استنبول اجلاس : حکومت صرف فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہوگی

   

غزہ میں بیرونی مداخلت مسترد، اہل غزہ کو اپنے گھر واپس جانا چاہئے

استنبول ۔ 4 نومبر (ایجنسیز) اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ کی حکومت صرف فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے اور کسی بیرونی مداخلت یا “نئے نظامِ وصایت” کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ موقف پیر کے روز استنبول میں منعقدہ اجلاس میں سامنے آیا۔ترک وزیرِ خارجہ حاقان فیدان نے اجلاس کے بعد سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، اردن، پاکستان اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا “فلسطینیوں کو خود اپنا نظم و نسق چلانا چاہیے اور انھیں اپنی سلامتی کے تحفظ کے اقدامات خود کرنے چاہئیں۔”فیدان کے مطابق غزہ کو ازسرِ نو تعمیر کی ضرورت ہے، اہلِ غزہ کو اپنے گھروں کو واپس جانا چاہیے اور علاقے کے زخموں کو بھرنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے زور دیا کہ کسی کو بھی غزہ پر کسی نئے نظامِ کو لاگو کرنے کی خواہش نہیں ہونا چاہیے۔ فیدان نے مزید کہا کہ فلسطینی مسئلے کے حل کیلئے اٹھائے جانے والے کسی بھی اقدام کو نئے مسائل کی بنیاد نہیں بننا چاہیے۔ترک وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ حماس اور صدر محمود عباس کے زیرِ قیادت فلسطینی اتھارٹی کے درمیان جلد داخلی مفاہمت قائم ہو گی، جو بین الاقوامی سطح پر فلسطینی نمائندگی کو مضبوط کرے گی۔واضح رہے کہ ان سات اسلامی ممالک کے رہنماؤں نے گزشتہ ستمبر کے آخر میں نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔چند دن بعد ٹرمپ نے اپنا وہ منصوبہ پیش کیا جس کی بنیاد پر غزہ کی جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا۔ یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔اسرائیل نے پہلے ہی کسی بین الاقوامی فورس میں ترکیہ کی شرکت کو مسترد کر دیا تھا جو غزہ کے سیکورٹی انتظامات کی نگرانی کیلئے بنائی جا رہی ہے۔ یہ وہ منصوبہ ہے جو امریکی 20 نکاتی تجویز کا حصہ ہے۔استنبول کا یہ اجلاس ایسے وقت ہوا جب مصر سمیت کئی ثالث ممالک نے حالیہ ہفتوں میں غزہ میں ایک عارضی بین الاقوامی فورس کے قیام کیلئے کوششیں تیز کر دی ہیں۔کئی ممالک نے اس فورس میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ البتہ کچھ ممالک نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا با ضابطہ فیصلہ ضروری ہے تاکہ اس فورس کی فوجی موجودگی کو قانونی حیثیت حاصل ہو۔یاد رہے کہ 10 اکتوبر سے نافذ جنگ بندی معاہدے میں طے پایا تھا کہ حماس تمام زندہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے اور ہلاک شدگان کی لاشیں واپس کرے۔ مزید یہ کہ اس کے بدلے اسرائیلی افواج Line Yellow تک پسپا ہوں گی … یعنی وہ علاقے جو پہلے سے مذاکرات میں متعین کیے گئے تھے۔بعد کے مرحلے میں غزہ کے انتظام کیلئے ایک عارضی بین الاقوامی فورس تشکیل دینے، علاقے کو غیر مسلح کرنے اور تعمیرِ نو کے عمل کے آغاز پر اتفاق کیا گیا تھا۔