اسی زمین پہ ظالم تھے تم سے پہلے بھی

   

الیکشن کمیشن … سپریم کورٹ کے کٹہرے میں
کرن رجیجو … مسلمانوں پر احسان مت کیجئے

رشیدالدین
سپریم کورٹ کے کٹہرے میں الیکشن کمیشن۔ ملک کا کوئی بھی ادارہ بھلے وہ دستوری کیوں نہ ہو، اگر وہ راستہ بھٹک جائے تو اسے راہِ راست پر لانے کی ذمہ داری سپریم کورٹ کی ہے۔ بہار میں فہرست رائے دہندگان پر ہنگامی نظرثانی کے مسئلہ پر سماعت کے دوران الیکشن کمیشن ملک کی عدالت العالیہ کے روبرو لاجواب دیکھا گیا۔ جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس جے باگچی پر مشتمل بنچ نے الیکشن کمیشن کو محبت سے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ بہار میں جو کچھ کیا جارہا ہے، وہ اختیارات سے تجاوز ہے۔ 30 دن میں تقریباً 8 کروڑ رائے دہندوں کی ہندوستانی شہریت کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا اور ہر شخص سے 11 دستاویزات میں سے کوئی ایک پیش کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ کمیشن نے ہر شخص نہیں بلکہ اس کے ماں باپ کے برتھ سرٹیفکٹس پیش کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ بہار اپنی پسماندگی کے اعتبار سے بیمارو ریاستوں میں شمار کیا جاتا ہے اور وہاں کے رائے دہندوں کیلئے برتھ سرٹیفکٹ پیش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ نوٹ بندی کی طرح ووٹ بندی کا ملک میں یہ پہلا تجربہ ہے اور مغربی بنگال اگلا نشانہ ہے۔ مہاراشٹرا کی طرح بہار اور مغربی بنگال میں بی جے پی کی مدد کیلئے الیکشن کمیشن سرگرم دکھائی دے رہا ہے ۔ امیت شاہ کی وزارت داخلہ سے تعلق رکھنے والے عہدیدار کو چیف الیکشن کمشنر کے عہدہ پر فائز کیا گیا اور دونوں الیکشن کمشنرس کے ساتھ مل کر حکومت کے احسان کا بدلہ چکایا جارہا ہے۔ نریندر مودی حکومت اور بی جے پی نے جس طرح سی بی آئی، انکم ٹیکس، ای ڈی اور دیگر اداروں کو اپنے قابو میں کرلیا ہے، اسی طرح الیکشن کمیشن بھی ان کے اشاروں پر کام کرنے لگا ہے۔ کمیشن پر کنٹرول کی کارروائی اس وقت شروع ہوئی تھی، جب چیف الیکشن کمشنر اور دو الیکشن کمشنران کے تقرر کی کمیٹی سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ہٹاکر مرکزی وزیر قانون کو شامل کیا گیا۔ کمیٹی کے دیگر دو ارکان میں وزیراعظم اور لیڈر آف اپوزیشن ہیں۔ لیڈر آف اپوزیشن اگر کسی نام کی مخالفت کریں تو وزیر اعظم اور وزیر قانون اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے۔ موجودہ الیکشن کمیشن کے تقرر میں یہی کچھ ہوا۔ بی جے پی اور آر ایس ایس ملک کی فہرست رائے دہندگان سے مسلمانوں کے نام حذف کرنے کی سازش تیار کرچکی ہے تاکہ آئندہ بھی بی جے پی کی کامیابی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔ بہار اسمبلی انتخابات سے عین قبل الیکشن کمیشن نے ووٹ بندی کی مہم شروع کی جسے ہنگامی نظرثانی کا نام دیا گیا۔ 2024 لوک سبھا انتخابات میں بہار کے رائے دہندوں نے ووٹ دیا تھا لیکن اچانک ان کی شہریت پر سوال کھڑے کئے جارہے ہیں۔ دراصل اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی۔کانگریس اتحاد کی کامیابی کے امکانات سے بی جے پی خوفزدہ ہے ۔ ووٹ بندی کیلئے الیکشن کمیشن کو میدان میں اتارا گیا تاکہ درپردہ این آر سی پر عمل کیا جائے۔ بہار کے بعد مغربی بنگال اس لئے بھی نشانہ ہے کیونکہ ممتا بنرجی کو مسلمانوں کی تائید حاصل اور وہ بی جے پی اقتدار کا خواب پورا ہونے نہیں دیں گی۔ بہار میں فہرست رائے دہندگان کی از سر نو تیاری کے شیڈول کے اعلان کے بعد سے اپوزیشن اور سیول سوسائٹی نے جو سوالات اٹھائے تھے ، انہی سوالات کو سپریم کورٹ کے ججس نے دہرایا۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے کام پر روک نہیں لگائی تاہم 21 جولائی تک سوالات کا جواب دینے کی مہلت دی اور 28 جولائی کو سماعت مقرر کی گئی۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو کوئی راحت نہیں دی اور نہ ہی کلین چٹ۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا کہ وہ شہریت ثابت کرنے کے دستاویزات کے طور پر آدھار ، ووٹر شناختی کارڈ اور راشن کارڈ کو قبول کریں۔ دراصل سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ایک موقع دیا ہے۔ اگر وہ اس تجویز کو قبول کرلے تو ووٹر لسٹ پر نظرثانی کا عمل جاری رکھنے کی اجازت رہے گی۔ سپریم کورٹ نے بہار کے حالات کے تناظر میں الیکشن کمیشن کو زمینی حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہار کے بیشتر عوام کے پاس جو دستاویزات نہیں ہیں ، ان کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور جو دستاویزات ہیں ، وہ ناقابل قبول ہیں۔ جسٹس سدھانشو دھولیا نے یہاں تک کہہ دیا کہ الیکشن کمیشن عوام سے جن دستاویزات کی مانگ کر رہا ہے، اگر ان سے مانگا جائے تو وہ بھی نہیں دے پائیں گے۔ جب سپریم کورٹ کے جج کے پاس دستاویزات نہیں تو عوام کہاں سے لائیں گے؟ آخر بہار کے کروڑہا رائے دہندوں کے ساتھ ظلم کا یہ معاملہ کیوں ہے ؟ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے تین سوالات کے جواب مانگے ہیں جن میں خصوصی مہم کا اختیار ، فہرست رائے دہندگان پر نظر ثانی کے طریقہ کار کا جواز اور اسمبلی الیکشن سے عین قبل نظرثانی کے مقاصد شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے واضح کردیا کہ شہریت کے تعین کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل نہیں بلکہ مرکزی وزارت داخلہ کا کام ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکلاء کو سپریم کورٹ کے آسان سوالات پر لاجواب اور شرمندگی محسوس کرتے دیکھا گیا۔ ایک مرحلہ پر کمیشن کے وکیل نے ریمارک کیا کہ ایک بھی درخواست گزار کا تعلق بہار سے نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر درخواست گزار بہار کے نہیں ہیں تو کمیشن کو بہار میں من مانی کا اختیار (لائسنس) مل جائے گا؟ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں جن کو ووٹر کے طور پر قبول کیا گیا، محض ایک سال میں ان کی شہریت پر سوال اٹھانا دراصل مسلمانوں کے نام حذف کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔ دستاویزات کے مسئلہ پر جب ہنگامہ ہوکے تو کیا الیکشن کمیشن کو کہنا پڑا کہ جن کے نام 2003 کی فہرست میں شامل ہیں ، ان کے لئے صرف فارم داخل کرنا کافی رہے گا اور دستاویزات بعد میں بھی جمع کئے جاسکتے ہیں۔ یہ دراصل ووٹ بندی کارروائی جاری رکھنے کی ایک چال ہے۔ بعد میں ایسی تمام درخواستوں کو مسترد کردیا جائے گا جن کے ساتھ دستاویزات نہ ہوں، بہار کے شہریوں سے اپنا اور والدین کا برتھ سرٹیفکٹ مانگنے سے پہلے چیف الیکشن کمشنر اور دونوں الیکشن کمشنران کے علاوہ کمیشن کے تمام اعلیٰ عہدیداروں کو اپنے اپنے اور والدین کے برتھ سرٹیفکٹس عوام کیلئے آن لائین پیش کرنا چاہئے۔ پھر کیسے مان لیا جائے کہ وہ ہندوستانی شہری ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور تمام وزراء کیا اپنا اور والدین کا برتھ سرٹیفکٹ پیش کرسکتے ہیں ؟ ممکن ہے نریندر مودی پیش کردیں کیونکہ ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘۔ ویسے بھی نریندر مودی کی ڈگری پر آج تک بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
