوانی کے ساتھ انٹرویو شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد ختم کردیا گیا۔ ارون جواں مردی اور اشتیاق کے ساتھ اس دراڑ کو دور کرنے آگے آئے۔ اڈوانی جن کے ساتھ اُس وقت میرا تعلق کشیدہ تھا، اس انٹرویو کیلئے تعلقات کو بہتر بنانے کے طریقے کے طور پر راضی ہوئے تھے۔ وہ ہو نہیں پایا۔ درحقیقت، تعلقات ابتر ہوگئے۔ لیکن اس کا بھی ارون نے منفی تاثر نہیں لیا۔ میں نے فون کیا اور دریافت کیا کہ آیا وہ اڈوانی کی قیامگاہ پر انٹرویو دیں گے۔ ارون نے قہقہہ لگایا۔ ’’آپ خود کو سنبھال نہیں پاؤگے، کیا ایسا کرسکو گے؟‘‘ اگر وہ سرزنش تھی تو یہ ہلکے انداز میں دی جاچکی تھی۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ راضی ہوگئے۔ اُس رات دس بجے، انھوں نے انٹرویو دیا۔ جب انٹرویو ختم ہوا، انھوں نے گرین ٹی پیش کی اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہوگیا تھا۔ ارون کو اچھی روداد سننے میں مزہ آتا تھا۔ بات چاہے کتنی طویل ہو، وہ پوری توجہ سے سنا کرتے۔ انھوں نے مجھے خاموشی میں ہی بھانپ لیا لیکن اُن کے چہرے پر مسکراہٹ بڑھتی گئی۔ جب میں نے چائے ختم کی، اُن کا عملی طور پر مفید جواب نے کافی ڈھارس بندھائی: ’’یہ تلخی ختم ہوجائے گی۔ کچھ وقت لگ سکتا ہے، لیکن ایسی چیزیں ہوتی رہتی ہیں۔‘‘
آج، میں ارون سے واقفیت کے 22 سال اور میرے شوز پر اُن کی میزبانی کے کئی برسوں پر بھی نظر ڈال سکتا ہوں۔ اس کی شروعات 1996ء کے انتخابات کے بعد یونائیٹیڈ فرنٹ حکومت کے دوران ہوئی تھی، جب بی جے پی کیلئے تائید و حمایت بڑھنے لگی تھی۔ اُن برسوں میں اکثر میں نے ارون اور کپل سبل کو ایک دوسرے سے مباحث کیلئے مدعو کیا۔ میرے پاس ایک تصویر ہے جس میں دونوں مسکرا رہے ہیں اور میں درمیان میں ہوں۔ وہ بھلے ہی سیاسی حریف اور حتیٰ کہ قانونی حریف بھی رہے ہیں، پھر بھی انھوں نے ایک دوسرے کیلئے اپنے احترام کو پوشیدہ نہیں رکھا۔ لیکن وہ ایک دوسرے کے دلائل کا کچومر نکالنے سے بھی نہیں رکے۔ یقینا، وہ اس کام میں مسرور نظر آتے تھے۔
انٹرویوز اور لفظی جنگ

واجپائی حکومت میں وزیر بننے کے بعد انٹرویوز کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کئی انٹرویو نہ صرف مشکل بلکہ جارحانہ ہوتے۔ میری شہرت ہوگئی کہ انٹرویو کے دوران مخل ہوتا ہوں اور بعض موقعوں پر یہ بات ناقابل قبول ہوجاتی ہے، اور یہی اکثرو بیشتر کا معاملہ ہوتا۔ لیکن ایسا ظاہر ہوتا کہ ارون ہماری لفظی جھڑپ سے محظوظ ہوتے۔ وہ اسے ایک چال کے طور پر دیکھتے اور جانتے تھے کہ اس کا کچھ حصہ تو ضرور توجہ حاصل کرنے کیلئے ہے۔ اور وہ ہمیشہ اسی انداز میں جواب دیتے جیسے سوال کیا جاتا۔ اُن کی آواز ہوسکتا ہے کبھی کبھار اونچی ہوجاتی یا اُن کا چہرہ سخت ہوجاتا لیکن انھوں نے کبھی تحمل کا دامن نہیں چھوڑا۔ انٹرویو نشر ہونے کے بعد وہ کہا کرتے، ’’یہ اچھی طرح متوازن مقابلہ ہوا۔ میں سمجھتا ہوں ہم دونوں نے اچھا مظاہرہ کیا۔‘‘ یہ انکساری کی بات ہوتی۔ میں تردید نہیں کرسکتا کہ بالعموم وہ مجھ سے بہتر ثابت ہوتے۔ لیکن وہ ہمیشہ ایسا ظاہر کرتے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہ ارون کی شریف النفسی تھی۔ سی این این۔ آئی بی این کیلئے میرے پروگرام ’ڈیولز ایڈوکیٹ‘ والے برسوں کے دوران ہم نے نیو ایئر اسپیشل کے طور پر سینئر سیاست دانوں کو مدعو کرنے کی روایت شروع کی کہ میرا انٹرویو لیں۔ اس کی شروعات ارون سے ہوئی۔ جب میں نے اُن سے اس بارے میں بات کی، انھوں نے اسے مذاق سمجھا۔ انھوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، ’’کیا میں کرن تھاپر کے ساتھ وہی کچھ کرسکتا ہوں جو وہ ہر کسی کے ساتھ کرتے ہیں؟‘‘ میں نے فوری جواب دیا، ’’بے شک‘‘۔ انھوں نے کہا، ’’ٹھیک ہے‘‘۔ میں نے تاڑ لیا کہ شامت آنے والی ہے۔ درحقیقت، ارون نے نرمی اور طنز سے کام لیا۔ انھوں نے مجھے دباؤ میں ڈالنے کے بجائے میری مدد کی۔ انھوں نے مجھے دفاعی نہیں بلکہ حاوی ہونے والا شخص بنایا۔ اگر وہ سیاستداں نہ ہوتے تو وہ زبردست انٹرویو نگار ہوتے۔ میں نے ان سے یہ بات بھی کہی۔ ’’ویسے، میں وکیل ہوں۔ لوگوں کو بولنے پر مجبور کرنا میرا پیشہ ہے جتنا آپ کا ہے!‘‘
الفاظ کے دھنی
میں نہیں کہہ سکتا کہ میں ارون کو بہت قریب سے جانتا تھا لیکن جب وہ اپوزیشن لیڈر تھے، وہ ایک دو بار ڈنر کیلئے آئے اور تب کافی خوش ہوئے جب میں نے ان کو بھوٹان کے نئے کنگ سے ملاقات کیلئے مدعو کیا۔ اُس موقع پر انھوں نے خود کو پیش پیش نہیں رکھا بلکہ کمرہ کے ایک گوشہ میں مونٹیک سنگھ اہلوالیہ سے محو گفتگو رہے۔ جب میں نے دیکھا کہ اُن کی کنگ سے بات نہیں ہوئی، تب میں نے تعارف کرایا۔ اُن کی ہچکچاہٹ نمایاں طور پر دیگر مہمانوں سے مختلف تھی، جنھوں نے عملاً کنگ کو ’گھیر لیا‘ تھا۔ ارون الفاظ کے استعمال میں ماہر تھے اور حس مزاح دل جیت لیتا تھا۔ وہ فقروں کے اظہار کو سراہتے جو دیگر شاید سمجھ بھی نہ پاتے۔ وہ مانتے تھے کہ سخت تنقید سے کہیں زیادہ مؤثر دانش کی بات ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ میں اُن کی تقاریر اکثر ظرافت کے ساتھ ہوتیں یا حتیٰ کہ طنزیہ نثر رہتیں۔ ایسے موقعوں پر وہ بلاناغہ فون کرتے اور اس تعلق سے گفتگو ہوتی۔
میری 60 ویں سالگرہ کے موقع پر ارون نے مجھے ایک تحفہ دیا جو انھوں نے بڑی توجہ سے منتخب کیا۔ یہ Hermes ٹائی تھی جو شاید کبھی میں خود منتخب نہیں کرپاتا۔ حالانکہ میں نے اسے کئی لوگوں کو لگائے دیکھا تھا اور اکثر سوچا کہ خرید لوں، لیکن ہمت نہیں جٹا پایا تھا۔ ارون نے میرے لئے وہ حاصل کی۔ ارون کے ساتھ میری آخری گفتگو تب ہوئی جب انھوں نے مودی کو مکتوب کے ذریعے مطلع کیا کہ وہ نئی حکومت کا حصہ نہیں ہوسکتے ہیں۔ میں نے میری تشویش پر مبنی ایس ایم ایس بھیجا اور چند گھنٹے بعد انھوں نے فون کیا۔ میں چھپاؤں گا نہیں کہ اُن کی آواز میں نقاہت تھی جو میں نے کبھی نہیں سنی تھی۔ لیکن اُن کی دانش اور ہلکے انداز میں تنگ کرنا ماند نہیں پڑے تھے۔ انھوں نے اپنی علالت کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اس کے بجائے، میرے اور میرے پروگراموں کے تعلق سے بات کی۔ میں جانتا تھا وہ دانستہ طور پر ایسا کررہے تھے اور میں نے انھیں سراہا۔ ’’کبھی آؤ اور مجھ سے ملاقات کرو‘‘، اُن کے یہ الفاظ کے بعد فون کال ختم ہوگیا۔ کاش! میں ملاقات کرپاتا۔ مجھے ہمیشہ اُن کے پاس ملاقات کیلئے نہ جانے کا تاسف رہے گا۔٭
[email protected]