مساجد کی شہادت پر پولیس اسٹیشن میں
شکایت کا عدم اندراج
محمد نعیم وجاہت
شہر حیدرآباد اپنی مہمان نوازی۔ ایثار و قربانی۔ لذیذ لوازمات، پیار محبت، آپسی بھائی چارگی کے لئے ساری دنیا میں شہرت رکھتا ہے۔ حیدرآباد کے فرخندہ بنیاد کے بارے میں ایک مرتبہ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ یہ منی انڈیا یا چھوٹا ہندوستان ہے۔ اس شہر کے بانی قلی قطب شاہ نے جس وقت یہ تاریخی شہر بسایا تھا اس وقت انہوں نے یہ دعا کی تھی کہ یا اللہ اس شہر کی آبادی اس قدر بڑھاکے لوگوں کی تعداد سمندر کے مچھلیوں سے بھی کہی زیادہ ہو کہتے ہیں کہ بانی شہر محمد قلی قطب شاہ ایک نیک دل حکمراں تھے اور اللہ تعالیٰ نے اس نیک بادشاہ کی دعا قبول کرلی اور آج گریٹر حیدرآباد کی آبادی ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ مسلم ناموں سے موسوم شہروں، سڑکوں، ریلوے اسٹیشن وغیرہ کے نام تبدیل کرنا بی جے پی کا مشغلہ بن گیا ہے اور یہ اس کا ایجنڈہ ہے۔ جس سے اس کی فرقہ وارانہ سوچ اور نظریہ ظاہر ہوتا ہے۔ بی جے پی شہر حیدرآباد کا نام تبدیل کرکے بھاگیہ نگر سے موسوم کرنا چاہتی ہے اور شہر نظام آباد کا نام بھی بی جے پی کو کھٹک رہا ہے۔ یہ سمجھنے آنے والی بات ہے مگر ہمارے چیف منسٹر کے سی آر کو ہوا کیا ہے کہیں ان کا جھکاو آہستہ آہستہ بی جے پی کی طرف تو نہیں ہو رہا ہے۔ ٹی آر ایس کے دور حکومت میں محبوب نگر کے نام کو تبدیل کرنے کی خفیہ سازش پر عمل کیا جارہا ہے اور محبوب نگر کو پالمور سے پکارا جانے لگا ہے۔ آبپاشی پراجکٹس ۔ یونیورسٹیز کے علاوہ دوسرے نام محبوب نگر کے بجائے پالمور سے موسوم کئے جارہے ہیں۔ یہ سب بغیر شور شرابہ کے کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب سے شہر حیدرآباد کے نام سے موسوم حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کا نام تبدیل کرتے ہوئے اس کو سابق وزیر اعظم نرسمہا راو کے نام سے موسوم کرنے کی خواہش کرتے ہوئے چیف منسٹر کے سی آر نے 21 جون کو وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے اس سنٹرل یونیورسٹی کا نام تبدیل کرنے کی درخواست کی ہے۔ واضح رہے کہ 1973 میں 6 نکاتی فارمولے کے تحت حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ تقریباً 5 ہزار ایکڑ اراضی پر یہ یونیورسٹی پھیلی ہوئی ہے۔ اس یونیورسٹی میں 60 علوم کے شعبہ کام کرتے ہیں۔ 5 ہزار سے طلبہ اس یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں جنہیں 400 فیکلٹی تعلیم دیتے ہیں۔ 90 فیصد طلباء و طالبات یونیورسٹی میں قیام کرتے ہوئے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اسی یونیورسٹی میں تحقیق کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ خاص طور پر یہ یہاں طبی افادیت کے 315 پودے پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد سنٹرل کو ’’بوٹانیکل گارڈن‘‘ (نباتیاتی چمن) بھی کہا جاتا ہے۔ اسی یونیورسٹی کو ہندوستان کے تمام یونیورسٹیز میں یہ اعزاز حاصل ہیکہ اس کے دامن میں 734 اقسام کے پھول پائے جاتے ہیں۔ دودھ دینے والے جانوروں کی 10 رنکیتے والے جانوروں 115 اقسام پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ 220 اقسام کے چڑیا
Birds