مرکزی وزیر اقلیتی امور کرن رجیجو نے یہ کہتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے کہ ملک میں اقلیتوں کو ہندوؤں سے زیادہ سہولتیں اور تحفظ حاصل ہے ۔ کرن رجیجو نے کس پس منظر میں یہ بیان دیا اور کس کے اشارہ پر انہوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا اس کا اظہار تو آنے والے دنوں میں ہوجائے گا لیکن مرکزی وزیر نے اپنے بیان کے ذریعہ مسلمانوں کو نریندر مودی حکومت سے ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی ہے ۔ وقف ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں مسلمانوں کے احتجاج کے دوران کرن رجیجو کا یہ بیان اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ مرکزی حکومت کسی بھی احتجاج یا مخالف حکومت سرگرمیوں کو برداشت نہیں کرے گی۔ ان کا یہ کہنا کہ اقلیتوں کو ہندوؤں سے زیادہ سہولتیں اور تحفظ حاصل ہے، دراصل آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی سوچ کا حصہ ہے ۔ کرن رجیجو بھلے ہی جدوجہد آزادی میں شامل نہیں رہے لیکن انہوں نے عمر کے اس حصہ میں ہندوستان کے حالات کا گہرائی سے جائزہ لیا ہوگا۔ ہندوستان میں آج بھی مسلم جہدکاروں کو عدالتوں سے ضمانت حاصل نہیں ہوتی ۔ عمر خالد اور دیگر کئی جہد کار کئی برسوں سے محض اس لئے جیل میں بند ہیں کیونکہ پولیس نے ان کے خلاف چارج شیٹ داخل نہیں کی۔ سڑکوں اور ٹرینوں میں برسر عام مسلمانوں کی لنچنگ شائد کرن رجیجو کی نظر میں مسلمانوں کا تحفظ ہے۔وزیراعظم نریندر مودی نے شمشان اور قبرستان کی سیاست کی اور یہاں تک کہا کہ ہندو خواتین کے منگل سوتر زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کو دیئے جائیں گے۔ نریندر مودی کی مسلمانوں سے نفرت پر مبنی تقاریر کا لامتناہی سلسلہ ہے۔ انہوں نے لباس دیکھ کر فسادیوں کی پہچان کی بات کہی تھی۔ مساجد ، دینی مدارس ، درگاہوں اور خانقاہوں پر بلڈوزر کارروائیاں کیا مسلمانوں کا تحفظ ہے ؟ گاؤ رکھشا کے نام پر حملے، مساجد میں اذاں پر پابندی ، سڑکوں پر جمعہ اور عیدین کی ادائیگی پر امتناع ، مساجد پر مندر ہونے کی دعویداری ، مسلمانوں کو پاکستانی ، بنگلہ دیشی اور جہادی کہنا کیا یہ تمام مسلمانوں کا تحفظ اور ہندوؤں سے زیادہ سہولتیں ہیں؟ آپریشن سندور کے وقت مسلمانوں پر پاکستان کی تائید کا شبہ کیا گیا تھا۔ ملک میں این آر سی ، این پی اے اور یکساں سیول کوڈ کی تیاری اور طلاق ثلاثہ پر پابندی کے ذریعہ شریعت میں مداخلت کیا مسلمانوں کا تحفظ ہے؟ کرن رجیجو کو جان لینا چاہئے کہ اقلیتوں کے ساتھ دستوری حقوق کی پابندی حکومت کی جانب سے کوئی احسان یا مہربانی نہیں ہے۔ مسلمانوں کو مودی یا رجیجو کی ہمدردی کی ضرورت نہیں بلکہ مسلمان دستوری حقوق کو اپنا حق تصور کرتے ہیں اور یہی حقوق ان کے لئے کافی ہیں۔ پاکستان کے خلاف یلغار کرنے والی کرنل صوفیہ قریشی کا بی جے پی قائدین نے کس طرح احترام کیا ، یہ دنیا جانتی ہے۔ ندیم شاد نے شائد آج کے حالات پر یہ شعر کہا ہے ؎
اسی زمین پہ ظالم تھے تم سے پہلے بھی
اسی زمین کے اندر کہیں پڑے ہوں گے