اسٹار بکس کے سابق ارب پتی سی ای او ہاورڈ شولٹز بھی امریکی صدارتی امیدوار؟

,

   

امریکہ اس وقت نازک دور سے گزررہا ہے، سی بی ایس نیوز کو انٹرویو
ڈونالڈ ٹرمپ ایک نااہل صدر، ڈیموکریٹس اور ریپبلکنس بھی غیر ذمہ دار
انتخابی امیدوار کی حیثیت سے ووٹ کٹنے اور ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے اندیشے مسترد

واشنگٹن۔28 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) اسٹار بکس کے سابق سی ای او ہاورڈ شولٹز جو ایک ارب پتی شخصیت ہیں، نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا کہ وہ امکانی طورپر 2020ء کے صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے بطور آزاد امیدوار مقابلہ کریں گے۔ سی بی ایس کے نیوز شو 60 منٹس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف مقابلہ کرنے کے لیے سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ ہاورڈ شولٹز خود کو ہمیشہ ایک ڈیموکریٹ حامی امریکی شہری کہلوانے میں فخر محسوس کرتے رہے لیکن آج ان کے نظریات میں تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔ کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ ا مریکہ میں جن دو پارٹیوں کا طریقہ کار رائج ہے ان سے ہٹ کر مرکزی طور پر ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات لڑیں گے کیوں کہ ان کی نظر میں نہ صرف موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہی صدر بننے کے اہل نہیں تھے اور نہ ہی ری پبلکنس اور ڈیموکریٹس بھی اپنی کارکردگیاں اطمینان بخش طور پر انجام دے رہے ہیں۔ انہیں امریکہ کی فلاح و بہبود کے لیے جو کام کرنے چاہئے وہ نہ کرتے ہوئے اس وقت انتقامی سیاست کی جارہی ہے۔ 65 سالہ شولٹز نے بتایا کہ اس وقت امریکہ بہت ہی نازک دور سے گزررہا ہے۔ شولٹز نے نیویارک کے ایک ورکنگ کلاس میں اپنا بچپن اور نوجوانی کا دور گزارا تاہم 1980 کے دہے میں واشنگٹن ہجرت کرجانے کے بعد ان کے قسمت کا ستارہ چمکا اور اسٹار بکس کے نام سے ایک کافی شاپ کا آغاز کیا جس نے ایسی ترقی کی کہ آج اس کی شاخیں دنیا کے ہر ملک میں ہیں۔ انہوں نے ملک کے 21.5 کھرب ڈالرس کے قرضوں کے لیے ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں کو ذمہ دار قرار دیا جو ملک کی آئینی پالیسی کی ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں۔ شولٹز نے ان اندیشوں کو مسترد کردیا کہ انتخابات میں ان کے حصہ لینے سے ووٹ کٹ جائیں گے اور ٹرمپ کے لیے دوسری میعاد کی راہ ہموار ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکی عوام اور امریکہ کی فتح چاہتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ڈیموکریٹ کے ایک اور صدارتی امیدوار ٹیکسان جولین کاسٹرو نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر شولٹز انتخابی میدان میں اترے تو ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر منتخب ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے جو ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ امریکہ میں آج تک تیسری پارٹی کے کسی بھی امیدوار کے انتخابی میدان میں اترنے سے اس نے حالات کو بگاڑا ہی ہے۔ حالات سنوارے نہیں ہیں۔ 1992ء میں قدامت پسند ارب پتی روس پیرٹ نے انتخابی میدان میں اترکر جارج ڈبلیو بش کے ہزاروں ووٹس کٹوادیئے جس سے اقتدار کی باگ ڈور ڈیموکریٹک بل کلنٹن کے ہاتھ میں چلی گئی جبکہ ڈیموکریٹس کنزیومر ایڈوکیٹ رالف نادر پر 2000ء میں ڈیموکریٹ الگور کے ووٹ کٹوانے کا الزام عائد کرتے ہیں جس سے ری پبلکن امیدوار جارج ڈبلیو بش امریکہ کے صدر بن گئے تھے حالانکہ نادر نے ان الزامات کو مسترد کردیاتھا۔