اسمبلی انتخابات کے سی آر کیلئے بڑا چیالنج

   

اشوک دناوتھ
تلنگانہ میں اس کی تشکیل کے بعد تیسرے اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں ۔ 30 نومبر کو ریاست میں رائے دہی ہوگی۔ یہ انتخابات اس قدر اہمیت کے حامل ہیں کہ ان کا تعلق ریاست کی مختلف سیاسی جماعتوں کی بقاء سے ہے اور اس کے انتخابی نتائج ریاست میں سیاست کے اور سیاسی جماعتوں کے سمت کا تعین کردیں گے۔ اس مرتبہ یہ انتخابات کلواکنٹلا چندر شیکھر راؤ المعروف کے سی آر کے لئے بھی ایک سخت آزمائش ہیں۔ کے سی آر، بی آر ایس اور ان کی حکومت کے لئے بہت ہی اہم مرحلہ ہیں کیونکہ ریاست میں کانگریس، بی آر ایس حکومت کے لئے ایک بہت بڑا چیالنج بن کر ابھری ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں کانگریس کی لہر دیکھی جارہی ہے۔ دوسری اپوزیشن جماعتیں بالخصوص بی جے پی بھی ریاست میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے جان توڑ کوشش کررہی ہے لیکن دیکھا جائے تو اصل مقابلہ بی آر ایس اور کانگریس کے درمیان ہے۔ بی آر ایس ایک سال قبل تک ٹی آر ایس ہوا کرتی تھی لیکن قومی سطح پر اہم کردار ادا کرنے کی خواہش کو لے کر کے سی آر نے تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو بھارت راشٹرا سمیتی میں تبدیل کیا ویسے بھی 2014 میں علیحدہ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد سے ہی ریاست میں اقتدار بی آر ایس کے ہاتھوں میں ہے۔ 2014 میں اس نے ملک کی اس نو عمر ریاست میں پہلی مرتبہ اقتدار حاصل کیا اور پھر 2018 کے اسمبلی انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کرکے اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا اور اب کے چندر شیکھر راؤ کی قیادت میں بی آر ایس مسلسل تیسری مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کی خاطر انتہائی سرگرمی سے کوشش کررہی ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر جن کے بارے میں مشہور ہیکہ وہ اپنے فارم ہاوس سے باہر نہیں نکلتے اب انتخابی مہم میں سرگرم ہوگئے ہیں۔ ہر روز کئی ایک انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے عوام کو بتارہے ہیں کہ گزشتہ دس برسوںکے دوران کی حکومت نے عوام کی بہبود کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔ واضح رہے کہ حالیہ عرصہ کے دوران کم از کم 28 اپوزیشن جماعتوں نے جن میں کانگریس، ترنمول کانگریس، عام آدمی پارٹی، این سی پی، شوسینا، ادھوٹاکرے گروپ، ڈی ایم کے، آر جے ڈی، جنتادل (یو) جیسی جماعتیں شامل ہیں مودی کی زیر قیادت بی جے پی اور این ڈی اے کے خلاف ایک مضبو اتحاد INDIA تشکیل دیا ہے اور بی آر ایس نے خود کو اس اتحاد سے دور رکھا ہے حالانکہ کے سی آر خود کو اور اپنی پارٹی کو ایک سیکولر پارٹی کہتے ہیں۔ INDIA کی تشکیل کا مقصد 2024 کے مجوزہ عام انتخابات میں دائیں بازو کی ہندو اکثریتی بی جے پی کا مقابلہ کرتا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ خود انڈیا اتحاد میں شامل بڑی اپوزیشن جماعتوں جیسے کانگریس، این سی پی وغیرہ نے بی آر ایس کو انڈیا میں شامل کرنے سے گریز کیا، تاہم انڈیا اتحاد میں شامل نہ ہونے سے متعلق کے سی آر کے فیصلے کے پیچھے کئی ایک وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہیکہ بی آر ایس قیادت کا ماننا ہے کہ کانگریس اور بی جے پی نے اس ملک پر برسوں حکمرانی کی دونوں جماعتوں نے کئی دہوں تک حکومت کرنے کے باوجود ملک کی ترقی کے لئے وہ نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہئے تھا۔ یہ جماعتیں نے اقتدار کے باوجود ملک کے حالات سدھارنے میں ناکام رہی لیکن صدر پردیش کانگریس مسٹر ریونت ریڈی کے ساتھ ساتھ کانگریس کی ہائی کمانڈ راہول گاندھی یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ بی آر ایس اور کے سی آر بی جے پی کی B ٹیم ہے اور بی جے پی ترقیاتی ایجنڈہ پر کام کرنے کی بجائے فرقہ وارانہ ایجنڈہ پر کام کرتی ہے۔ اس بات کو محسوس کرتے ہوئے کہ کانگریس پوری شدت کے ساتھ بی آر ایس کو بی جے پی کی بی ٹیم کہتے ہوئے عوام میں اس کی شبیہہ کو متاثر کررہی ہے۔ کے سی آر نے ملک میں تیسرے محاذ کے قیام کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے تیسرے محاذ کی تشکیل کے لئے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا چنانچہ ان کی پہلی کوشش ڈسمبر 2018 میں ریاست کے دوسرے اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد شروع ہوئی۔ پھر انہوں نے 2022 میں بھی تیسرے محاذ کی تشکیل سے متعلق اپنی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا لیکن کے سی آر کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسی ریاستوں کی علاقائی پارٹیوں نے ان سے تعاون و اشتراک نہیں کیا جو برسر اقتدار ہیں۔ اگرچہ قومی سیاست میں بے شمار چیالنجس ہیں۔ علاقائی جماعتیں ایک طرح سے انہیں گھانس نہیں ڈال رہی ہیں۔ اس کے باوجود کے سی آر ریاست تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات میں مسلسل تیسری مرتبہ کامیابی حاصل کرنے پر جوش انداز میں سرگرم ہیں۔ وہ ہر حال میں تیسری مرتبہ بھی اقتدار حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ اگرچہ کانگریس اور بی جے پی کے سی آر اور ان کے ارکان خاندان پر بدعنوانیوں کے سنگین الزامات عائد کررہے ہیں لیکن کے سی آر ان الزامات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی حکومت کی شروع کردہ مقبول عام پروگرامس اور اسکیمات پر بھروسہ کئے ہوئے ہے۔ وہ اپنی انتخابی مہم میں عوام کو بار بار یہ بتا رہے ہیں کہ رعیتو بندھو، رعیتو بیمہ، بزرگ شہریوں، بیواؤں، معذورین اور بیڑی ورکروں وغیرہ کے لئے شروع کردہ آسرا پنشن کی فراہمی، کسانوں کو مفت برقی سربراہی، کلیان لکشمی اور شادی مبارک (ان اسکیمات کے تحت ہندو اور مسلم لڑکیوں کی شادی کے لئے 1.16 لاکھ روپے امداد دی جاتی ہے) جیسی اسکیمات شروع کرکے عوام کو راحت دی ہے۔ کے سی آر اور بی آر ایس قائدین عوام کو یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ہماری حکومت نے ریاست میں پانی اور بجلی کا مسئلہ بھی حل کردیا ہے، گھر گھر پینے کا صاف پانی سربراہ کیا جارہا ہے۔ کے سی آر کا یہ بھی دعویٰ ہیکہ ان کی حکومت کی جانب سے شروع کردہ عوامی بہبودی اسکیمات کی نقل کرناٹک مہاراشٹرا اور چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں میں کی جارہی ہے لیکن کے سی آر حکومت کے اسکیمات و پروگرامس آبادی کے ایک بڑے حصہ تک نہیں پہنچ پائے۔ ریاست میں حکومت مخالف لہر پائی جاتی ہے اور اسمبلی انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران عوام میں کے سی آر حکومت کے تئیں عدم اطمینان اور قابل لحاظ مایوسی دیکھی جارہی ہے اور خاص طور پر یہ کہا جارہا ہے کہ کے سی آر نے اپنی پہلی اور دوسری میعاد کے دوران عوام سے جو وعدے کئے ان وعدوں کو تقریباً دس برسوں میں بھی پورا نہیں کیا۔ کے سی آر نے 2014 اور 2018 کے اپنی پارٹی کے انتخابی منشور میں عوام سے ڈھیر سارے وعدے کئے تھے۔ خاص طور پر نگہداشت صحت، تعلیم، ہاوزنگ (امکنہ)، روزگار جیسے شعبوں پر تمام تر توجہ مرکوز کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ ایسے شعبے ہیں جن کا راست تعلق عوام سے ہے۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں کے سی آر نے 3 لاکھ کروڑ روپیوں کے مصارف سے ہر منڈل میں غریب و پسماندہ آبادی کے لئے ڈبل بیڈروم مکانات معہ ہال کچن اور ٹائلٹ تعمیر کروانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن جو ڈبل بیڈروم مکانات تعمیر کئے گئے وہ حیدرآباد اور اس کے اطراف و اکناف میں تعمیر کئے گئے ہیں (اکثر ڈبل بیڈ روم مکانات) جس کے نتیجہ میں عوام میں یہ تاثر ابھرا ہے کہ کے سی آر حکومت نے ڈبل بیڈ روم مکانات کو بھی تشہیر کا ذریعہ بنالیا ہے اور ضرورت مندر مستحق خاندانوں کو ڈبل بیڈروم مکانات کی فراہمی میں وہ سنجیدہ نہیں ہیں۔ نلگنڈہ میں درج فہرست قبائل کی Yerukula کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک بوڑھی بیوہ اس بارے میں تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہم نے اپنے گاؤں میں کوئی نیا مکان (ڈبل بیڈ روم مکان) تعمیر ہوتے نہیں دیکھا اور نہ ہی ان مواضعات میں جہاں ہمارے رشتے دار رہتے ہیں۔ 2014 کے بعد بھی گاؤں میں پہلے کے ہی کچے مکانات ہیں۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات کی مہم میں کے سی آر نے KG سے PG تک مفت تعلیم کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا، انہوں نے کارپوریٹ اور خانگی اسکولوں و کالجس کو حکومت بنتے ہی باقاعدہ بنانے کا اعلان بلکہ وعدہ کیا لیکن ان وعدوں کی بھی تکمیل نہیں کی گئی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2014-15 مالی سال میں شعبہ تعلیم کے لئے 10,962 کروڑ روپے یعنی جملہ بجٹ کا 10.89 فیصد مختص کیا گیا تھا لیکن 2022-23 کے بجٹ میں 16.042 کروڑ روپے مختص کئے گئے جو جملہ بجٹ کا صرف 6.24 فیصد حصہ بنتا ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے ایک پی ایچ ڈی اسکالر کا اس بارے میں کہنا تھا کہ میں ریاست میں کئی ایک یونیورسٹیز قائم کرنے سے متعلق ٹی آر ایس کے وعدے سنتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں تعلیم اور بالخصوص اعلیٰ تعلیم میں کچھ نہیں کیا گیا۔ کے سی آر نے مسلمانوں سے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی شعبہ میں 12 فیصد تحفظات دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس وعدہ پر بھی عمل نہیں کیا جس سے مسلمان پریشان ہیں۔ کے سی آر نے 2014 اور 2018 کے درمیان بیروزگار نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا لیکن وہ وعدہ بھی پورا نہ ہوسکا۔ ایک بات ضرور ہیکہ کے سی آر کو اس مرتبہ ماضی سے کہیں زیادہ سخت چیالنج درپیش ہے۔ کے سی آر نے 24 اضلاع میں سوپر اسپشالیٹی ہاسپٹلس قائم کرنے کا وعدہ کیا لیکن اس وعدہ پر عمل آوری نہیں کی اور حد تو یہ ہیکہ ایک بھی سوپر اسپشالیٹی ہاسپٹل تعمیر نہیں کیا گیا بی آر ایس نے ہر اسمبلی حلقہ میں 100 بستروں پر مشتمل ایریا ہاسپٹل کا وعدہ کیا لیکن اس معاملہ میں بھی پیشرفت نہیں ہوئی۔