بھی یہاں پائے جاتے ہیں۔ ایسی یونیورسٹی کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس کی مختلف گوشوں سے مخالفت بھی ہو رہی ہے۔ جہاں تک پی وی نرسمہا راو کا سوال ہے وہ ہمارے ملک کے 9 ویں وزیر اعظم تھے ان کے بارے میں وزیر اعظم مودی اور چیف منسٹر کے سی آر کے خیالات میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے اور انکا ماننا ہے کہ نرسمہا راو نے غیر معمولی اصلاحات کے ذریعہ ملک کے معاشی ڈھانچے کو استحکام بخشا ہے۔ بحیثیت وزیر اعظم 1991 تا 1996 تک نرسمہا راو نے خدمات انجام دی تھی اگر حقیقت کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے والے پی وی نرسمہا راو نہیں بلکہ اسی وقت کے وزیر فینانس ڈاکٹر منموہن سنگھ تھے۔ صرف جذبات کا استحصال کرتے ہوئے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چیف منسٹر کے سی آر مسلم ناموں کے شہروں سے بی جے پی کے مشغلہ اور نرسمہا راو سے کانگریس کی بے اعتنائی کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے ایک تیر سے دو نشانے لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ کانگریس کے اور حکومت میں ہی تلنگانہ کے سب سے بڑے اور طویل ترین عبوری ایل نرسمہا راو کے نام سے موسوم کرتے ہوئے پی وی این آر رکھا گیا ہے۔
حیدرآباد کے نام سے موسوم سنٹرل یونیورسٹی کے نام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پھر بھی قیادت اور انتخابات میں ٹی آر ایس کی تائید کرنے والی مذہبی و رضاکارانہ تنظیمیں مجرمانہ طور پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہیں۔ جو قوم و ملت کے لئے حیران کن ہیں۔ حکومت کے ہر فیصلوں کی جب آنکھ بند کرکے تائید کی جاتی ہے اور ذاتی مفادات کے لئے سرکاری چوکھٹ پر ماتھا ٹیکا جاتا ہے تو ایسے قائدین اور رہنماوں کو عارضی فائدہ ہوتا ہے مگر ملت ہمیشہ نقصان میں رہتی ہے۔ ان پر یہ مشہور کہاوت ’’لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ہے‘‘ صادق آتی ہے۔ یہی نہیں تاریخی سکریٹریٹ اور اس کے احاطے میں موجود دو مساجد کا بھی انہدام کیا گیا جس پر اپنے آپ کو مسلمانوں کے چمپین ہونے کا دعویٰ کرنے والی قیادت اور ان کی سرپرستی میں کام کرنے والی مسلم متحدہ محاذ کی خاموشی معنی خیز ہے۔ روزنامہ سیاست کو سب سے پہلے مساجد کے انہدام کی خبر شائع کرنے کا اعزاز ہے۔ جس کے دوسرے دن قیادت محاذ کے اراکین نے صحافت کے لئے جو بیان جاری کیا ہے۔ وہ کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے لکھا ہے۔ میڈیا میں مساجد کے انہدام کے تعلق سے جو خبر شائع ہوئی ہے اگر وہ صحیح ہے تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور دوبارہ اسی مقام پر مساجد تعمیر کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ جو احتجاج تھا اس میں غلامی جھلک رہی تھی۔ بیان میں چیف منسٹر سے معذرت خواہی کرنے، ریاست بھر میں احتجاج کرنے اور حکومت کی تائید سے دستبردار ہو جانے کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا اور ناہی مساجد کے انہدام کے خلاف دارالسلام میں کوئی احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا اور ناہی شہر حیدرآباد کے علاوہ تلنگانہ کے کسی ضلعی ہیڈکوارٹر پر کوئی احتجاج کیا گیا۔ مساجد کے انہدام کے تین چار دن بعد چیف منسٹر نے ایک سرکاری پریس نوٹ جاری کرتے ہوئے سکریٹریٹ کے انہدام کے دوران ملبہ گرنے سے مذہبی مقامات کو نقصان پہنچنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کے مصارف سے علیحدہ اور مندر تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا جس کا قیادت اور متحدہ محاذ نے گرمجوشی سے خیرمقدم کیا، جبکہ ان قائدین اور مذہبی رہنماوں نے چیف منسٹر کی جانب سے صرف ایک مسجد تعمیر کرنے کا وعدہ کیا۔ دوسری مسجد کے بارے میں چیف منسٹر سے کوئی وضاحت طلب نہیں اور یہ بھی نہیں پوچھا کہ آیا کیا مسجد وہیں تعمیر کی جارہی ہے یا دوسری جگہ تعمیر کی جارہی ہے۔ بس خیرمقدم کردیا۔ کسی نے مساجد کے انہدام کے خلاف چیف منسٹر کے خلاف کسی بھی پولیس اسٹیشن میں کوئی شکایت درج نہیں کروائی۔ اگر اس طرح حکومت کی اندھی تائید جاری رہی تو مسلمانوں کا مستقبل تاریک بن جائے گا اور اس کے لئے قیادت اور مذہبی رہنما ذمہ دار ہوں گے۔ حکمراں جماعت ٹی آر ایس کے مسلم قائدین پر ترس آرہا ہے۔ وزیر داخلہ محمد محمود علی اپوزیشن جماعتوں پر عوام کو اکساتے ہوئے ریاست کی گنگا جمنی تہذیب کو نقصان پہچنچانے کا الزام عائد کرتے ہوئے حکومت کی جی حضوری کررہے ہیں اور چیف منسٹر کے بیان کا وہ بھی خیرمقدم کررہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ٹی آر ایس کے مسلم قائدین نے مساجد کے انہدام کی تردید کی ہے۔ ٹی آر ایس کے دوسرے مسلم قائدین اپنے عہدے بچانے یا مستقبل میں عہدے نہ ملنے کے ڈر سے سب کے سب خاموش ہے۔ کانگریس نے اس کی مذمت کی، گاندھی بھون میں ایک اجلاس طلب کرتے ہوئے ایک قرار داد منظور کی اور چیف منسٹر کا پتلا نذر آتش کیا اور گھروں پر سیاہ پرچم لہرانے کی مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے خاموش ہوگئے۔ کانگریس نے بھی مسجد مندر کے انہدام پر ریاست بھر میں کوئی احتجاج درج نہیں کروایا البتہ کانگریس کے مسلم قائدین اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی کوشش کی ہے۔
تاریخی عثمانیہ ہاسپٹل بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ ایک زمانے میں جنوبی ہند کے عوام کا علاج کرنے والا دواخانہ اتنا بیمار ہوگیا ہے کہ اس کو خود علاج کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اس تاریخی عمارت کو انہدام کرنا چاہتی تھی تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس تاریخی یادگار عمارت کو منہدم کرنے کے بجائے اس کی تزئین نو کرنے اور ہاسپٹل کے احاطے میں موجود خالی اراضیات پر نئی تعمیرات کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور تاریخی عمارت کے انہدام کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع ہوئی تھی تاہم چیف منسٹر نے ہاسپٹل کی خستہ حالت کو دور کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے بلکہ اس ہاسپٹل کو ملبہ میں ڈھل جانے کے لئے چھوڑ دیا جس کی وجہ سے تھوڑی سی بارش سے عثمانیہ ہاسپٹل سیلاب میں تبدیل ہو رہا ہے۔ مریضوں کا پانی میں علاج کیا جارہا ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر ہاسپٹل سے صرف 5 تا 7 کیلو میٹر پر قیام کرتے ہیں مگر انہوں نے کبھی عثمانیہ ہاسپٹل کا معائنہ کرنے مریضوں کے مسائل سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی وزیر صحت ایٹالہ راجیندر نے بھی ہاسپٹل کا دورہ کرنا گوارہ نہیں کیا۔